مفاہمت کی سیاست کے بدلتے رنگ

مزمل سہروردی  منگل 18 فروری 2020
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پاکستان کی سیاست کا منظر نامہ بدلتا رہتا ہے۔ چند دن قبل منظر نامے پر ن لیگ اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان مفاہمت کا رنگ سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ ہر طرف مفاہمت کی بازگشت تھی۔ ن لیگ کی جانب سے آرمی ایکٹ میں ترامیم کے لیے غیر مشروط حمایت نے سیاسی منظر نامہ بدل دیا۔

ترامیم کی حمایت اور ان کے پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد کے چند اہم واقعات نے مفاہمت کے رنگ چوکھے کر دیے۔ چند ضمانتوں نے تو ماحول ہی بدل دیا۔ پروڈکشن آرڈر جاری ہونے لگے۔ ہر طرف مفاہمت کا رنگ نظر آنے لگا۔

بات صرف آرمی ایکٹ میں ترامیم کی غیر مشروط حمایت تک محدود نہیں تھی۔ بلکہ اس کے بعد چیف الیکشن کمشنر اور اراکین کی تعیناتی پر مفاہمت کے رنگ مزید نکھرنے لگے۔ یہ مفاہمت بھی حکومت کی جیت نہیں تھی بلکہ یہ بھی ن لیگ اور دیگر اپوزیشن کی جیت کے زمرے میں دیکھی گئی۔سب کو نظرآرہا تھا کہ اس میں اپوزیشن کی جیت ہوئی ہے۔ عمران خان کی حکومت ہاری ہے۔ سیاسی منظر نامہ پر ایسے بادل چھانے لگے جن سے ن لیگ کی مفاہمت کی بارش ہوتی نظر آرہی تھی۔ سوشل میڈیا نے اس ماحول کو تیز کر دیا۔ ایسی خبریں بھی سامنے آنے لگیں جن میں دعویٰ کیا گیا کہ اسٹبلشمنٹ ن لیگ کی قیادت سے ملنے لندن گئی ہے ۔  حالانکہ یہ خبر غلط تھی لیکن سوشل میڈیا پر اس نے خوب ماحول بنایا۔

مفاہمت کے اس ماحول سے حکومت کمزور ہوتی نظر آئی۔ ایک ماحول بننا شروع ہو گیا کہ ن لیگ دوبارہ اقتدار میں آرہی ہے۔لوگ تاریخیں دینا شروع ہو گئے۔ کوئی کہنے لگا مارچ میں حکومت گئی۔ اتحادیوں کی ناراضی نے بھی حکومت کو کمزور کیا۔ ایسے میں آٹے اور چینی کے بحران نے حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا۔ بہر حال ایک ماحول بن گیا کہ ن لیگ کے اقتدار میں آنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ شہباز شریف کے  وزیر اعظم بننے کی باز گشت ہر طرف سنائی دینے لگی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے بھی نام سامنے آنے لگے۔ پنجاب اسمبلی میں بھی ایسی تقریریں ہو گئیں جن میں تبدیلی کی خوشخبریاں سنائی جانے لگیں۔

یقینا یہ صورتحال عمران خان اور ان کی ٹیم کے لیے اچھی نہیں تھی۔ ان کی حکومت سیاسی طور پر ایک کمزور حکومت ہے۔ وہ اسٹبلشمنٹ کی طاقت سے اپنی حکومت کو مضبوط رکھتے ہیں۔ اگر اسٹبلشمنٹ نیوٹرل ہو جائے تو عمران خان کی سیاسی حکومت کے لیے چلنا مشکل ہو جائے گا۔ عمران خان کے پاس اس کے سوا بیچنے کے لیے کیا ہے کہ وہ  لاڈلے ہیں اور دوستوں کے لیے وہ  واحد چوائس ہیں۔ اسٹبلشمنٹ اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان محاذ آرائی کا عمران خان کو فائدہ ہوا ہے۔ انھوں نے اس لڑ ائی کی بنیاد پر اپوزیشن کو مائنس کر دیا ہے۔ سب کو خاموش کرایا ہوا ہے۔ خراب کارکردگی کے باوجود ہر طرف خاموشی ہے۔ مہنگائی کے باوجود خاموشی ہے۔

ادھر ن لیگ بھی اس ماحول کو انجوائے کرنے لگی ہے۔ مریم کے باہر جانے کا شور مچنے لگا۔ حمزہ کی ضمانت کو لوگ یقینی سمجھنے لگے۔شہباز شریف کے فلسفہ مفاہمت کو سب کامیاب سمجھنے لگے۔ مریم کی خاموشی کو مثبت سمجھا جانے لگا۔ ن لیگ میں مزاحمتی گروپ پیچھے ہٹنے لگا۔وہ بھی مفاہمت کے ثمرات کے سامنے سرنگوں نظر آنے لگے۔

ایک رائے بننے لگی کہ محاذ آرائی سے بہت نقصان ہوا ہے۔ مفاہمت نے چند دن میں رنگ دکھا دیا ہے۔ اب نقصان کا مداوا کرنے کا وقت ہے۔ لیکن اب گزشتہ چند دن سے مفاہمت کے رنگ پھیکے پڑتے نظر آرہے ہیں۔ سرگوشیاں شروع ہو گئی ہیں کہ مفاہمت کہیں ٹوٹ تو نہیں گئی۔ خدشات کا اظہار ہونے لگ گیا ہے کہ کہیں استعمال کر کے پھینک تو نہیں دیا گیا۔ نیب کے دوبارہ متحرک ہونے نے خدشات کو گہرا کیا ہے۔ شریف فیملی کے دفاتر پر چھاپے نے سب کو حیران کر دیا۔ پھر حمزہ کی ضمانت مسترد ہو گئی۔ مریم کے باہر جانے میں تاخیر ہو رہی ہے۔ ماحول بن گیا ہے کہ انھیں جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ نواز شریف کی والدہ کے اکیلے باہر جانے نے بھی خدشات کو گہر ا کیا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت مقتدر حلقے شدید دباؤ میں ہیں۔ عمران خان اس مفاہمت کے خلاف ہیں۔ انھیں یہ مفاہمت قابل قبول نہیں ہے۔ اسی لیے جب یہ مفاہمت چھا رہی تھی توعمران خان کمزور ہو رہے تھے۔ اقتدار ان کے ہاتھ سے نکلتا نظر آ رہا تھا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان نے مفاہمت کو بریک لگانے کے لیے کہا ہے۔ گزشتہ دنوں وزیر اعظم کے ساتھ ایک اہم ملاقات کی بہت باز گشت ہے۔کہا جا رہا ہے کہ اس ملاقات میں مفاہمت پر حکومتی خدشات پر بات ہوئی۔ گلے شکوے ہوئے۔ عمران خان کی جانب سے اپوزیشن کو دیے گئے ریلیف پر شدید تحفظات پر اظہار کیا گیا۔ اس بات پر اصرار کیا گیا کہ اپوزیشن کے ساتھ سختی کی جائے۔ اس ماحول کو ختم کیاجائے۔بس اپوزیشن کو جتنا ریلیف دے دیا گیا وہی کافی ہے۔

ایسے میں عمران خان کے دباؤ کی وجہ سے  مفاہمت کے رنگ کو دوبارہ پھیکا کر دیا گیا ہے۔ لیکن دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ اس بار بے شک مفاہمت کے رنگ پھیکے پڑ گئے ہیں، ن لیگ اور دیگر اپوزیشن پر سختیاں دوبارہ شروع کی جا رہی ہیں۔ لیکن اپوزیشن کو  صورتحال کی پوری سمجھ ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس وقت اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ن لیگ اقتدار کے حصول میں دلچسپی نہیں رکھتی ہے۔ بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ کوئی بھی ان ہاؤس تبدیلی کے حق میں نہیں ہے۔ اپوزیشن کی جماعتیں اب عمران خان کو اپنے لیے خطرہ نہیں سمجھ رہی ہیں۔ ان کی رائے میں عمران خان اپنی کارکردگی کی وجہ سے دن بدن غیر مقبول ہو رہے ہیں۔

مہنگائی اور دیگر عوامل نے حکومت کی عوامی ساکھ کو کمزور کر دیا ہے۔ اس لیے ن لیگ میں یہ رائے بن گئی ہے کہ عمران خان کو مزید وقت دیا جائے۔ اگر عمران خان کو ایک سال مزید دیا جائے تو وہ دوبارہ اقتدار میں آنے کی پوزیشن میں نہیں رہیں گے۔ ن لیگ کے لیے پنجاب اور کے پی بہت اہم ہیں۔ اس لیے ن لیگ کا خیال ہے کہ اگر عمران خان کو ایک سال مزید دیا جائے تو آیندہ انتخابات میں عمران خان  ان کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔ایک رائے ہے کہ وہ بھی زرداری بن جائیں گے۔ اسی لیے شہباز شریف نے وطن واپسی کا کوئی اعلان نہیں کیا۔ ان کی واپسی کے حوالے سے قیا س آرائیاں کی گئیں لیکن کوئی شیڈول سامنے نہیں آیا ہے ۔

اپوزیشن چاہتی ہے کہ آیندہ انتخابات میں عمران خان کو لاڈلے کی حیثیت حاصل نہ ہو۔ن لیگ کی درخواست ہے کہ 2018کی طرح ان کا راستہ زبردستی نہ روکا جائے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ یہ مفاہمت اب نہیں ٹوٹے گی۔ اس کے رنگ گہرے اور پھیکے ہوتے رہیں گے۔ نرمیاں اور سختیاں دونوں چلتی رہیں گی۔ گرفتاریاں بھی ہوںگی۔ ضمانتیں بھی ہوںگی۔ آپ کو بریت کے فیصلے بھی ملیں گے۔ آہستہ آہستہ مفاہمت منطقی انجام کو پہنچے گی۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ن لیگ ثابت قدم رہے۔ کوئی مزاحمتی گروپ دوبارہ نہ چھا جائے۔ یہ نہ ہوجائے کہ مریم کو جانے نہیں دیا گیا،اس لیے خاموشی توڑ دی جائے۔ ن لیگ نے چپ کا جو روزہ رکھا ہے۔ اس کو وقت سے پہلے توڑنے سے اجتناب کرنا ہوگا۔ مشکل روزہ ہے لیکن پورا رکھنے سے ہی منزل ملے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔