افغان مہاجرین کی واپسی

ایڈیٹوریل  بدھ 19 فروری 2020
حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر سے افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل جاری ہے۔ فوٹو: فائل

حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر سے افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل جاری ہے۔ فوٹو: فائل

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ایک ارب سے زائد آبادی والا ملک بھارت غلط سمت میں جا رہاہے ، آج کے بھارت کی آئیڈیالوجی نفرت پر مبنی ہے، جسے کنٹرول نہ کیا گیا تو وہاں بڑی خونریزی کا خدشہ ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں مودی کی انتہا پسند سوچ نے 80 لاکھ کشمیریوں کوکئی ماہ سے محاصرے میں لے رکھا ہے جس پر اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

پیر کو یہاں عالمی مہاجرین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ آج کا بھارت نہرو اور گاندھی کا بھارت نہیں رہا ، مودی حکومت نازی فلسفے کو پروان چڑھا رہی ہے، متنازع شہریت بل سے20 کروڑ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

بی جے پی لیڈرز احتجاج کرنے والے مسلمانوں کو پاکستان جانے کا کہتے ہیں ، اس سے پاکستان کے لیے مہاجرین کا بڑا مسئلہ پیدا ہو گا۔ اس سے پہلے کہ حالات انتہائی سنگین ہو جائیں عالمی برادری بھارتی پالیسیوں کا نوٹس لیتے ہوئے اپنا کردار ادا کرے تاکہ انتہا پسندی کو ختم کیا جا سکے۔ کانفرنس سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریس ، وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر فلپوگرانڈی ، وفاقی وزیرسیفران صاحبزادہ محبوب سلطان ، افغانستان کے نائب صدر دوئم سرور دانش نے بھی خطاب کیا۔

پاکستان کو درپیش چیلنجز عالمی برادری کے لیے کسی ٹیسٹ کیس سے کم نہیں ، سوویت یونین کے زوال اور نائن الیون کے بعد خطے نے تزویراتی ، سیاسی اور عسکری حوالوں سے جن ہولناکیوں کا سامنا کیا اس کو بیان کرنے کے لیے کسی محدود بیانیے کی نہیں ایک کھلے مکالمے کی ضرورت تھی۔ پاکستان کو افغان پناہ گزینوں، دہشتگردی، انسانی مصائب اور بحالی وآبادکاری کے ضمن میں اپنا درد وغم اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریس کے سامنے کھل کر بیان کرنا چاہیے تھا، سیکریٹری جنرل کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے لیے زمینی حقائق سے آگاہ کرنے کی اولین ضرورت تھی ۔

وزیر اعظم نے صائب بات کی کہ پاکستان کیلیے مہاجرین کا مسئلہ پیدا ہو گا، تاہم یہ بات اس وقت تک تشنہ رہ جائے گی جب تک افغان مہاجرین کی پاکستان آمد ، ان کی طویل عرصے تک میزبانی اور اس کے نتیجے میں پاکستانی سماج ، معیشت اور سیاست پرپاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت کے استدلال اور موقف کی عالمی برادری سنجیدگی سے تفہیم وادراک پر تیار نہ ہو۔

لہذا عالمی مہاجرین کانفرنس کا بنیادی ایجنڈا افغان مہاجرین اور افغانستان کی موجودہ سیاسی ، سماجی اور اقتصادی صورتحال کو سامنے رکھ کر اس سوال کا جواب حاصل کرنا ضروری تھا کہ اگر بین الاقوامی اشاریوں کی روشنی میں افغانستان میں سیاسی اور معاشی استحکام آچکا ہے، صدر اشرف غنی نے انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی ہے ، افغانستان اب انتظامی طور پر اس قابل ہے کہ اپنے شہریوں کو پاکستان سے واپس بلانے کی دعوت دے سکتا ہے تو افغان مہاجرین کو بلاتاخیر اپنے وطن لوٹ جانا چاہیے۔

وزیراعظم عمران خان نے زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے درست کہا کہ افغانستان میں تنازع کا جاری رہنا پاکستان کے مفاد میں نہیں، ان کا کہنا تھا کہ میری حکومت افغان امن عمل کے لیے جو ڈیڑھ برس کے دوران ہوسکتا ہے ،کررہی ہے ۔ دعا ہے افغانستان میں امن مذاکرات کامیاب ہوں۔ افغان عوام نے40 برس میں کسی بھی قوم سے زیادہ مشکلات اٹھائی ہیں۔

وزیراعظم نے افغان صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’ آپ نے کہا ہے کہ پاکستان میں سیف ہیون یا دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانے ہیں تو میں یہ واضح کر دوں کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے کوئی خفیہ ٹھکانے موجود نہیں۔ نائن الیون کے بعد تقریباً 27 لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں موجود تھے اور مختلف کیمپوں میں تھے، اتنی بڑی تعداد میں جب مہاجرین موجود ہوں توان کی وطن واپسی تک انتہاء پسندی کے خاتمہ کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی لیکن پاکستان نے اسی لیے سرحد پر باڑ لگانے کا کام شروع کر رکھا ہے اور مہاجرین کو وطن واپس بھجوانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

پاکستان افغانستان میں دیرپا امن کا حامی ہے۔ وزیر اعظم دنیا سے یہ بھی کہیں کہ افغستان نے افغان مہاجرین کی میزبانی میں کوئی کسر نہیں اٹھا  رکھی ، اس میزبانی میں اسے اربوں ڈالرکا خسارہ ہوا ، اس پر دہشت گردی کا عذاب مسلط کیا گیا ، معیشت برباد اور فاٹا کا علاقہ اور اس کے عوام مصائب کا شکار ہوئے، طالبان اور القاعدہ نے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کیا، پاکستان کی ریاستی رٹ کو دہشتگردوں نے چیلنج کیا ، افغان پناہ گزینوں کوکیمپوں تک محدود کرنے کی کوئی حکمت عملی اختیار نہیں کی گئی، دہشت گرد ماسٹر مائنڈز نے انھیں استعمال کیا، ہیروئن اورگن کلچر کو فروغ ملا جب کہ پاکستان کو اتنا کچھ کرنے کے باوجود ڈو مور کے سوا کچھ نہ ملا۔ افغانستان نے پہلے دن سے پاکستان دشمنی کو اپنے بیانیے کی شکل دے دی ،حامد کرزئی سے لے کر صدر اشرف غنی تک مہاجرین کی میزبانی کو فراموش کر گئے۔

ہر عالمی فورم پر پاکستان پر الزامات لگائے گئے ، لازم تھا کہ پاک افغان سرحدی ’’ باڑ ‘‘ ابتدا میں لگائی جاتی ، تاکہ دہشتگردی ، اسمگلنگ اور تخریب کاری کا راستہ بند ہو جاتا۔ لہذا  حکام افغان مہاجرین کے مسئلے کے انسانی پہلو پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کریں ، پاکستان نے بھائی چارہ ، دوستی، انسانیت اور مروت کے ناتے ہر ممکن کوشش کی کہ افغانستان پاکستان سے دوطرفہ تعلقات کو معمول پر لائے، مگر بے سود۔ اب افغان جنگ کا خاتمہ لازمی ہے، امریکا افغانستان سے واپسی کے لیے پر تول رہا ہے، طالبان سے سیز فائر اور معاہدہ کے امکانات روشن ہیں ، اس لیے ارباب اختیار پاک افغان صورتحال کے تناظر میں حالیہ مہاجرین کانفرنس کے نتائج سے استفادہ کرے، ان عناصر کی سازش اور دہشت گردی کی وارداتوں کو روکنا اور پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری پر حملوں میں ملوث ماسٹر مائنڈز کو قانون کے حوالے کرنا ناگزیر ہے۔

یاد رکھنا چاہیے کہ افغانستان میں امن تک مہاجرین کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریس نے کہا کہ پاکستانی عوام نے40 سال سے افغان مہاجرین کے لیے اپنے بارڈر ہی نہیں دروازے بھی کھلے رکھے ، پاکستان اور ایران دنیا بھر میں مہاجرین کے بڑے میزبان ممالک ہیں۔ پاکستان نے اپنے اندرونی مسائل کے باوجود افغان مہاجرین کے لیے ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا، افغان مہاجرین کا ترجیحی حل ان کی رضاکارانہ واپسی ہے۔

افغان مسئلہ کا تمام تر حل افغان قیادت کی مشاورت میں ہی پنہاں ہیں ، افغانستان میں امن کے ذریعے لاکھوں انسانوں کی زندگیاں تبدیل کی جاسکتی ہیں جس سے خطے کی ترقی اور خوشحالی پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ہمیں یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ مہاجرین کی میزبانی کے حوالے سے پاکستان کی عالمی سطح پر امداد انتہائی کم رہی، افغانستان میں امن وامان کا عمل تمام شراکت داروں کی مشاورت سے ہوناچاہیے۔

انتونیو گوتریس نے کہا کہ افغانستان میں امن کے حصول کے بعد ہم افغانستان میں بھاری سرمایہ کاری کرکے ترقی کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ افغانستان کے پاس اب ملک کو بہترکرنے اور امن حاصل کرنے کا نادر موقع ہے، اگر یہ موقع ضایع کیا گیا تو افغان ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر سے افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل جاری ہے، برطانیہ اور دیگر یورپی مالکوں سے افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیجا جارہا ہے، اب پاکستان حکومت بھی افغان مہاجرین کی واپسی کے ڈیڈ لائن پر فیصلہ کرے، اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے ساتھ افغان حکومت دست تعاون دراز کرے، بلیم گیم بند ہونی چاہیے، خطے کے کروڑوں لوگ غربت، پسماندگی، عدم مساوات، بھوک، بیروزگاری، بیماری، ناخواندگی اور جنگ و بد امنی کاایندھن بنتے جا رہے ہیں۔ انسانیت کا تقاضہ ہے کہ افغان عوام کو اپنے وطن میںآسودگی ، اطمینان اور معاشی استحکام نصیب ہو اور خطے میں خوشحالی آئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔