پختون قومی جرگہ ایک معمہ؟

جمیل مرغز  بدھ 19 فروری 2020

عوامی نیشنل پارٹی نے تیسری بار پھر پختون قومی جرگہ بلانے کا اعلان کیا ہے‘یہ جرگہ اے این پی کے اعلانات کی وجہ سے ایک چیستان بن گیا ہے‘ اس کانفرنس میں سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا گیا کہ پختون قومی قیادت کو مل کر ان مسائل کا حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔

محترم آفتاب شیرپاؤ نے اس مطالبے سے اتفاق کرتے ہوئے پریس کانفرنس میں ایک قومی جرگہ بلانے کا اعلان کیا‘چند دن کے بعد عوامی نیشنل پارٹی کے کور کمیٹی کے اجلاس میں محترم اسفندیار ولی خان نے پریس کی طرف سے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میں آفتاب شیرپاؤ کے مجوزہ جرگے میں شرکت کروں گا ‘ چند دن کے بعد قومی وطن پارٹی کے رہنماء مرحوم کفایت اللہ ایڈوکیٹ کی یاد میں ہونے والے ریفرنس میں لطیف لالا ایڈوکیٹ نے بھی ایک عظیم پختون جرگہ بلانے کا اعلان کیا‘ آفتاب شیرپاؤ نے اس جرگے میں شمولیت کا اعلان کیا۔

لطیف لالا نے ایک کمیٹی بنائی اور جرگے کی تیاری شروع کی‘ اس دوران عوامی نیشنل پارٹی نے بھی جرگہ بلانے کا اعلان کیا اور لطیف لالا نے ا پنے جرگے کی کمیٹی کو ختم کر دیا اور چند دن بعد اعلان ہوا کہ عوامی نیشنل پارٹی نے جرگہ بلانے کے لیے قائم کمیٹی میں لطیف لالا کو بھی نامزد کر دیا‘ جب عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے کافی عرصہ تک اس مسئلے پر کوئی پیشرفت نہ ہوئی تو اس کے بعد قومی وطن پارٹی نے جرگے کے لیے دوبارہ کوششیں شروع کر دیں۔ خیبر پختونخوا میں موجود تمام قوم پرست اور ترقی پسند پارٹیوں کو دعوت نامہ دیا گیا تا کہ ایک ابتدائی میٹنگ کی جا سکے‘ عوامی نیشنل پارٹی کے صدر محترم اسفندیار ولی خان اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے صدر محترم محمود خان اچکزئی کو بھی دعوت دی۔

محترم محمود خان کو بھی اسی نوعیت کا دعوت نامہ دیا گیا‘ قومی وطن پارٹی کے وفد نے عوامی نیشنل پارٹی کے ’’باچا خان مرکز‘‘ میں اور اسلام آباد میں پی ایم اے پی کے رہنماؤںکو جاکر دعوت نامے دیے‘عوامی نیشنل پارٹی کی طرف سے دعوت نامے کے جواب کا آج تک انتظار ہے۔

اس دوران قومی وطن پارٹی‘عوامی ورکرز پارٹی‘نیشنل پارٹی پختونخوا‘ مزدور کسان پارٹی اور اولسی جرگے نے ابتدائی اجلاس میں ایک تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا اور اس کا نام ’’پختونخوا جمہوری اتحاد‘‘ رکھا‘ قومی وطن پارٹی کے صوبائی چیئرمین سکندر خان شیرپاؤ کو اس کا کنوینر منتخب کیا گیا‘ اس کے بعد پختونخوا جمہوری اتحاد نے فاٹا کے مسئلے پر ایک بڑی کانفرنس نشتر ہال میں منعقد کی‘ اس کا دعوت نامہ بھی اے این پی کو دیا گیا لیکن وہاں بھی ان کا کوئی نمایندہ نہیں آیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ANP شاید اتحاد اور جرگے کے حق میں نہیں کیونکہ اعلان کے باوجود انھوں نے اپنے مجوزہ جرگہ بلانے کے اعلان کے بارے میں کوئی سرگرمی نہیں دکھائی اور نہ ہی آفتاب شیرپاؤ کی دعوت کا جواب دیا۔

اس دوران محترم محمود خان اچکزئی نے دعوت نامے کے جواب میں وطن کور اسلام آباد میں آفتاب شیرپاؤ سے ملاقات کی‘ انھوں نے کہا کہ جب بھی آفتاب شیرپاؤ بلائیں گے میری پارٹی آئے گی لیکن بہتر ہو گا کہ پختون جرگے کے بجائے پاکستان کی سطح پر جمہوری پارٹیوں کی کانفرنس بلا ئی جائے‘ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ملک میں جمہوریت کی بحالی اور اداروں کو اپنے حدود میں رہ کر کام کرنے پر آمادہ کرنا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے دوبارہ بلکہ سہ بارہ جرگہ بلانے کا اعلان کردیا‘ معلوم نہیں اے این پی کو جرگہ بلانے سے کیوں الرجی ہے؟ ان کے طرز عمل سے پتہ لگتا ہے کہ انھوں نے کسی بھی دوسری پارٹی کی طرف سے اتحاد یا جرگہ کی دعوت قبول نہ کرنے کا طرز عمل اختیار کیا ہے اور یہ فیصلہ کیا ہے کہ صرف اے این پی کی طرف سے بلایا گیا جرگہ ہی اصلی ہو گا‘اس طرز عمل کو دوسری ترقی پسند اور قوم پرست پارٹیاں تنقیدی نظر سے دیکھ رہی ہیں اور اسی لیے اس جرگے کی کامیابی ممکن نظر نہیں آتی۔

اب عوامی نیشنل پارٹی نے پختون جرگے کے انعقاد کا اعلان کیا ہے‘ دعوت نامے بھی سیاسی پارٹیوں کو دیے جا رہے ہیں‘ جرگہ باچا مرکز میں اسفندیار ولی خان کی صدارت میں ہوگا۔ جرگہ ایک مختلف پلیٹ فارم ہے‘ ان کانفرنسوں میں زیر بحث موضوع کا تعین کانفرنس کی میزبان پارٹی کرتی ہے اور شرکاء پر لازم ہوتا ہے کہ اسی موضوع پر بحث کرے جب کہ جرگہ ایک اجتماعی پلیٹ فارم ہوتا ہے اور یہ تمام شرکاء کی مشترک ملکیت ہوتی ہے‘اس میں سیاسی پارٹیوں کو دعوت دینے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ جرگے کے آرگنائزر اکیلے یا وفد بناکر مختلف پارٹیوں کے پاس جاکر ان کو جرگہ میں شرکت کی دعوت دیتے ہیں‘ اس دوران ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے جس میں تمام شرکاء کی نمایندگی ہوتی ہے۔

یہ کمیٹی باہمی مشورے سے جرگے کے شرکاء اور مقاصد کا تعین کرتی ہے اور اس کی بنیاد پر ایک مشترکہ ایجنڈا اور اعلامیہ تیار کیا جاتا ہے‘اس کے علاوہ جرگے کے انعقاد کے مقام اور صدارت و سیکریٹری شپ کا فیصلے بھی یہ کمیٹی کرتی ہے‘ اس طرح شریک پارٹیوں کو کوئی شکایت بھی نہیں ہوتی اور باربار بھی وضاحتیں نہیں مانگنی پڑتیں۔ موجودہ جرگہ کے اعلان کے ساتھ این پی نے اس کا ایجنڈا تیار کر لیا اور یہ اعلان بھی کیا کہ یہ جرگہ باچا خان مرکز میں ہوگا اور اس کی صدارت محترم اسفندیار ولی خان کریں گے اور نظامت یقینی طور پر پارٹی کے جنرل سیکریٹری میاں افتخار حسین ہی کریں گے۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ کس حساب سے جرگہ ہے؟ یہ تو زیادہ سے زیادہ ایک آل پارٹی کانفرنس ہو سکتی ہے کیونکہ جرگے کی دعوت اور اس کا طریقہ کار غلط ہے‘ابتداء ہی سے مختلف کمیٹیاں اے این پی کے رہنماؤںکی نگرانی میں تشکیل دی گئی ہیں۔مرحوم افضل خان لالا کے جرگے میں افغانستان سے سرکاری وفد تو نہیں آیا تھا لیکن حاجی دین محمد نے اپنے وفد کے ہمراہ شرکت کی تھی‘ان کی ایک نصیحت مجھے یاد آ رہی ہے کہ ’’خدا کے لیے پختونوں کو متحد کریں نہ کہ ان کو منتشر‘‘۔ میرے خیال میں اس جرگے کی وجہ سے پختون مزید منتشر ہوں گے۔ معلوم نہیں اے این پی کو یہ احساس کمتری کیوں ہے کہ وہ پختون قوم کی ہمدرد واحد پارٹی ہے‘ میرے خیال میں دعوت قبول کرنے سے قبل دوسری پارٹیوں کو سابقہ دعوت اور غیر سیاسی طرز عمل کے بارے میں اے این پی سے ضرور پوچھنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔