ٹریڈ وائف یا مغرب کا یو ٹرن ؟

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  بدھ 19 فروری 2020
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

کہتے ہیں کہ دنیا گول ہے، دور جدید میں کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ دنیا واقعی گول ہے اور انسان جہاں سے چلا پھر وہی آکھڑا ہوا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کے نظریات بھی گھوم پھر کر وہی آرہے ہیں ، جہاں سے چلے تھے۔

مغرب نے سادگی کو خیر باد کہا اور ترقی کرتا چلا گیا ، ہم بھی سادگی کو خیر باد کہہ رہے ہیں اور ترقی کی طرف دوڑ رہے ہیں ، ہم سادہ زندگی گزارنے کے بجائے جدید اشیاء اورکلچر اپنانے میں لگے ہوئے ہیں کہ بڑی گاڑی ہو ،گھر ہو یا دفتر وغیرہ ہر جگہ اے سی استعمال کرتے ہیں مگر ہیٹ اسٹروک ، اسموگ سمیت آلودگی کے تمام مسائل پر سائنسدان کہہ رہے ہیں کہ ان مسائل سے نجات کا واحد ذریعہ ہے کہ ہم آلودگی نہ پھیلائیں ، یعنی سادہ زندگی بسر کریں کیونکہ ہمارے نہ صرف اے سی ، فریج اورگاڑی استعمال کرنے سے آلودگی نہیں پھیلتی بلکہ ہم جتنی بھی اشیاء استعمال کرتے ہیں وہ سب کسی نہ کسی صنعت میں مشینوں سے بنتی ہے اور ان مشینوں کے چلنے سے ہی آلودگی پھیلتی ہے۔

گویا جس سائنس نے ہمیں پر آسائش اور عیاشی والی زندگی گزارنے کا موقع دیا اب وہی سائنس خبر دارکر رہی ہے کہ ان چیزوں سے بچو ، ورنہ اس خطہ زمین پر سانس لینا بھی مشکل ہو جائے گا۔ لاہور اور پنجاب کے دیگرکئی شہروں میں تو اسموگ سے بچنے کے لیے لوگ کھڑکی دروازے بند کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔ اسی طرح سے ہم پلاسٹک کے بنے برتن استعمال کرنے حتیٰ کہ بچوں کے دودھ پینے کے فیڈر بھی پلاسٹک کے بنے استعمال کرنے لگے۔

اب سائنسدان کہہ رہے ہیں کہ ان کا استعمال کرنے سے کینسر جیسی بیماری لاحق ہوسکتی ہے مغرب کے کئی ممالک میں بچوں کے پلاسٹک کے فیڈر بنانے پر پابندی عائد کی جاچکی ہے۔ ہم بازار سے سامان لانے کے لیے باسکٹ ، ٹوکری یا تھیلے کا کلچر ختم کر کے پلاسٹک کے شاپنگ بیگ استعمال کرنے لگے تو اب کہا جا رہا ہے کہ واپس پرانے کلچر پر آجاؤ، کیونکہ پلاسٹک کے استعمال سے آلودگی کے مسائل بڑھ رہے ہیں ، یہاں تک کے سمندری حیاتیات کو بھی شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔

ہم ڈسپوزل ، اشیاء استعمال کر کے اور ’’کولڈ ڈرنک ‘‘ پی کر سمجھنے لگے کہ ہم بھی جدید دور میں کسی سے پیچھے نہیں مگر اب پیغام مل رہا ہے کہ دنیا میں ایک سال میں اس قدرکچرا جمع ہورہا ہے، جتنا اس ترقی سے پہلے انسان نے پوری تاریخ میں کچرا کیا تھا، یوں کچرا ٹھکانے لگانے کا مسئلہ پیدا ہوگیا، ڈاکٹرز کہہ رہے ہیں کہ کولڈ ڈرنک پینے سے گردے ناکارہ ہو جاتے ہیں اور خالی پیٹ پیئیں تو موت واقع ہونے کا بھی خدشہ رہتا ہے مگر ہم تو دن بھر بھوکے رہنے کے بعد روزہ افطار کرنے کے لیے بھی کولڈ ڈرنک استعمال کرنے لگے ہیں۔

ہمارے ایک عزیز نے اپنے گھر میں مٹی کی ہانڈی اور پانی پینے کے لیے مٹکا رکھا ہوا ہے، ان کا کہنا ہے کہ سائنس کے مطابق مٹی کے برتنوں میں کھانے پینے سے صحت بنتی ہے جب کہ دیگر میٹل سے بنی اشیاء سے انسانی صحت کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔

یہ تو تھی سائنس کی وہ حرکت جس نے پہلے ہمیں پر آسائش زندگی گزارنے کو موقع دیا اور جب ہم اس کے عادی ہوگئے ، تو اس سائنس نے یہ خبر سنا دی کہ واپس آ جاؤ ، پرانی سادہ زندگی پر ، ورنہ کہیں کے نہ رہوں گے۔ کچھ ایسا ہی کھیل مغرب کے جدید خیالات اور افکار و نظریات نے ہمارے ساتھ کھیلا ہے۔

ہم مغرب کی نقالی میں روشن خیال بننے چلے ، اپنی بچیوں کو پڑھنے اسکول ، یونیورسٹی بھیجا ، پھر ملازمت کا تاج بھی پہنایا کہ ہم آدھے نہیں پورے روشن خیال ہیں اور ہم بھی مغرب میں چلنے والی تحریک نسواں (فیمین ازم) کے ہمنوا ہیں ، ہم آج بھی اسی راستے پر چل رہے ہیں ، پاکستان کی سب سے بڑی جامعہ کراچی کے ایک گراؤنڈ میں لڑکیوں کو موٹر سائیکل چلانے کی ٹریننگ دی جا رہی ہے، ہمارے تمام رہنما بھی صبح و شام یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہماری تقریبا آدھی آبادی خواتین پر مشتمل ہے اس کو گھر سے باہر نکل کر مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا چاہیے ، اس سے ملک ترقی کرے گا۔ دوسری طرف ہم مغرب میں چلنے والی مختلف تحریکوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہا ں تو ’’ یو ٹرن‘‘ لیا جا رہا ہے۔

فیمین ازم کے بعد ’’پوسٹ فیمین ازم ‘‘ کی تحریک چل رہی ہے، کہا جا رہا ہے کہ یہ کونسی عقلمندی ہے کہ خواتین باہر مردوں کے ساتھ کام بھی کریں اور گھر کی ذمے داریاں بھی نبھائیں ، یعنی مرد کے مقابلے میں ڈبل محنت ؟ اسی طرح ایک اور تحریک چل رہی ہے جس پر ایک برطانوی میڈیا نے ایک خاتون کے خیالات کو اپنے پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لیے پیش کیا ہے۔

اس تحریک کا نام ہے ’’ ٹریڈ وائف ‘‘ اس تحریک سے وابستہ خواتین کا کہنا ہے کہ ایک عورت مرد کے شانہ بشانہ گھر سے باہر بھی کیوں کام کرے ؟ عورت کو چاہیے کہ وہ گھر کے اندر رہ کر گھرکو سنبھالے ، گھر کے بچوں اور بزرگوں پر توجہ دے اور مرد گھر سے باہرکے کام کرے ، مرد جب گھر آئے تو اسے کھانے بنا کر دے۔

غرض اس تحریک میں خواتین کی روایتی گھریلو ذمے داریوں کو ہی خواتین کے لیے بہترین قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس طرح ہی ایک گھر بہتر طور پر چلایا جا سکتا ہے۔ گویا یہ تحریک ہمارے معاشرے میں خواتین کے روایتی گھریلو کردار کو ہی ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کر رہی ہے اور دنیا بھر کی خواتین کو پیغام دے رہی ہے کہ لوٹ آؤ اپنے پرانے کردارکی طرف۔ یوں دیکھا جائے تو مغرب میں پہلے خواتین کے روایتی کردار کو بدلنے کی کو شش کی گئی اور یہ تصور دیا کہ گھریلو کام کی کوئی اہمیت نہیں ، اصل کام وہ ہوتا ہے جوگھر سے باہر نکل کر کیا جائے اور جس سے دولت کمائی جائے چنانچہ اس تصور کے تحت عورت جب گھر سے نکلی تو پہلے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ’’ ڈے کیئر سینٹر ‘‘ بنائے گئے تاکہ جو خواتین گھر سے باہر ملازمت پر ہوں ان کے بچوں کی دیکھ بھال کوئی اور کرے۔

اسی طرح بزرگ ماں باپ کے لیے ’’ اولڈ ہاؤس ‘‘ قائم کیے گئے کہ ان کو گھر سے نکال کر یہاں ڈال دیا جائے ، ظاہر ہے کہ جب میاں بیوی دونوں ہی گھر سے باہر کمانے نکلیں گے تو گھر پر بچوں اور بزرگ ماں باپ کوکون کھانا کھلائے گا ؟ دوا کون دے گا ؟ اس کے بعد بھی ایک مسئلہ سامنے رہا کہ جب میاں بیوی بھی دونوں ہی رات کو ملازمت کر کے تھکے ہارے گھر پہنچیں گے تو ان کی خدمت یعنی کھانے وغیرہ کا بندوبست کون کرے گا ؟ میاں یا بیوی ؟ جب کہ مغرب کے ’’مساوات ‘‘ کے نظریے کے تحت دونوں ہی کے حقوق برابر ہیں گویا ’’ میں بھی رانی ، تو بھی رانی، کون بھرے گا پانی۔‘‘

ان تمام حالات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ مغرب نے جو راستہ اور منزل ہمیں دکھائی تھی ، اس سے ’’یو ٹرن‘‘ لینا شروع کر دیا ہے اور ہم کتنے سادہ ہیں کہ اسی منزل کی طرف رواں دواں ہیں ، ایسا نہ ہوکہ کل ہم بھی کسی فلمی ہیروئن کی طرح کسی نہر والے پل پر پہنچ جائیں اور مغرب کے ’’یو ٹرن‘‘ پر یہ کہیں۔

’’سانوں نہر والے پل تے بلا کے ، تے خورے ماہی کتھے رہ گیا‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔