آئی ایم ایف اور ہماری معیشت

زبیر رحمٰن  بدھ 19 فروری 2020
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان آیندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں 280 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ ختم کرنے پر اتفاق ہوگیا ہے۔

آئی ایم ایف نے ریونیو بڑھانے پر زور دیا ہے اور اس کے لیے انفورسمنٹ وانتظامی اقدامات کیے جائینگے اور ان حکومتی اقدامات کے ذریعے ٹیکس وصولیوں کو بڑھایا جائے گا جب کہ نئے ٹیکسز آیندہ بجٹ میں لگائینگے اور اگلے بجٹ میں ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے کی کوشش کرینگے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف کو بتایا گیا ہے کہ ٹیکس وصولیوں میں 16 فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ مقامی ٹیکس وصولیوں میں 28 فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ مقامی سیلز ٹیکس کی وصولی 40 فیصد تک بڑھی ہے۔

گزشتہ کے الیکٹرک کے منافع کا نصف 73 ارب روپے صارفین سے وصول کرنا ہے۔ یہ ٹیکس بالواسطہ عوام کی اشیائے ضروریہ پر ہی لگے گا جسکے نتیجے میں مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ گزشتہ حکومت نے کئی برسوں سے 30 ہزار ارب روپے قرض لے رکھے تھے جس کا طعنہ اکثر عمران خان دیتے آ رہے ہیں لیکن اب 16 ماہ میں وہ خود 41 ارب روپے کے مقروض ہوچکے ہیں۔ آئی ایم ایف کے شرائط ہمیشہ عوام کی روزمرہ استعمال کی اشیاء پر ٹیکس لگانا ہوتا ہے۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے تو افراط زر 11.6 فیصد تک جا پہنچا ہے، بیروزگاری بڑھی ہے، درآمدات میں اضافہ اور برآمدات میں کمی ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف کا قرضہ نہ لے کر بھی ہم گزارہ کر سکتے ہیں۔

اب بھی دنیا میں بہت سے ایسے ممالک ہیں جو آئی ایم ایف کے قرضے کے بغیر جی رہے ہیں جیساکہ سوشلسٹ کوریا ، وینز ویلا ، کیوبا ، بولیویا ، زمبابوے ، کوسٹاریکا اور ایران سمیت متعدد ممالک ہیں۔ آٹا اور چینی کو ایکسپورٹ اور امپورٹ کرنے کے آڑ میں اربوں ڈالر سرمایہ داروں ، وزراء اور نوکر شاہی نے کما لیے ہیں اور اس کا سارا نزلہ عوام پرگرا ہے ۔ یہ عالمی سر مایہ دارانہ نظام کے انحطاط اور شدید بحران کا اظہار ہے۔ سال 2019 کے اختتام تک عالمی معیشت کی شرح نمو تقریبا 2.5 فیصد دیکھی گئی۔ اس وقت گزشہ سہ ماہی رپورٹ کے مطابق امریکا کی شرح نمو 2.1 فیصد، کینیڈا کی شرح 1.6، جاپان کی 1.3، یورپی زون کی 1.2، برطانیہ کی صرف ایک فیصد سالانہ ریکارڈ کی گئی ہے۔

گزشتہ ایک سال میں برازیل، جنوبی افریقہ، روس، میکسیکو، ترکی اور ارجینٹینا میں سے کسی ملک کی شرح نمو ایک فیصد سے زیادہ نہیں ہیں۔ بھارت اور چین کی معیشتیں بھی مسلسل گراوٹ کا شکار ہیں۔ اس دنیا میں موجودہ ہر مرد ، عورت اور بچہ 32ہزار 5سو ڈالر کا مقروض ہے۔ اس وقت دنیا کے کل کارپوریٹ قرضے کا ستر فیصد صرف امریکی کمپنیوں نے حاصل کیا ہے۔

انقلابی شاعر حبیب جالبؔ نے کہا تھا کہ ’’بیس روپے من ہے آٹا پھر بھی چاروں اور ہے سناٹا۔‘‘ پھر بینظیر کے دور میں انقلابی شاعر بابا نجمی نے کہا تھا ’’آٹا ست روپے سیر ، بی بی رانی بڑا ہنیر‘‘ پھر انھوں نے نواز شریف کے دور میں کہا تھا کہ ’’روٹی روٹی کرے چنگیر، جھوٹا نکلا شیر‘‘ اور اب حکومتی وزراء خود آٹا اور چینی ایکسپورٹ اور امپورٹ کرکے اربوں روپے بٹور رہے ہیں۔

آٹا، چینی اور دیگر اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں شدید اضافے سے عوام نیم فاقہ کشی کی زندگی گزارنے پر مجبورہوگئے ہیں۔ پاکستان کو 45 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی ضرورت ہے جب کہ پاکستان نے 55 لاکھ میٹرک ٹن گندم پیدا کی۔ اعداد وشمار کے مطابق 10 لاکھ میٹرک ٹن ایکسپورٹ کرسکتے تھے یا ذخیرہ کرسکتے تھے جب کہ سرکاری رپورٹ کے مطابق کئی لاکھ میٹرک ٹن گندم افغانستان کو پیازکے نام پر ایکسپورٹ کی گئی اور پھر دو ہفتے کے بعد کئی لاکھ میٹرک ٹن گندم امپورٹ کی گئی۔ یہی حال چینی کی ہے، چینی ضرورت سے زیادہ پیدا ہوئی اور اب اسمگل اور ذخیرہ کرکے 3 لاکھ میٹرک ٹن چینی درآمد کی جا رہی ہے۔

اس کا فوری اور آسان حل یہ ہے کہ تمام چینی کی ملوں کو قومی ملکیت میں لے لیا جائے، گندم کی تجارت کو قومیا لیا جائے۔ بھٹو کے دورکی طرح سستے داموں میں پکی پکائی روٹی کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ ہر محلے اورگلی کوچے میں راشن شاپ جہاں آٹا، چاول ، چینی ، تیل کم قیمت میں فراہم کیا جائے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز سے دکاندار اجناس خرید کر مہنگے داموں میں نہ بیچ سکیں، اس کے لیے ہر شخص کو راشن کارڈ جاری کیا جائے اور حد سے زیادہ فراہم نہ کیا جائے۔ سرسوں، سورج مکھی، کنولا، سویا بین اور زیتون کی کاشت کو بڑھایا جائے۔

دودھ ، تیل اور مصالحہ جات میں ملاوٹ کی سختی سے جانچ کی جائے، اشیائے خورو نوش کی اہم جنسوں کو سرکاری ملکیت میں لے لیا جائے، 50ایکڑ سے زیادہ زمین بے زمین کسانوں میں بانٹ دی جائے، جن چیزوں کے بغیر ہم اپنی معیشت اور عوام کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں وہ چیزیں ہم درآمد نہ کریں۔ ابھی آئی ایم ایف ہم پہ اس بات پر زور دے رہا ہے کہ ہم گیس ، بجلی اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کریں۔ ہم کیونکہ کوسٹاریکا کی طرح شمسی توانائی اور ہوا سے اپنی ضروریات پوری کریں۔

جیساکہ کوسٹاریکا میں پیٹرول اور ڈیزل کا استعمال ممنوع ہے۔ کیوبا آئی ایم ایف سے کوئی قرض نہیں لیتا پھر بھی وہاں کینسر، ایڈز اور ایچ آئی وی کے امراض ناپید ہیں، شرح خواندگی 99.9 فیصد اور تعلیم کا بجٹ 11 فیصد یعنی دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ان ملکوں کے پاس ہماری طرح ذرایع پیداوار بھی نہیں ہیں۔ ہمارا ملک معدنیات، زراعت اور پھلوں سے لدا پڑا ہے۔ ہمارا ملک صرف بھنگ کی جھاڑیوں سے بھرا ہوا ہے۔

یہ کوئی نشہ آور پودا نہیں ہے اور نہ منشیات میں شمار ہوتا ہے۔ اس سے چین دنیا میں سب سے زیادہ ادویات بنا کر اربوں ڈالر کا برآمدکرتا ہے اور بھارت دوسرے نمبر پر ہے۔ ہم مہنگائی، بیروزگاری، جہالت اور لاعلاجی کے بھیانک دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں اس لیے ہمیں گولا بارود ، ٹینک ، توپ اور بم بنانا ترک کرکے گندم ، چاول ، دال، چینی، تیل، دودھ ، ادرک ، لہسن اورگوشت کی پیداوار بڑھانی چاہیے اگر ہم ملک بھر میں کارخانوں کا جال بچھا دیں اور زمین ، بے زمین کسانوں میں بانٹ دیں توکوئی بھوکا مرے گا اور نہ بیروزگار رہے گا۔

یہ عمل اس سرما یہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے بھی کیا جاسکتا ہے۔ دنیا کے عوام کی مکمل آزادی امداد باہمی کے نظام میں ہی مضمر ہے، اس کے سوا سارے راستے بند گلی میں جاتے ہیں۔ اس راہ پر فرانس کے عوام پینسٹھ ہفتے سے سرمایہ داری کے خلاف چل پڑے ہیں۔ فرانس میں پیلی جیکٹ تحریک کے حامیوں کا مظاہرہ مسلسل جاری ہے۔ اس ہفتے پیلی جیکٹ تحریک کے حامیوں کے مظاہروں میں شریک لوگوں پر فرانس کی پولیس نے طاقت کا استعمال کیا۔ فرانسیسی پولیس نے پیرس میں 30 سے زائد مظاہرین کو گرفتارکر لیا، پیلی جیکٹ تحریک کے حامی فرانس میں عوام کے لیے سہولتوں کی فراہمی کے حق میں ریلیاں نکالتے ہیں۔ پیلی جیکٹ تحریک کے حامیوں کے مظاہرے جو پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس میں اضافے کے خلاف شروع ہوئے تھے، ہمیشہ پر امن رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔