شاہین باغ کی شیرنیاں

محمد فیصل سلہریا  جمعرات 20 فروری 2020
عام آدمی پارٹی کی تاریخی فتح میں شاہین باغ کی باہمت خواتین کا کردار بھی یادگار رہے گا۔ (فوٹو: فائل)

عام آدمی پارٹی کی تاریخی فتح میں شاہین باغ کی باہمت خواتین کا کردار بھی یادگار رہے گا۔ (فوٹو: فائل)

دہلی اسمبلی کے انتخابی نتائج کے بعد عام آدمی پارٹی کے کامیاب امیدوار امانت اللہ خان کے ایک بیان نے جہاں متنازع شہریتی بل کے خلاف دو ماہ سے براجمان شاہین باغ کے احتجاجیوں کی تھکاوٹ اتار دی، وہیں بھارتی میڈیا کی اچھی خاصی توجہ بھی حاصل کی۔ پہلے بیان پڑھیے پھر اس کا پس منظر جانیے۔ کیوں کہ اس کے بغیر آپ سرحد پار آنے والی تاریخی لہر سے بے خبر ہی رہیں گے۔

انتخابی نتائج مکمل ہونے کے بعد امانت اللہ خان نے بیان دیا کہ امید ہے (وزیر داخلہ اور بی جے پی کے سربراہ) امیت شاہ تک کرنٹ پہنچ گیا ہوگا۔ امانت اللہ دہلی کے اوکھلا حلقے سے کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ وہی حلقہ ہے جس میں شاہین باغ بھی شامل ہے۔ امیت شاہ نے انتخابی مہم کے دوران ایک جلسہ عام میں خطاب کرتے ہوئے دہلی کے عوام سے اپیل کی تھی کہ ووٹنگ مشین کا بٹن اتنی زور سے دبانا کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ تک محسوس ہو۔

عام آدمی پارٹی کی مسلسل اس تیسری اور تاریخی فتح میں شاہین باغ کی باہمت خواتین کا کردار بھی یادگار رہے گا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ہندوتوا کے غبارے میں ہوا بھر کر اور مسلمانوں کے خلاف تعصب کو ہوا دے کر اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کرتی آئی ہے۔ اسی تکنیک پر عمل کرتے ہوئے دہلی کی انتخابی مہم کے دوران ’’غداروں کو گولی مارو‘‘ کی گونج سنائی دی اور نئے شہریتی بل کے خلاف شاہین باغ کے مظاہرین کو ہدف بناتے ہوئے اسے ’’پاک بھارت کرکٹ میچ‘‘ سے تشبیہ دی گئی۔ مسلمانوں کو اس طرح پہلے کبھی نہیں للکارا گیا۔ گو بدترین شکست کے بعد امیت شاہ نے یہ اعتراف کرلیا کہ ہمیں ’’گولی مارو‘‘ اور ’’کرکٹ میچ‘‘ والی باتیں نہیں کہنی چاہیے تھیں۔ دراصل انتخابی نتائج نے بی جے پی کو یہ احساس دلا دیا تھا اور اخبارات کی شہ سرخیاں تو جیسے توپ کے گولے ثابت ہوئیں۔ انگریزی اخبار ٹیلی گراف نے امانت اللہ خان کے بیان کو یک لفظی شہ سرخی بناتے ہوئے عام آدمی پارٹی کے سربراہ اور دہلی کے تیسری بار وزیراعلیٰ بننے والے اروند کجریوال ہی کو ’’کرنٹ جری وال‘‘ قرار دے دیا۔

شاہین باغ نے بھارتیہ جنتا پارٹی کا عام انتخابات کے بعد چڑھنے والا نشہ اتار دیا۔ جب پلواما حملہ اور پھر بالاکوٹ کا ڈرامہ رچا گیا، جس کے اثرات اس کے بعد جلد ہی ہونے والے عام انتخابات میں دیکھے گئے۔ انتخابی نتائج کے بعد تو بھارتی میڈیا نے نریندر مودی اور امیت شاہ کی جوڑی کو آسمانی اوتاروں کی جوڑی کے طور پر پیش کیا۔ دراصل بھارتی میڈیا کا بھی بی جے پی سے وہی گٹھ جوڑ تھا جو ہمارے ہاں ن لیگ اور میڈیا کا رہا ہے۔ اگر یہ گٹھ جوڑ نہ ہوتا تو بھارتی صحافی پاکستانی دعوت پر بالاکوٹ میں ہونے والی بڑے پیمانے پر تباہی اور ’’دہشتگردوں‘‘ کی لاشیں دیکھنے ضرور آتے اور پھر اپنے عوام کو بھی دکھاتے۔ مگر ایسا نہ کیا گیا اور سچائی کا گلا گھوٹنے کےلیے مکمل بلیک آؤٹ رہا۔

بھارتی میڈیا بالاکوٹ حملے کی حقیقت نہ چھپاتا تو پھر ابھی نندن والا سچ کیسے اگلتا۔ بھارتی فوج کا سابق سربراہ بھی سیاسی اوتاروں کا اشارۂ ابرو سمجھنے میں طاق نکلا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے نوازنے کےلیے نیا عہدہ تخلیق کیا گیا۔

اندازہ کیجئے، وہ مودی جس کا سحر گاندھی نہرو کی کانگریس سمیت ہر کسی کو بہا کر لے گیا اور بھارت کو فتح کرنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کےلیے ووٹ مانگنے امریکا پہنچ گیا، عالمی دباؤ کی پروا کیے بغیر جموں و کشمیر کی حیثیت بدل ڈالی، شہریت کا متنازع قانون پاس کرالیا۔ شاہین باغ کی دو ڈھائی سو خواتین نے اس کے غبارے سے ہوا نکال دی اور ثابت کردیا کہ مودی کا سحر مصنوعی تھا۔ ہمارے خطے میں خواتین کو سہرا باندھنے کا رواج تو نہیں لیکن اس کامیابی کا سہرا ہمیں شاہین باغ کی شیرنیوں کے سر باندھنا ہی ہوگا۔

سچائی آشکار تو سب پر ہوجاتی ہے مگر اس کا ساتھ دینے کی توفیق کسی کسی کو ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کائنات کی سب سے بڑی سچائی ہے، اس لیے سچ کا ساتھ دینے والے وہ طاقت پاتے ہیں جس کے سامنے کوئی دم نہیں مار سکتا۔ بی جے پی نے شاہین باغ کے احتجاج کو بے اثر کرنے کےلیے کئی پاپڑ بیلے، رنگ برنگا پراپیگنڈا کیا، اپنے تئیں اسپانسر کرنے والوں کا کھوج لگانے کی کوشش کی۔ گاؤ ماتا کا پیشاب پینے والے ان احمقوں کو کیا خبر کہ اس احتجاج کا اصل اسپانسر سچ ہے، جو وہاں بیٹھنے والوں کو طاقت فراہم کررہا ہے۔

یہاں ہمارے لیے عبرت کا سامان بھی موجود ہے کہ سچ کی نمائندگی کی سعادت ’’صنف نازک‘‘ ہی کے حصے میں کیوں آرہی ہے۔ معروف چہروں میں مودی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے کندھوں کے ساتھ اگر کسی نے کندھا ملایا تو صرف نازک اندام کندھے ہی تھے۔ جیسا کہ بالی وڈ کے بڑے بڑے ’’بتوں‘‘ میں سے کسی کو یہ توفیق نہ ہوئی، اور دیپیکا پڈوکون اپنا نازک سا کندھا ملانے آگے بڑھی۔ نیوزی لینڈ مساجد حملوں کے بعد جنونیت کے آگے پل باندھنے والی نحیف سی جیسنڈا آرڈن ہی تھیں۔ عرب مہاجرین کےلیے اپنی سرحد کھولنے کا حوصلہ کسی یورپی رہنما کو ہوا تو وہ جرمنی کی مدبر سربراہ انجیلا مرکل ہی تھیں، حالانکہ انہیں صحت کے مسائل ہیں اور وہ اکثر سرکاری تقریبات کے دوران اپنا توازن برقرار نہ رکھنے کی وجہ سے عالمی میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں مگر اعصاب اور حوصلہ فولادی پایا ہے۔

وطن عزیز میں تاحال ہم یہ طے نہیں کرپائے کہ ’’میرے پاس تم ہو‘‘ یا اس کے پاس، عورت باوفا ہے یا بے وفا، بہرحال نون لیگ کی پاکستانی نژاد برطانوی قیادت سے دست بستہ درخواست ہے کہ شاہین باغ کی شیرنیوں کے احترام میں اپنا انتخابی نشان تبدیل کرلیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد فیصل سلہریا

محمد فیصل سلہریا

بلاگر روزنامہ ایکسپریس لاہور سے بطور سینئر سب ایڈیٹر وابستہ ہیں۔ حلقہ ارباب ذوق لاہور اور ادبی کمیٹی لاہور پریس کلب کے رکن بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔