رنگوں کی دنیا

ذیشان الحسن عثمانی  جمعـء 21 فروری 2020
انسانی زندگی بھی رنگوں سے مزین ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

انسانی زندگی بھی رنگوں سے مزین ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

روشنی کے اپنے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش کو ’’رنگ‘‘ کہتے ہیں۔ شادی بیاہ سے لے کر سوگ تک، دنیا سے لے کر دین تک، صوفیا کرام سے لے کر فلم ساز تک، دوپٹے سے لے کر شامیانے تک، زندگی سے موت، ظاہر سے باطن، سوچ سے خیال، خواب سے حقیقت، نہ ہونے سے ہونے اور وجود کی گواہی سے گمنامی کے تاج تک، سب میں رنگوں کا بڑا عمل دخل ہے۔

برصغیر میں نومولود کو نظرِبد سے بچانے کےلیے کالا ٹیکہ لگانا ہو یا مایوں میں پیلا رنگ پہننا، مہندی کا ہرا رنگ یا رخصتی کا لال، میت پر سفید یا سوگ پر سیاہ، احرام کی سفید چادریں ہوں یا بدھ بھکشوؤں کا گیروا لباس، رنگ کی تمیز اور اہتمام دنیا کے ہر مذہب وثقافت میں پایا جاتا ہے۔ روشنی کی سب سے کم فریکوئنسی پر نظر آنے والا رنگ لال ہوتا ہے اور سب سے زیادہ جامنی۔

ڈاکٹر ٹیلر ہارٹ مین کی رنگوں کی ترتیب و حیثیت دیکھیں تو لال رنگ طاقت کی نشانی، نیلا رنگ قربت، سفید رنگ امن اور پیلا رنگ مستی کی نشانی ہے۔ رنگوں کی درجہ بندی میں پہلا نمبر سیاہ کا، پھر سفید، سرخ، نیلا، پیلا، کتھئی، گلابی اور پھر ہرا آتا ہے۔ وٹامنز، ورزش و طاقت کی ادویات آپ کو عموماً گہرے رنگوں یعنی سرخ اور زرد میں ملیں گی۔ نشہ، مدہوشی اور طاقت کی ادویہ ہمیشہ نیلے یا آسمانی رنگ کی ہوتی ہیں اور ذہنی انتشار و ہیجان کی دوائیں ہلکے رنگوں کی ہوتی ہیں۔ گہرے رنگ جیسے لال اور نیلا وغیرہ عموماً فوری ردِعمل یا جذباتی فیصلہ کروانے کےلیے استعمال ہوتے ہیں، جیسے کہ ویب سائٹ پر آرڈر کا بٹن۔ ہلکے رنگ عموماً حس مزاح اور فائن آرٹس (فنونِ لطیفہ) کے اظہار کےلیے استعمال ہوتے ہیں۔ گلابی رنگ عموماً خواتین اور کمسن بچیوں کے ملبوسات اور استعمال کی اشیا کی نشاندہی کےلیے ہوتا ہے۔ اور زرد رنگ کمپنیوں کے آؤٹ لیٹ کےلیے مخصوص ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ رنگوں کا باضابطہ استعمال تقریباً 40 ہزار سال پہلے مصوروں اور سنگ تراشوں نے کیا، جانوروں کی کھال، ریت اور کوئلے کے امتزاج سے۔ آپ ہیمر کی ’’آڈیسی‘‘ پڑھیں تو آپ کو کہیں بھی نیلے رنگ کا ذکر نہیں ملے گا۔ وہ سمندر کو بھی ’’شرابی رنگ‘‘ کا بتاتا ہے۔ یہاں سے ریسرچ چل نکلی کہ انسانوں کو نیلا رنگ ابھی کچھ صدیوں پہلے ہی دکھنا شروع ہوا ہے۔

مختلف کمپنی کے لوگو بھی مختلف رنگوں کے ہوتے ہیں۔ رنگوں میں سب سے ممتاز لال رنگ ہے۔ یہ رکنے کا بین الاقوامی رنگ ہے۔ ایمبولینس کی لائٹوں کا اور خطرے کے نشانات کا رنگ ہے۔ سپر مارکیٹ میں نرخوں کی کمی کی نشاندہی کےلیے بھی یہی رنگ استعمال کیا جاتا ہے۔ چائنا میں لال رنگ خوش قسمتی کی نشانی ہے اور چائنیز نئے سال پر صرف لال رنگ کے تحائف دیتے ہیں۔

کیا آپ کو پتہ ہے کہ دنیا میں 88 فیصد ممالک کے جھنڈوں میں لال رنگ پایا جاتا ہے۔ اگر ہم کھیل کی طرف دیکھیں تو فٹ بال کے کھیل میں گول کیپر نے لال ٹی شرٹ پہنی ہو تو پینالٹی ککس پر گول ہونے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اسٹارٹ اپ پچ ڈیک startup pitch deck کےلیے زرد یا پیلے رنگ کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ فنڈنگ مل سکے اور امریکی صدر عموماً لال کلر کی ٹائی پہنتے ہیں کہ طاقت و رعب قائم کیا جاسکے۔

انسانی زندگی بھی رنگوں سے مزین ہے۔ کوئی بلیک اینڈ وائٹ تو کوئی قوسِ قزح، کوئی سفید کینوس کی طرح انتظار میں کہ کوئی آئے اور رنگ بھی دے۔ کوئی کسی رنگ کاٹ بزرگ کی صحبت کی تلاش میں کہ زندگی بھر کے رنگ دھو دے۔ کوئی ایسا بےرنگ کہ آرپار دیکھ لو۔ کوئی ایسا سیاہ کہ جس کو چھو جائے سیاہ کردے۔ کیا ہی افسوس کا مقام ہے کہ سر اور داڑھی کے بال سفید ہوجاتے ہیں مگر دل کالا رہ جاتا ہے۔ ہماری زندگی پر جوانی کا رنگ چڑھتا ہے، پیسے کا، طاقت، منصب وعہدے کا، ضر و اَنا کا، خوبصورتی کا، ’میں‘ کا۔ اللہ کا ذکر وہ رنگ کاٹ ہے جو ہلکے ہلکے سارے رنگ اتار دیتا ہے۔ جتنے جلدی ہوسکے اتنا ہی اچھا ہے۔ اللہ کا ذکر بے توجہی سے بھی کیا جائے تو اپنا رنگ چھوڑتا ضرور ہے۔ اللہ کا ادب وہ رنگ ہے جو سب پر بھاری ہے۔ آپ سے ایک بات عرض کروں؟ دعا بےرنگ ہوتی ہے مگر رنگ ضرور لاتی ہے۔ آئیے، گناہوں کی سیاہ زندگی سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

دعا مانگتے ہیں کہ نیتوں کی قوسِ قزح نصیب ہو اور کوئی ایسا رنگ کاٹ مل جائے کہ سب دھل جائے اور اللہ پاک کا رنگ ایسا چڑھے کہ پھر کبھی نہ اترے۔ (آمین)

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی

ذیشان الحسن عثمانی

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ فیلو اور آئزن ہاور فیلو ہیں۔ ان کی تصانیف http://gufhtugu.com/authors/zeeshan-ul-hassan-usmani/ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور معاشرتی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل برکلے کیلی فورنیا، امریکہ میں ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں۔ آپ ان سے [email protected] پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔