تعلیم اور علاج

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 20 فروری 2020
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

معاشرے کی اصلاح اور طبقاتی تضادات جن اہل قلم کی ترجیح ہوتے ہیں، وہ ضمنی مسائل پر لکھنے کو وقت کا زیاں ہی سمجھتے ہیں چونکہ سرمایہ دارانہ نظام ہی ان سارے عذابوں کی جڑ ہے لہٰذا اس کی فطرت سے عوام کو واقف کرانا ضروری اور ناگزیر ہے۔ ہم پیٹ کی تکلیف میں اس طرح الجھے ہوئے ہیں کہ یہ تکلیف ذہنی یکسوئی کو غارت کردیتی ہے لیکن بہرحال قلم کو استعمال کرنا پڑتا ہے۔

قارئین! ہم ایک عرصہ دراز سے پیٹ کی جلن میں مبتلا ہیں شہر کے بڑے بڑے پیٹ کے ماہرین سے رجوع کرتے رہے ہیں لیکن خدا جانے یہ مرض کس قدر ڈھیٹ ہے کہ یہ جان ہی نہیں چھوڑتا۔ اس وقت رات کے چار بج رہے ہیں اور ہم پیٹ کی جلن سے بے چین ہونے کے باوجود قلم سنبھالے دنیا کے طبقاتی مظالم کا احاطہ کر رہے ہیں۔

ہمارے ملک کی آبادی 22 کروڑ ہے ان  میں 80 فیصد وہ لوگ ہیں جو طبقاتی مظالم کا شکار ہونے کی وجہ سے زندگی کا عذاب بھگت رہے ہیں۔ ہمارے حکمران طبقے کے معززین نزلہ، بخار کے علاج کے لیے لندن اور امریکا بھاگتے ہیں لیکن انتہائی سیریس بیماریوں کے مریض ملک کے اندر دستیاب علاج سے بھی عموماً محروم ہوتے ہیں بلکہ اس حوالے سے صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ڈاکٹر حضرات مریضوں کے رش کی وجہ سے مریضوں کو اپائنمنٹ کی لمبی لمبی تاریخیں دیتے ہیں اور باری کے دن اتنی لمبی لائنیں بھگتنا پڑتا ہے کہ ڈاکٹر حضرات رش کی وجہ کسی مریض پر اتنی توجہ نہیں دے پاتے جتنی ضروری ہوتی ہے۔

یقینا مریضوں کے ہجوم کی وجہ کسی ڈاکٹر کے لیے ہر مریض پر ضروری توجہ دینا ممکن نہیں رہتا اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹروں کی خصوصاً ماہر ڈاکٹروں کی قلت ہے لیکن اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سرکاری اسپتالوں میں علاج کے نام پر تسلی دینے کا جو رواج ہے اس کی وجہ مریض نجی اسپتالوں کی طرف بھاگتا ہے اور بھاری فیس دینے کے باوجود ڈاکٹر حضرات کی پوری توجہ سے محروم ہوتا ہے۔

نئے پاکستان والے عمران خان کو مریضوں کی مشکلات کا علم ہے یا نہیں لیکن بات توجہ اور ترجیحات کی ہے جس نظام میں دولت کو اولیت حاصل ہو وہاں قدم قدم پر ناانصافیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے خان صاحب نے ازراہ کرم عوام کو مفت طبی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے صحت کارڈ کی سہولت کا اہتمام کیا ہے لیکن چونکہ موجودہ نیا پاکستان کی حکومت کوئی کام پوری تحقیق اور منصوبہ بندی کے ساتھ نہیں کرتی لہٰذا نتیجہ عموماً مایوس کن ہوتا ہے صحت کارڈ کا بھی یہی معاملہ ہے۔

کراچی جیسا ڈھائی کروڑ کی آبادی والا شہر ابھی تک صحت کارڈ سے محروم ہے اور عوام سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہیلتھ کارڈ کے حوالے سے کراچی کا نمبر آیا یا نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ہیلتھ کارڈ کا نام تو سنا ہے لیکن ابھی تک دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا ہے۔ مچھر ہمارے شہر کا لازمہ ہے اس حوالے سے اخباروں میں اسپرے مہموں کا ذکر تو آتا ہے لیکن آج تک ہمارے علاقے اس اسپرے مہم سے محروم ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ سرکاری ملازم ہر کام صرف دکھاوے کے لیے کرتے ہیں، اس لیے ناانصافیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

عوامی خدمت کے کاموں میں سرکاری ملازمین کے ساتھ غیر معمولی سختی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن جہاں ہر کام رسم ادائی کے لیے کیے جاتے ہیں وہاں وہی ہوتا ہے جو ہمارے ملک میں ہو رہا ہے۔ ایک تو نظام ہی غیر منصفانہ ہے ایسے نظام میں انصاف کی توقع سوائے حماقت کے کچھ نہیں۔ جس نظام میں انصاف سر عام بکتا ہے اس نظام میں قوت خرید سے محروم عوام اگر ناانصافیوں کا شکار ہوتے ہیں تو اس پر کوئی حیرت کی بات نہیں۔

ہر ملک میں تعلیم اور علاج کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے لیکن ہمارے ملک میں سب سے زیادہ ناانصافی تعلیم اور صحت کے شعبوں ہی میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران حکومت اہم مسائل پر توجہ دے رہی ہے لیکن ہر کام منصوبہ بندی اور پوری توجہ کے بغیر ہو رہا ہے اور اس کا نتیجہ وہی نکل رہا ہے جو نکلنا چاہیے۔ ہر ملک میں تعلیم اور صحت دو اہم مسئلے مانے جاتے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں یہ دونوں شعبے بے توجہی کا شکار ہیں۔ پاکستان ایک انتہائی پسماندہ ملک ہے عام آدمی غربت کی وجہ سے معیاری غذا سے محروم ہے جس کا لازمی نتیجہ بیماریوں کی شکل میں نکلتا ہے اور عام آدمی پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج نہیں کرا سکتا۔ سرکاری اسپتال ہی غریب کے علاج کا واحد ذریعہ ہیں۔

حکومت نئے پاکستان کی بے معنی باتیں کرنے کے بجائے پاکستان کو غریبوں کے پاکستان کا نام دیں اور حقیقی معنوں میں ملک کو غریبوں کا پاکستان بنائیں۔ دوسرے ملکوں میں بھی سرکاری اسپتالوں میں علاج ہوتا ہے لیکن خیراتی علاج نہیں بلکہ ذمے دارانہ اور ضرورت کے مطابق علاج ہوتا ہے عمران خان کی ذمے داری ہے کہ وہ سرکاری اسپتالوں کو پرائیویٹ اسپتالوں کی سہولتیں مہیا کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔