توثیق، توسیع اور توفیق

سعد اللہ جان برق  جمعرات 20 فروری 2020
barq@email.com

[email protected]

یہ تو آپ اب تک جان بھی چکے ہوں گے مان بھی چکے ہوں گے اور ہمیں اچھی طرح پہچان بھی چکے ہوں گے ہم کچھ نہیں بلکہ بہت زیادہ ٹیڑھے میڑھے ہیں جس کی وجہ سے ہماری کھوپڑی کے اندر بھی بہت ٹیڑھ میڑھ پیدا ہوگئی ہے جس کا مظاہرہ ہماری ٹیڑھی میڑھی زبان کردیتی ہے، جسے ہم اکثر دوستوں کو دشمن بنانے والی مشین یا فیکٹری بھی کہتے ہیں لیکن یہ بالکل نہیں جانتے ہوں گے کہ اس ہمہ گیر ٹیڑھ میڑھ کا ایک بڑا نتیجہ یہ ہے کہ ہمیں اس دنیا میں پائی جانے والی ہرچیز سے ’’پرخاش‘‘ہے بلکہ اب پچھتاتے ہیں کہ ہم نے اپنا تخلص پرخاش یا پرخاشی کیوں نہیں رکھا ہے۔

چنانچہ ہمیں حکومت سے پرخاش ہے، اسمبلیوں سے پرخاش ہے، وزیروں مشیروں اور امیروں کبیروں سے بھی پرخاش ہے تمام سرکاری اہل کاروں، افسروں سے بھی پرخاش ہے ان کی تنخواہوں اور ریٹائرمنٹ پر نوٹوں کا بڑا سا گٹھٹر پہنچانے اور پھر کسی اور پھل دار درخت پرچڑھتے اور آخر میں پنشنوں سے بھی پرخاش ہے ’’توسیع‘‘  سے پرخاش تو توضیح سے پرخاش ہے تشریح سے پرخاش ہے جو عدالتیں اور عوامی نمائندوں کی ٹولیاں عرف اسمبلیاں کرتی ہیں۔

یہاں تک کہ سب سے زیادہ پرخاش اپنے آپ سے ہے کہ آخر جگ میں آکر تم نے کیا تیر مارے کتنے قلعے سرکیے اور کتنے کارنامے دکھائے، مچھر کی طرح آئے اس ہاتھی کے کان جیسی دنیا میں آئے مچھر کی طرح بھنبھنائے اور مچھر ہی کی طرح گئے۔اگر اس شاندار طرح دار مزیدار خوبصورت دنیا میں تم نہ بھی ہوتے تو اس کی ’’خوبصورتی‘‘ میں کیا کمی بیشی ہوجاتی ہے۔

سچ تویہ ہے کہ ہم اصل بات جو کہنا چاہتے ہیں وہ اسی توسیع توضیح توثیق اور تشریح کی تفریح سے متعلق ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جتنے پرخاشی ہیں اتنے بلکہ اس سے کچھ زیادہ بزدل اور چوہے دل بھی ہیں، اس لیے کچھ کہہ تو نہیں سکتے لیکن دل میں ’’پرخاش‘‘تو رکھ سکتے ہیں جیسا کہ ایک تھانیدار سے ایک شخص نے پوچھا کہ اگر میں آپ کو گالی دوں تو آپ کیاکریں گے؟تھانیدار نے کہا میں تمہارا منہ توڑ دوں گا۔ اس پر اس ہماری طرح پرخاشی نے کہا کہ سمجھو میں نے دل ہی دل میں تمہیں گالی دے دی ہے۔

تھانیدار نے کہا کہ ساتھ ہی تم بھی سمجھ لو کہ میں نے تمہارا منہ توڑ دیا۔لیکن یہاں ہم اتنے بہادر بھی نہیں کہ ’’حالیہ سرگرمیاں‘‘ بلکہ توسیعی سرگرمیاں دکھانے والوں کو دل ہی دل میں بھی کچھ کہہ سکیں۔ البتہ ڈرہے کہ وہ دل ہی دل میں ’’کچھ کہنے پر‘‘بھی دست بدست ہمارا منہ توڑ دیں گے۔رحمان بابا نے اس معاملے میں پہلے ہی خبردار کیا ہواہے کہ

جب موت کا طمانچہ تمہارا منہ توڑ دے گا

پھر اس ٹوٹے منہ سے کیا ثناء کروگے

ہم بھی یہی سوچ کراندر باہر دونوں سے خاموش رہتے ہیں کہ پھر ٹوٹے منہ کیا پھوٹیں گے، اس لیے نہ پھوٹنا ہی بہتر ہے لیکن ’’پرخاش‘‘پر تو کسی کا زور نہیں چلتا اس لیے پرخاش رکھتے ہیں اور علی الاعلان کہتے ہیں کہ ہمیں پرخاش ہے تمام کاموں اور لوگوں اور ٹولیوں سے۔جن کا نام لیے بغیر ہم پرخاش کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔یعنی نام نہ لینا مردہ باد۔

بے نام لیے تیرا ہم تم کو پکار آئے

ہم جانتے ہیں کہ پرخاش سے ہم کسی کا کچھ بھی نہیں بگاڑسکتے جو چل رہا ہے وہی چلتا رہے گا، چاہے وہ توسیع ہو یا تشریح۔اور جب سب چلتے ہیں تو ہم اگر پرخاش رکھیں تو کیا مضائقہ ہے کہ اس سے نہ تو ہم دھرنے جھرنے والوں کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں نہ خدمت گزار، عوام کی بھلائی کے لیے بے قرار ’’خادموں‘‘ کابال بیکاکرسکتے ہیں نہ ان ٹولیوں کا جہاں’’کفن دزدے چند‘‘جمع ہوکر ضمیر کی سڑی ہوئی لاش کی مزید بے حرمتی کرتے ہیں۔کہاں آگ جلاتے ہیں کہاں سے ایندھن لاتے ہیں کہاں سے دھواں اٹھاتے ہیں اور کس کو ’’راکھ‘‘کرتے ہیں اس ’’ہنرمندی‘‘ کی داد نہ دینا بد ذوقی ہوگی۔کہاں سے مگس کو باغ میں گھسایا گیا۔

کہاں چھتہ بنا کہاں موم کہاں موم بتی اور کہاں پروانے کا  خون ہوگیا۔ ہمیں  رو رو کر اس ’’استاد‘‘ کی یاد آتی ہے جس سے ایک شاگرد نے بگلا پکڑنے کی ترکیب پوچھی تھی اور استاد نے بتایاتھا کہ صبح سویرے منہ اندھیرے دریا کنارے موم کی ٹکیہ لے کرجاؤ، بگلا آنکھیں بند کیے مراقبے میں ہوگا ،آہستہ آہستہ احتیاط کے ساتھ جاؤ۔اس کے سر پرموم کی ٹکیہ رکھ دو اور کہیں چھپ کر بیٹھ جاؤ۔سورج نکلے گا تو وہ موم پگھل کربگلے کی آنکھوں میں چلا جائے اور اسے کچھ نظر نہیں آئے گا اور تم جاکر اسے آرام سے پکڑ لینا۔شاگرد جو نادان تھا انجان تھا اور ہمارے جیسا نالائق تھا اس نے نادانی اور حماقت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔استادجی جب میں بگلے کے سرپرموم کی ٹکیہ رکھنے جاؤں تو سیدھا سیدھا موم رکھنے کی بجائے اسے پکڑ کیوں نہ لوں۔

اس پراستاد نے شاگرد کی جاتا کاری کرتے ہوئے کہا نالائق جاہل بیوقوف احمق الزی۔میں تجھے’’استادانہ‘‘ترکیب بتارہاہوں اور تم وہی جاہلانہ بات کررہے ہو۔ چنانچہ ہم بھی جب اپنے سامنے بگلا پکڑنے کی ایسی استادانہ ترکیبیں دیکھتے ہیں تو کم ازکم پرخاش تو رکھ سکتے ہیں۔ خاطرغزنوی نے کہاہے کہ

گو ذرا سی بات پربرسوں کے یارانے گئے

لیکن اتناتو ہوا ’’کچھ لوگ‘‘پہچانے گئے

پتہ چل گیا کہ کون کتنے پانی میں ہے اور اس حمام میں کون کون ننگا ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمیں کچھ بھی معلوم نہیں ہے کہ یہ جو سارے معلوم ہیں آپس میں ایک دوسرے کو اچھی طرح معلوم ہیں اور ان سب کو اپنا اصلی دشمن بھی معلوم ہے اور اس کے خلاف ایکا کرنے کے طریقے بھی معلوم ہیں جس طرح سارے بھونکنے کاٹنے والوں کو معلوم ہوتاہے کہ ان کا دشمن کون ہے۔استادوں کو تمام استادانہ ترکیبیں بھی معلوم ہوتی ہیں کہ بگلے کے سرپرموم کب رکھنا ہے اور پھر اسے کب اور کیسے پکڑنا ہے۔ اسی لیے ہمیں بھی معلوم ہے کہ ہمیں کس کس سے پرخاش ہے اورپرخاش اس لیے کہ ہم پرخاش کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کرسکتے گویا پرخاش ہی ہمارا کل اثاثہ ہے دل ہی دل میں وہ سب کچھ کرسکتے ہیں جو نہیں کرسکتے اور کررہے ہیں

چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے رنگ اختلاط کا

ہے دل پر بارنقش محبت ہی کیوں نہ ہو

نہ توتوثیق کرسکتے ہیں نہ توسیع اور نہ ہی تشریح۔ کہ اپنے اندر سوائے پرخاش اورکوئی توفیق بھی نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔