مبینہ ریاست مدینہ کی پولیس اور لا اینڈ آرڈر کی صورتحال

اشفاق اللہ جان ڈاگئی  جمعرات 20 فروری 2020

میاں مٹھو قسم کے دانشور ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر اسلام آباد میں امن و امان کی صورتحال کے قصیدے پڑھتے نہیں تھکتے، شہراقتدار کے لا اینڈ آرڈرکوایسے آسمان کی جانب بلند کرتے ہیں کہ اس جیسی بہتر صورتحال میں لندن ، واشنگٹن اور نئی دہلی جیسے بڑے شہروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ لا اینڈ آرڈرکی بہتر صورتحال اور بنیادی ضروریات کا حصول عوام کا بنیادی حق ہے اور ان کی فراہمی حکمرانوں کا فرض اور یہی رفاہِ عامہ کا بنیادی فلسفہ بھی ہے۔جب سرکار ریاست کو مدینہ طرز کی ریاست بنانے کی دعویدار ہو تو پھر اس سے امیدیں اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔

اسلامی تاریخ کا مطالعہ ہمیں یہ بات بتاتا ہے کہ ریاست مدینہ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا زمانہ ایک ایسا عہدِ زریں ہے جو رہتی دنیا تک تمام حکمرانوں کے لیے ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتا ہے۔خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اسلامی تاریخ میں پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے ریاست میں باقاعدہ منظم شعبہ جات کی بنیاد رکھی اوربہت سی اصلاحات نافذ کیں۔

اس دور میں اٹھائے گئے اقدامات سے جہاں لوگوں کو تحفظ اور امن و امان فراہم ہوا وہیں کئی لوگوں کو مستقل روزگار فراہم ہو گیا۔ سیدنا فاروق اعظمؓ نے پولیس کے محکمہ کی بنیاد رکھی اور لوگوں کو فوری اور آسان انصاف کی فراہمی اور جرائم کی روک تھام کے لیے اس محکمے کو منظم کیا۔

ریاست مدینہ میں صرف پولیس اور چوکیدار ہی نہیں بلکہ خلیفہ وقت بھی راتوں کو گشت کیا کرتے تھے۔کیا ریاست مدینہ کے دعویدارحکمران ایسی مثال دے سکتے ہیں؟۔ جس ریاست میں حکمران ہی نہیں ، پولیس اور لا اینڈ آرڈر کی صورتحال پر قابو پانے والے دیگر ادارے بھی خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہوں وہاں چین صرف جرائم پیشہ طبقے کو ہی نصیب ہوسکتا ہے کیونکہ اس آئیڈیل ماحول میں انھیں کھل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اسلام آباد میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال کیا ہے؟ایک قاری کا خط صورتحال سے پردہ اٹھا رہا ہے۔

محترم المقام جناب اشفاق اللہ جان ڈاگئی

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

گزشتہ دنوں میرے ساتھ پیش آنے والی ایک واردات کی روداد آپ کے علم میں لانا چاہتا ہوں تاکہ آپ اسے اپنے کالم میں جگہ دیں جو میری داد رسی کا باعث بن سکے۔ 31 جنوری بروز جمعہ کی شام تقریباً چار بجے  میں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اپنے گھر جی 13 ون اسلام آباد میں واقع ہاؤس نمبر 44 اسٹریٹ 115 سے رشتے داروں سے ملاقات کے لیے نکلے۔ گھر سے روانہ ہونے کے لگ بھگ ساڑھے تین گھنٹے بعد ہمارے مکان کی اوپر والی منزل میں رہائش پذیر پڑوسیوں کی کال آئی ، انھوں نے ہمیں ہمارے گھر میں کسی واردات کی اطلاع دی۔

فون سنتے ہی ہم نے ایک لمحہ ضایع کیے بغیر اپنے گھر کا راستہ لیا اور راستے میں ہی اپنے ان دو ست احباب سے رابطے شروع کردیے جو ہمارے گھر کے قریب تھے تاکہ وہ لوگ ہمارے گھر جائیں اور اصل صورتحال کا جائزہ لیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم اپنے ان دوست احباب سے بھی رابطے کی کوشش میں رہے جن کے میڈیا اور پولیس کے ساتھ تعلقات تھے تاکہ اس معاملے میں ہمیں مدد مل سکے۔

انھیں دوستوں کی کاوشوں سے جلد ہی پولیس بمعہ فرانزک ٹیم ہمارے گھر پہنچ چکی تھی۔گھر پہنچ کر پتا چلا کہ دو چور ہمارے گھر کاصفایا کرکے فرار ہوچکے ہیں،یہ چوری کا معمولی واقعہ نہیں تھا اس چوری کی واردات میں ہم لاکھوں روپے مالیت کے زیورات اور نقدی سے محروم ہوچکے تھے۔ جونہی ہم اپنے گھر سے رشتے داروں کی طرف جانے کے لیے نکلے تو چور ہمارے گھر میں گھس گئے اور لوٹ مار کرتے رہے۔

ہمارے مکان کی بالائی منزل پر رہائش پذیر پڑوسی معمول کے مطابق جب شام کو آفس سے واپس آئے تو وہ یہ دیکھ کر حیرت زدہ ہوئے کہ مین دروازہ خلاف معمول اندر سے لاک تھا ، انھوں نے اپنی چابی لگا کر لاک کھولا تو اندر مشکوک نقل و حرکت محسوس کی۔

جس پر انھوں نے فوری طور پر شور مچایا۔ ان کے شور سے چور اوپر والی منزل کے پچھلے دروازے سے باہر کی جانب خالی پلاٹ میں کود کر فرار ہوگئے۔ یہ منظر پڑوس میں رہنے والی ایک خاتون نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ چوروں کو بھاگتے ہوئے پچھلی گلی میں موجود چوکیدار نے بھی دیکھا۔ ہمارے پوچھنے پر ان کے حلیے اور مکمل تفصیل سے آگاہ بھی کیا۔ سب کچھ جاننے کے بعد ہم گھر میں داخل ہوئے تو وہاں موجود فرانزک ٹیم نے انتہائی پیشہ ورانہ ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں تاکید کی کہ کسی چیز کو ہاتھ نہ لگائیں تاکہ چوروں کے فنگر پرنٹس محفوظ رہ سکیں۔ پولیس کے تفتیشی آفیسر نے کوئی خاص سوال نہیں کیا، بس خاموشی سے وقوعہ کی تفصیل سنتا رہا۔

پولیس کے تفتیشی آفیسر نے نہ پڑوسی خاتون سے پوچھ گچھ کی نہ ہی چوکیدارکا بیان ریکارڈ کیا۔ چور انتہائی مختصر وقت میں گھر میں موجود طلائی زیورات اور نقد رقم لے کر فرار ہوگئے۔ ہم نے پولیس کی توجہ سڑکوں پر لگے سیف سٹی اتھارٹی کے کیمروں کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی لیکن پولیس کا جواب تھا کہ ضروری تو نہیں چور سڑک پر بھی بھاگے ہوں اور یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کس سڑک کی جانب گئے تھے۔

میں نے زیورات کے خالی ڈبوں کی جانب توجہ دلائی جس پر فرانزک ٹیم نے انھیں فوری طور پر اپنی تحویل میں لے کر اپنا کام شروع کردیا۔ مجھے یاد آیا کہ گھر سے نکلنے سے پہلے کسی ڈبے کو تو میں نے خود بھی ہاتھ لگایا تھا ،میں نے جس کے بارے میں فرانزک ٹیم کو آگاہ کردیا، ممکن تھا کہ اس ڈبے پر میری انگلیوں کے نشان موجود ہوں۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔