روتے پیٹتے ٹی وی ڈراموں کی بھرمار کیوں؟

سید معظم حئی  جمعرات 20 فروری 2020
moazzamhai@hotmail.com

[email protected]

عورتوں کی پٹائی زوروں پہ ہے، کہیں عورتوں پہ تھپڑوں پہ تھپڑ برس رہے ہیں، کہیں دھکے پڑ رہے ہیں اور کہیں جھونٹے نوچے جا رہے ہیں، مار کٹائی، چیخ پکار کا ایک بازار گرم ہے، کہیں عورتیں عورتوں کے خلاف سازشیں کر رہی ہیں، کہیں مرد عورتوں پہ ظلم و ستم کے نت نئے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔

لڑائی، جھگڑے، علیحدگیاں، طلاقیں، کہیں لوگ اسپتالوں میں ایڑیاں رگڑ رہے ہیں تو کہیں جنازوں پہ جنازے اٹھ رہے ہیں، عورتیں ہیں کہ آنسو بہا رہی ہیں، بین ڈال رہی ہیں پچھاڑیں کھا رہی ہیں، یہ چیخ پکار، آہ و بکا کا نہ تھمنے والا طوفان ہے کہ برپا ہے۔ ہر کہیں رونا پیٹنا مچا ہوا ہے، یہ صاحب ہمارے ٹی وی ڈرامے چل رہے ہیں۔

آپ جس ’’انٹرٹینمنٹ‘‘ چینل پر چلے جائیں وہاں یہی روتی پیٹتی ’’انٹرٹینمنٹ‘‘ آپکا دماغ پچی کر رہی ہو گی۔ اب بتائیں جائیں تو جائیں کہاں کہ ہر ’’انٹرٹینمنٹ‘‘ ٹی وی چینل ماتم کدہ بنا ہوا ہے اور وہ بھی اس پاکستان میں جہاں کوئی پانچ کروڑ افراد مختلف نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ دنیا میں ڈپریشن کے شکار لوگوں کا اوسط 20 فیصد ہے جب کہ پاکستان کی آبادی کا 34 فیصد حصہ ڈپریشن کا سامنا کر رہا ہے جو کہ تقریباً 7 کروڑ پاکستانی بنتے ہیں۔ ملک میں ہر طرف مہنگائی، بیروزگاری، کرپشن، ظلم، گندگی اور بے رحمی کی افراط ہے۔ شہری سہولتوں کا فقدان چہار جانب موجود ہے۔

معاشرہ بے ایمانی، بے رحمی، جھوٹ، چوری، ڈاکوں، حرام مال میں گردن گردن غرق ہے، ہر طرف انصاف اور قانون سے بالاتر مافیاؤں کا راج ہے۔ عام آدمی کو نظام انصاف و قانون سے نہ انصاف ملتا ہے نہ تحفظ جب کہ ارب پتی ،کھرب پتی کرپشن سمیت وسیع جرائم میں ملوث لوگوں کو فوری ریلیف پہ ریلیف ملتا ہے۔ ادھر ملک میں ہر شعبے میں خرابی اس سطح پہ پھیل چکی ہے کہ کہیں عام آدمیوں کے اسپتال پہ وکیل حملہ کر رہے ہوتے ہیں تو کہیں یتیم و بے سہارا بچیوں سے سرکاری پناہ گاہوں میں زیادتیاں کرنیوالے اعلیٰ سرکاری عہدے انجوائے کرتے ہوئے الٹا سب کو آنکھیں دکھا رہے ہوتے ہیں۔ عام لوگوں کے لیے اس ملک میں تفریح کے ذرائع محدود ہیں۔

شہروں اور قصبوں میں تفریح گاہوں ، پارکوں کا قحط ہے۔ گنی چنی چند ڈویلپ تفریح گاہوں اور سیاحتی مقامات پہ فارغ نوجوانوں اور مردوں کے غول کے غول قبضہ جمائے ہوتے ہیں۔ لے دے کے بازار کے کھانے، ٹی وی اور سوشل میڈیا ہی لوگوں کے لیے سستی تفریح کے ذرائع رہ گئے ہیں۔ لوگ غلاظت میں تیار بازار کے کھانے کھا کر بیمار پڑتے ہیں اور کئی ایک آئے دن جانوں سے جاتے ہیں، ادھر سوشل میڈیا پہ جہالت کا راج ہے، وہ لوگ جنھوں نے زندگی میں کبھی کتابیں تو کیا اخبار تک نہیں پڑھے وہ سوشل میڈیا پہ اسکالر بنے معاشرتی جہالت میں دن رات کا اضافہ کرتے پھر رہے ہیں۔

باقی بچتا ہے ٹی وی تو اس پہ ایک طرف نیوز چینلز پہ پچھلے چالیس پچاس سال سے اس ملک کو لوٹنے والے اور ان کے مرید اور پکے حامی ٹی وی ٹاک شو اینکر بیٹھے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف انٹرٹینمنٹ ٹی وی چینلز روتے پیٹتے ڈراموں کی بھرمار سے لوگوں کی آنکھوں میں آنسو بھرتے جا رہے ہیں۔ معیاری تفریح اور ارزاں خوشیوں کو ترسے ہوئے اس تباہ حال معاشرے کو ٹی وی چینل رات دن روتے پیٹتے ڈراموں کی مار مار رہے ہیں۔ آخر یہ چینل والے چاہتے کیا ہیں؟ پاکستان میں ویسے ہی دنیا کی اوسط کے مقابلے میں تقریباً دگنے لوگ ڈپریشن کا شکار ہیں۔ کیا ٹی وی چینلز والے ملک کی ساری آبادی ہی کو دائمی ڈپریشن کا مریض بنانا چاہتے ہیں؟ ان کا مسئلہ کیا ہے؟ آخر یہ روتے پیٹتے ڈراموں کے علاوہ کوئی اچھے ڈرامے کیوں نہیں پیش کر سکتے؟

سچ پوچھیے تو ان سب سوالوں کا ایک ہی جواب ہے اور وہ یہ کہ یہ بے چارے چینلز والے مجبور ہیں۔ ہمارے ملک میں تخلیقی یعنی کری ایٹیو لوگوں کا مکمل قحط ہے اس ملک میں جہاں ہر دوسرا آدمی خود کو کری ایٹیو سمجھتا ہے۔ معیاری تفریح تخلیق کرنا، لوگوں کے چہروں پہ مسکراہٹیں بکھیرنا ایک تخلیقی کام ہے جب کہ اس کے مقابلے میں روتے دھوتے ڈرامے بنانا ایک آسان دھندہ ہے۔

آپ جتنے چاہیں غم، دکھ، مسئلے، پریشانیاں، مصیبتیں کسی بھی ڈرامے میں بھر دیں۔ اس کام کے لیے آپ کا تخلیقی ہونا قطعاً ضروری نہیں چنانچہ یہی وجہ ہے کہ آپ کو ہر چینل پہ روتے پیٹتے ڈراموں کی بھرمار نظر آتی ہے۔ انھی غیر تخلیقی لوگوں نے ڈرامے اور ادب کی دوسری اصناف میں بھی روتے پیٹتے، غموں، دکھوں میں ڈوبے ڈراموں، افسانوں، ناولوں اور شاعری کو سنجیدہ اور اعلیٰ درجے کے ادب کا نام دیا ہوا ہے کیونکہ ہر طرف انھی غیر تخلیقی لوگوں کی اکثریت کلبلا رہی ہے اور صرف ادب میں ہی نہیں آپ ایڈورٹائزنگ اور مارکیٹنگ کے شعبوں کو لے لیجیے۔ ٹی وی پہ چلنے والے اشتہارات کو دیکھ لیجیے، آپ کو وہی دو تین گھسے پٹے فارمولوں پہ بنے اشتہار نظر آئیں گے۔

بیک گراؤنڈ میں کوئی روٹین سا جنگل چل رہا ہوگا یا کوئی مرد یا عورت رٹے رٹائے گھسے گھمائے جملے بول رہے ہوں گے اور چند مخصوص مناظر کا ایک بنڈل چل رہا ہو گا۔ یا پھر ہر دوسرے تیسرے ٹی وی اشتہار میں لوگ زبردستی کی جذباتیت طاری کر کے آنکھوں میں آنسو بھرے کھڑے ہوں گے، کسی کو چاکلیٹ دے دی تو اس کی آنکھیں بھر آئیں، کسی کو چائے دے دی تو اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں، کوئی کسی کو کنگ آئل میں بنا کھانا دیکھ کر آنسو بہانے لگا۔ کیا تماشا ہے۔ یہ بے چارے ٹی وی اشتہارات جیسے کری ایٹیو کام میں بھی کری ایٹیو آئیڈیاز نہیں سوچ سکتے۔

آپ ان سے اس کی وجہ پوچھیں تو یہ کہیں گے کہ لوگ کری ایٹیو آئیڈیاز کے عادی ہی نہیں۔ اب یہ ایسے ہی بات ہے کہ جیسے ایک دودھ والے نے کراچی والوں سے ملاوٹ کی کوئی 35 سال پہلے، اب تو سب جگہ ہی دودھ کی جگہ زہر بکتا ہے۔ تو اس دودھ والے نے کراچی والوں سے کہا کہ ہم آپ کو خالص دودھ نہیں دیتے کیونکہ کراچی والے خالص دودھ ہضم نہیں کر پاتے، اس پر کراچی والوں نے جواب دیا کہ بھائی کراچی والوں کو اس ملاوٹ زدہ دودھ کا عادی بھی تو تم ہی لوگوں نے بنایا ہے۔

اب پورے ملک کا یہ حال ہے کہ ہر طرف غیر تخلیقی لوگوں کا راج ہے۔ پاکستانی کمپنیاں مینوفیکچرنگ سے لے کر مارکیٹنگ تک کہیں بھی خود سے اپنا کوئی آئیڈیا تخلیق نہیں کر سکتیں۔ بزنس اسکولوں سے لے کر نام نہاد کارپوریٹ میٹنگ رومز تک غیر ممالک کے آئیڈیاز کاپی کر کے کام چلایا جاتا ہے۔ سب نقل میں بہت تیز ہیں اور اسے اپنا ٹیلنٹ سمجھتے ہیں۔ بھارتی فلموں میں پہلے ایک جملے ’’وہ کیا ہے کہ‘‘ کی بھرمار ہوتی تھی اب آپ کو یہ جملہ ہر ٹی وی ڈرامے میں سنائی دے گا۔

یہ خود سے کوئی چیز نہیں سوچ سکتے۔ ٹی وی چینلوں پہ بیٹھ کر جب بڑے بڑے لال بجھکڑ یہ کہتے ہیں کہ ہم پاکستانی بہت کری ایٹیو بہت ٹیلنٹڈ لوگ ہیں تو ہنسی آتی ہے۔ جناب! یہاں کری ایٹیویٹی یعنی تخلیقی کام نہیں ہوتا یہاں جگاڑ سے کام چلایا جاتا ہے۔ آپ سیاستدانوں سے لے کر حکمرانوں تک کو دیکھ لیجیے حیرت ہوتی ہے کہ کیسے کیسے معمولی سطحی ذہنوں والے لوگ بڑی بڑی پارٹیوں اور حکومتی عہدوں پہ بیٹھے ہیں اور کیسی ڈھٹائی سے وہی اپنے گھسے پٹے راگ الاپتے رہتے ہیں۔ اب کیا کریں کہ پورا ملک ہی ان جیسے لوگوں کے دم سے جگاڑ پہ چل رہا ہے۔ آئیے! ٹی وی ڈرامے دیکھ کے آنسو بہاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔