دھوپ میں مسلسل پھڑپھڑانے والے مصنوعی پروں کی کامیاب آزمائش

ویب ڈیسک  جمعرات 20 فروری 2020
ماہرین نے ایسا مٹیریل بنایا ہے جو روشنی پڑنے پر عین تتلیوں کی طرح پھڑپھڑاتا ہے (فوٹو: امریکن کیمیکل سوسائٹی)

ماہرین نے ایسا مٹیریل بنایا ہے جو روشنی پڑنے پر عین تتلیوں کی طرح پھڑپھڑاتا ہے (فوٹو: امریکن کیمیکل سوسائٹی)

بیجنگ: ہم جانتے ہیں کہ اس وقت دنیا بھر میں اڑنے والے ’’کیڑے روبوٹ‘‘ پر کام جاری ہے لیکن ان کے ساتھ بجلی کا نظام وابستہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اب اسی کمی کو دور کرنے کے لیے ایسے پر یا بازو ڈیزائن کیے گئے ہیں جو روشنی پڑتے ہی پھڑپھڑاتے ہیں اور جب تک روشنی برقرار رہے اس وقت تک وہ کسی روبوٹ کو اڑاسکتے ہیں۔

یہ اہم کام چین کی چینگ زو اور جیانگ زو یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے مشترکہ طور پر انجام دیا ہے۔ اسے ’تتلی کے لچک دار حیاتیاتی پنکھ‘ یا ’’ایف بی بی ڈبلیو‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اسے پالیمر کی ایک باریک پرت سے بنایا گیا ہے۔ اس کے بعد باریک پر کے اوپر نینوکرسٹلائن دھاتی تہہ چڑھائی گئی ہے۔

تجرباتی طور پہ اس پر کے ایک سرے کو کسی سہارے سے جوڑا گیا ہے اور دوسرا حصہ کھلا چھوڑا گیا ہے۔ اب جوں ہی اس پر سورج کی روشنی پڑتی ہے اس کا آزاد حصہ اس طرح اوپر اور نیچے ہوتا ہے جیسا کہ پرندوں کے بازو پھڑپھڑانے کے دوران ہوتا ہے۔

جیسے ہی دو مختلف مادوں سے بنے اس پر پہ روشنی چمکتی ہے تو ان دونوں کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے جس سے وہ پھیلتے ہیں چونکہ اس کے اندر موجود پالیمر اوپر کی تہہ کے مقابلے میں زیادہ پھیلتی ہے تو پر کی شکل میں یہ کبھی اندرونی یا کبھی بیرونی جانب مڑتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ایک سرا مڑ کر خمیدہ ہوتا ہے تو اس کا سایہ پڑتا ہے تو اس سے وہ حصہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے اور یوں پر دوبارہ سیدھا ہوجاتا ہے۔ اس طرح یہ مٹیریل کھلتا اور بند ہوتا ہے جس سے عین پھڑپھڑانے والا عمل جنم لیتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس کی پھڑپھڑاہٹ تتلی کے پروں سے بھی تیز ہے۔

تجرباتی طور پر ماہرین نے اسے ایک کھلونا کشتی میں لگایا ہے اور پروں کی حرکات سے خود بجلی بنانے کا بھی کامیاب مظاہرہ کیا ہے۔ اب تک ایف بی بی ڈبلیو سے دنیا کا کوئی روبوٹ نہیں بنایا جاسکا۔ اس کی تفصیلی ویڈیو بھی جاری کی گئی ہے جبکہ تحقیقی جرنل اے سی ایس اپلائیڈ مٹیریل اینڈ انٹرفیس میں اس کی تفصیل شائع ہوئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔