سر عام پھانسی کیوں نہیں؟

محمد سعید آرائیں  جمعـء 21 فروری 2020

زینب الرٹ کے بعد قومی اسمبلی میں چھوٹے بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے مرتکب ملزموں کو سر عام پھانسی دینے کی قرارداد اچانک کیا منظور ہوئی حکمران پی ٹی آئی کے وزیروں میں موجود اختلاف کھل کر سامنے آگیا۔

دو وفاقی وزیر اپنی ہی کابینہ کے ساتھی پر برس پڑے جس کے بعد کابینہ میںایک اور وزیر کو بھی شریعت کی بجائے انسانوں کا بنایا گیا 1973 کا آئین یاد آگیا۔ آئین میں سرعام پھانسی کی کوئی گنجائش نہیں ہے جس کے جواب میں پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت نے روزنامہ ایکسپریس میں اپنے کالم میں شریعت میں سزاؤں کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ اسلام میں شرعی سزائیں غیر انسانی نہیں بلکہ اصلاح اور جرائم روکنے کے لیے ہیں۔

ملک میں گزشتہ چند سالوں سے کمسن بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے بعد انھیں ہلاک کردینے کے واقعات اندوہناک و شرمناک تسلسل سے ہو رہے ہیں اور ایسی سیکڑوں وارداتیں ہوچکی ہیں اور ان میں کمی کی بجائے تشویشناک طور پر اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ ایسے شرمناک واقعات میں صوبہ پنجاب اور ضلع قصور سرفہرست ہے، جہاں ایک کمسن بچی زینب کو جنسی تشدد کے بعد قتل کرنے والے ملزم کو عدالت کے حکم پر پھانسی دی جاچکی ہے جو سر عام نہیں تھی۔

چند سال قبل رمضان المبارک میں تراویح کے بعد ایک دوست کے ساتھ تھانے جانا ہوا تھا جہاں داخل ہوتے ہی ایس ایچ او کے کمرے سے ایک شخص کی آوازیں آرہی تھیں جن کا مطالبہ تھا کہ پکڑے گئے ملزم کو میرے حوالے کیا جائے۔ مذکورہ شخص ایک بااثر جماعت سے تعلق رکھتا تھا اور سخت مشتعل تھا جسے ایس ایچ او سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ آپ قانون کو ہاتھ میں نہ لیں اور پولیس کو کارروائی کرنے دیں جس پر مذکورہ شخص کا کہنا تھا کہ قانون اس ملزم کا کچھ نہیں کرے گا اور معمولی سزا کے بعد بچ جائے گا۔ ملزم میرے حوالے کیا جائے تاکہ میں ملزم کو دوسروں کے لیے عبرت ناک بنا سکوں اور آیندہ کسی کو ایسا کرنے کی جرأت نہ ہوسکے۔

مذکورہ شخص میرے دوست کا واقف کار تھا جس نے پوچھنے پر بتایا کہ میرا کمسن بیٹا مدرسے میں قرآن پاک پڑھنے جاتا تھا جہاں ملزم نے بچے پر جنسی تشدد کی کوشش کی تھی مگر بچے کے شور پر کامیاب نہ ہوسکا اور لوگوں نے ملزم کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا جس کی اطلاع پر میں ملزم کو سبق سکھانا چاہتا ہوں کیونکہ قانون میں وہ بچ بھی سکتا ہے مگر میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔ ایس ایچ او نے اس شخص کو بمشکل ٹھنڈا کیا اورکہا کہ بے شک ملزم قانونی سزا سے بچ بھی سکتا ہے مگر ہم آپ کے سامنے ملزم کو ایسی سزا دیں گے کہ وہ آیندہ ایسی شرمناک حرکت کرنے کے قابل بھی نہیں رہے گا اور آپ بھی مطمئن ہوجائیں گے۔ ملزم جو شادی شدہ تھا اپنے جرم کے اعتراف پر مسلسل معافی بھی مانگ رہا تھا مگر بچے کا باپ اسے معاف کرنے پر تیار نہیں تھا اور قانونی کارروائی پر مسلسل اپنے عدم اعتماد کا اظہار کر رہا تھا۔

ایس ایچ او نے ملزم کو فرش پر بٹھا کر اس کے دونوں ہاتھ کھڑکی سے بندھوائے اور ملزم کی دونوں ٹانگیں چوڑی کروا کے دو سپاہیوں کو ملزم کی رانوں پر کھڑے ہوکر اچھلنے کے لیے کہا تو ملزم کی چیخیں نہیں رک رہی تھیں۔ اس طرح پولیس نے ملزم کو وہ سزا دی جسے چیرا کہا جاتا تھا ۔

حکومت نے زینب الرٹ کے نام سے جو قانون سازی کی ہے اور بچوں پر جنسی تشدد میں ملوث ملزموں کے لیے جن سزاؤں کا فیصلہ کیا ہے اس میں مزید پیش رفت نہیں ہوئی جس کی شکایت قصور کی کمسن بچی زینب کے والد نے وفاقی وزیر اسد عمر سے زینب کی پہلی برسی پر قصور میں اپنے گھر آمد پر کی کہ ملک بھر میں کمسن بچوں کے ساتھ جنسی تشدد اور بعد میں انھیں ہلاک کردیے جانے کے شرمناک مقدمات مسلسل درج ہو رہے ہیں۔ کچھ ملزم پکڑے بھی گئے مگر بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات رک نہیں رہے ہیں اس لیے حکومت ایسے واقعات کے سدباب کے لیے سخت قوانین بنائے تاکہ ملک میں مسلسل بڑھتے ہوئے ایسے شرمناک واقعات رک سکیں اور ملزموں کو ایسی سزائیں مل سکیں جن سے دوسروں کو عبرت حاصل ہوسکے اور ایسے واقعات کی حوصلہ شکنی ہو۔

روزانہ میڈیا پر کمسن بچوں کے ساتھ جنسی تشدد، جنسی تشدد میں ناکامی کے بعد ملزموں کی گرفتاری، چھوٹی عمر کے بچوں بچیوں کے اغوا کے بعد ہلاکتوں اور ایسے بچوں کی لاشیں بازیاب ہونے کی خبریں مسلسل آ رہی ہیں۔ بعض ملزم رنگے ہاتھوں یا بعد میں پکڑے بھی جا رہے ہیں مگر ایسے واقعات رک نہیں رہے جس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ خاص کر انٹرنیٹ ، ٹچ موبائل ، فحش فلموں کی ویڈیوز کو اس کا ذمے دار قرار دیا جا رہا ہے جو کافی حد تک درست بھی ہیں۔

اب بچوں ہی نہیں بلکہ نوجوان لڑکیوں کی جنسی ہراسگی کے واقعات بھی منظر عام پر آ رہے ہیں۔ دفاتر میں کام کرنے والی خواتین محفوظ ہیں نہ کمسن بچے بلکہ اب تو بات قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں پہنچ گئی ہے جہاں سینیٹر غوث نیازی نے ہم جنس پرستوں کا معاملہ ایوان بالا میں اٹھا دیا ہے جس کا ذکر مشہور اینکر نے ایک روز قبل ہی اپنے کالم میں کیا تھا کہ بعض لوگوں کی طرف سے ہم جنس پرستی کو قانونی شکل دلانے کے لیے ارکان پارلیمنٹ پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور منع کرنے پر دھمکی دی جا رہی ہے، جس سے ملک میں بڑھتی ہوئی جنسی بے راہ روی اب اس مقام پر آگئی ہے کہ اس سلسلے میں قانون سازی کے مطالبے شروع ہوگئے ہیں اور یہ سب کچھ ریاست مدینہ بنانے کے دعویداروں کی حکومت میں ہو رہا ہے اور ہمارے قوانین مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔

روزنامہ ایکسپریس کی قوانین سے متعلق خصوصی اشاعت میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال کے پہلے 6 ماہ میں ملک میں 1304 بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوئے اور ایسے واقعات روزانہ ہی میڈیا کی زینت بن رہے ہیں۔ بچوں کو زیادتی کے بعد اس لیے قتل کردیا جاتا ہے کہ متاثرہ بچہ بعد میں ملزم کی نشاندہی نہ کرسکے۔ گزشتہ دنوں کراچی میں ایک طالب علم نے اپنی ٹیچر کے ساتھ اس کے گھر میں زیادتی کی کوشش کی اور نوجوان نے خاتون کے شور مچانے پر اس کا گلا گھونٹ دیا اور واقعے کو ڈکیتی کا رنگ دے کر بھاگ گیا مگر پکڑا گیا تو حقیقت آشکار ہوئی۔

جنسی زیادتیاں ہی نہیں بعض شادی شدہ افراد کے غیر فطری افعال کی شکایات بڑھ رہی ہیں جس پر خواتین بھی اپنے شوہروں کو خود سزا دینے لگی ہیں، جس کا تازہ شکار جام صاحب کے علاقے میں پسند کی شادی کرنے والا نوجوان بنا جسے اس کی بیوی نے مردانگی کے قابل نہیں چھوڑا جو بعد میں گرفتار کرلی گئی ہے۔ جنسی درندے سخت سزاؤں کے بغیر باز نہیں آئیں گے، اس لیے ایسے واقعات میں سزائے موت کی مخالفت کرنیوالے یہ سوچیں کہ اگر ان کے اپنے بچوں کو جنسی تشدد کے بعد مار دیا جاتا تو ان کا ردعمل کیا ہوتا اور وہ ایسے جنسی درندوں کے ساتھ کسی رعایت کا سوچتے اور خود انھیں سزائے موت کا حق دار قرار دے کر عبرت ناک سزا کا مطالبہ نہ کرتے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔