تو یہ تھی تبدیلی؟

فرحان تنیو  ہفتہ 22 فروری 2020
یہ تبدیلی عوام کے منہ سے نوالہ چھین رہی ہے۔ (فوٹو: فائل)

یہ تبدیلی عوام کے منہ سے نوالہ چھین رہی ہے۔ (فوٹو: فائل)

کپتان کی تبدیلی کے تیور تو ان کے برسر اقتدار ہونے سے ہی عوام کو نظر آنے لگے تھے۔ مگر وہ جو کہتے ہیں ناں کہ امید پر دنیا قائم ہے، تو خان صاحب نے بھی وزیراعظم کا حلف لیتے ہی ملک کے منجھے ہوئے صحافی حضرات سے ملاقات کے دوران یہی کہا تھا کہ ان کی ٹیم نئی نویلی ہے، بہرحال انہیں کم از کم تین ماہ کا وقت تو درکار ہے تبدیلی لانے میں۔ لہٰذا وزیراعظم کی اس بات پر مشرق سے مغرب تک قوم نے امید باندھ لی کہ اب واقعی کوئی معجزہ رونما ہونے جارہا ہے جو کہ نوے دن کے بعد صبح روشن کی مانند سب کو اپنے پرکشش حصار میں لے لے گا اور یوں 72 برس سے جو لوٹ مار کا نظام رائج ہے، وہ دھڑام سے نیچے آگرے گا۔

پر ہوا کیا؟ کپتان صاحب کے 90 دن طویل ہوتے گئے اور ملک و قوم کے حالات دیکھ کر بخوبی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان جس تبدیلی کے سہانے خواب اس ملک کے نسل در نسل بنے بے چارے عوام کو دکھاتے رہے ہیں، ان کی تعبیر تو ان کے موجودہ دور حکومت میں قطعی طور پر ممکن نہیں۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ پی ٹی آئی کی موجودہ سرکار، جو اتحادیوں کی کمزور بیساکھیوں پر کھڑی ہے، اقتدار کے سال آخر میں عوام سے اگلے پانچ سال کا مینڈیٹ بھی ڈیمانڈ کرے اور بہانہ یہ بنائے کہ انہیں سو فیصد مینڈیٹ نہیں ملا تھا اور اسی وجہ سے وہ تبدیلی جس کے حوالے سے کئی دعوے کئے گئے تھے، ادھوری ہی رہ گئی۔

یہ اس ملک کا المیہ ہی ہے کہ یہاں ہر دور میں عوام سے حقائق چھپائے گئے ہیں اور پردے کے پیچھے معاملات الگ ہی چل رہے ہوتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ تبدیلی کے نام پر بھی اس ملک کے عوام کے ساتھ ہمیشہ کی طرح کچھ ایسی ہی چال چلی گئی۔ جو اب کپتان اینڈ کمپنی کی جانب سے تبدیلی لانے کےلیے کسی قسم کی سنجیدگی کا عالم نظر نہیں آتا۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ روایتی سیاسی بیانات یا پھر عوام کو سادہ سمجھ کر نئے نئے قصے اور کہانیاں میڈیا پر آکر داغ دینا ہی حکومت کے نمائندوں کا وتیرہ بنتا جارہا ہے، مگر حضور یہ ادا بھی کب تک عوام کو بہلاتی رہے گی؟ اب تو سوشل میڈیا سے لے کر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر چہار سو بس یہی رونا رویا جارہا ہے کہ عمران خان کی اعلان کردہ تبدیلی کوئی گدھے کے سینگ تھے جو اتنی جلدی غائب ہوگئے؟

آخر عوام کپتان اور ان کے کھلاڑیوں کے بیانات کو اب کیوں کر سنجیدہ لیں کہ ماضی قریب میں خان صاحب نے جن چیزوں کو بنیاد بنا کر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی حکومتوں کو بدترین تنقید کا نشانہ بنایا تھا، اقتدار میں آنے کے بعد وہ تمام کام یا ان دونوں جماعتوں سے بھی بڑھ کر وہ کارہائے نمایاں موجودہ حکومت نے سرانجام دیے ہیں۔ اس حوالے سے چند مثالیں آئی ایم ایف سے قرضہ لینا، پٹرولیم مصنوعات، سی این جی، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مختلف اوقات میں ہوشربا اضافہ کرکے عوام کا جینا حرام کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

یہ تمام چیزیں تو اپنی جگہ پر، لیکن عمران خان کے آنے سے اس ملک کے غریب عوام کی زندگیوں میں تبدیلی ضرور آئی ہے اور اس بات کو تسلیم نہ کرنا کپتان کے وژن کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کیسے؟ چلیں میں بتادیتا ہوں کہ عمران خان کے وزیراعظم بننے سے پہلے ماہانہ پندرہ ہزار روپے کمانے والا ایک مزدور لے دے کر اپنا اور گھر والوں کا پیٹ پال لیتا تھا۔ کیوں کہ مہنگائی لامحدود نہیں تھی، جو کہ موجودہ حکومت نے معیشت کی بہتری کا جھانسا دے کر پچھلے پندرہ ماہ سے کر رکھی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ 2008 سے 2013 تک پیپلز پارٹی اور 2013 سے لے کر 2018 تک مسلم لیگ نون کی وفاقی حکومتوں نے عوام کےلیے کوئی دودھ اور شہد کی ندیاں نہیں بہا رکھی تھیں، مگر یہ بات ضرور ماننا پڑے گی کہ مہنگائی کا سونامی نہیں آیا ہوا تھا، جس کے باعث عام آدمی گھر، روزگار، ٹرانسپورٹ، روٹی اور یہاں تک کہ علاج و معالجے کی سہولت سے بھی مکمل طور پر محروم ہوگیا ہے۔ اگر یقین نہیں آ رہا تو جان بچانے والی ادویہ کی قیمتیں جاکر مارکیٹ سے چیک کر آئیں۔ آپ کے ہوش اڑ جائیں گے کہ یہ کیسی ریاست مدینہ ہے جہاں دوائیں بھی مریضوں کی پہنچ سے دور کردی گئی ہیں۔

آٹا، چینی، گھی، سبزیاں، مطلب ہر وہ چیز جو گزشتہ، کرپٹ حکمرانوں کے دور میں عوام کو میسر تھیں، وہ اب ایک ٹرانسپیرنٹ حکومت کے آنے سے لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہوگئی ہیں۔ یہ سب کس کی نااہلی ہے؟ کس کی ذمے داری ہے ملک کے بائیس کروڑ عوام کو دو وقت کی روٹی، چھت اور علاج فراہم کرنا؟ اگر ان سب سوالات کے جواب موجودہ حکمرانوں نے نہیں دینے تو میں سمجھتا ہوں انہیں حق حکمرانی بھی نہیں ہونا چاہیے۔ پتہ نہیں معیشت کا کون سا ماڈل لائے ہوئے ہیں جس سے اشیا کی قیمتیں کم ہونے کے بجائے آئے روز بڑھتی ہی چلی جارہی ہیں۔ پتہ نہیں کپتان کس سیاسی ماڈل کو اپنائے ہوئے ہیں جو عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے نئے نئے مسائل پیدا کررہا ہے۔ یہاں تک کہ لاکھوں لوگ بیروزگار ہوگئے ہیں۔ میڈیا سمیت کئی انڈسٹریز تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ بیروزگار ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود یہ کہا جائے کہ تبدیلی لانے پر کام کیا جارہا ہے، ایسی بات بہت تکلیف دیتی ہے۔

میرے یا پھر اس ملک کے عوام کی اکثریت کے خیال میں کپتان کے آنے سے ملک میں تبدیلی آئی تو ہے مگر وہ تباہی کی صورت میں ہے۔ یہ تبدیلی مثبت نہیں بلکہ منفی ہے۔ یہ تبدیلی عوام کی مدد کےلیے نہیں، بلکہ عوام کے منہ سے نوالہ چھین رہی ہے۔ یہ تبدیلی ملک کو مضبوط نہیں بلکہ کمزور کررہی ہے۔ یہ تبدیلی عوام کو ایک کروڑ نوکریاں تو دینے سے رہی، لیکن روزگار ضرور چھین لیا گیا ہے۔ لہٰذا اگر عمران خان کا تبدیلی کا سفر یوں ہی جاری رہا تو پھر ملک و قوم کا خدا ہی حافظ ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

فرحان تنیو

فرحان تنیو

بلاگر شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور مختلف اخبارات اور چینلز میں کام کرچکے ہیں۔ ان سے فیس بک آئی ڈی /farhantunyostv اور ٹوئٹر ہینڈل @khantunio943 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔