خواجہ غلام فرید ؛ جنھیں سرائیکی زبان کا رومی کہا جاتا ہے

سجاد بخاری  اتوار 23 فروری 2020

برصغیر کے نام ور صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید 25نومبر 1845کو (بمطابق 5ربیع الثانی) چاچڑاں شریف ریاست بہاولپور میں خواجہ خدا بخش عرف محبوب الٰہی کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کے آباؤ اجداد فاتحین سندھ کے ساتھ عرب سے سندھ میں داخل ہوئے تھے۔ آپ کے خاندان کے ایک مرید مٹھن خان کے نام سے کوٹ مٹھن کے نام سے ایک قصبہ آباد ہوا اور آپ کے اجداد سے پہلے وہاں سکونت اختیار کی پھر چاچڑاں شریف منتقل ہوگئے۔ آپ کی پیدائش بھی وہیں پر ہوئی۔

آپ صرف8 برس کے تھے کہ آپ کے والد کا انتقال ہوگیا۔ والد کی وفات کے بعد آپ چار سال تک شاہی محل میں نواب خاندان کی سرپرستی میں رہے اور پھر 13سال کی عمر میں چاچڑاں شریف واپس جا کر اپنے بڑے بھائی فخرجہاں کے ہاتھ پر بیعت کی جو کہ ایک بہت بڑی روحانی شخصیت تھے۔ آپ نے ان کو اپنا مرشد قرار دیا اور ان سے روحانی فیض حاصل کیا، جس کا اظہار انہوں نے اپنی شاعری میں ان الفاظ میں کیا:

فخر جہاں قبول کیتو سے

واقف کل اسرار تھیو سے

27 سال کی عمر میں آپ کے بڑے بھائی کا انتقال ہوگیا اور پھر آپ خود مسند نشیں ہو گئے اور والدین سے ملنے والے روحانی فیض کو جاری رکھا۔ آپ نے مسندنشیں ہوتے ہی روزانہ کی بنیاد پر لنگر خانے کا اہتمام کیا اور روزانہ سیکڑوں لوگ آپ کے لنگر خانے سے مستفید ہوتے تھے۔ آپ بہت سخی دل اور درویش صفت انسان تھے۔ آپ کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ آپ کے پاس جو کچھ ہوتا تھا شام تک لوگوں کو بانٹ دیتے تھے اور خود گندم کی روٹی اور گائے کے دودھ سے گزر بسر کرتے تھے۔

آپ نے اپنے روحانی تجربات کو شاعری کے ذریعے عام لوگوں تک اور اپنے چاہنے والوں تک پہنچانے کا فیصلہ کیا اور سرائیکی زبان کو ذریعہ اظہار بنایا ”کافی ”آپ کی شاعری کی سب سے نمایاں صنف ہے، جس کو سرائیکی ادب کا بہت بڑا سرمایہ سمجھا جاتا ہے۔ آپ کی شاعری تصوف اور معرفت کے خزانوں سے بھری ہوئی ہے اور آپ نے اپنے لطیف جذبات و احساسات کو بہت خوب صورت انداز میں اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔ آپ کی شاعری میں تصوف کی نمایاں جھلک نظر آتی ہے اور آپ کا کلام تصوف کے رنگ میں رنگا ہوا نظر آتا ہے۔

خواجہ صاحب کے کلام میں عشق حقیقی اور عشق مجازی دونوں کا سراغ ملتا ہے لیکن عشق حقیقی کا رنگ آپ کی شاعری میں زیادہ نمایاں اور غالب ہے۔ آپ کا نظریہ ہمہ اوست تھا اور آپ وحدت الوجود کے قائل تے۔ پروفیسر دلشاد کلانچوی آپ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ خواجہ صاحب عموماً حالت وجد میں شعر کہتے تھے اور جب آپ پر الہامی کیفیت طاری ہوتی تھی تو آپ بڑی بڑی کافیاں وجد کی حالت میں کہہ جاتے تھے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ہر وقت ”فکر سخن ”میں رہنا ان کا معمول تھا۔

علامہ اقبال خواجہ صاحب کے بارے میں فرماتے ہیں ”جس قوم میں خواجہ فرید جیسے صوفی شاعر اور ان کی شاعری موجود ہو تو اس قوم میں عشق و محبت کا نہ ہونا تعجب کا باعث ہے۔ ”اس لیے آپ کی شاعری میں حسن و عشق کا چرچا بھی ملتا ہے، جس کو آپ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔

پیلوں پکیاں نی آچڑوں رِِل یار

پھر ایک جگہ اور فرماتے ہیں

میڈی آجکل اکھ پھڑکاندی ہے

کوئی خبروصال آندی ہے

آپ کی شاعری کے بارے میں مولانا کوثرنیازی کہتے ہیں کہ خواجہ صاحب سرائیکی زبان بولنے والوں اور سرائیکی علاقے کے لوگوں کے روحانی بادشاہ ہیں اور آپ کی شاعری لاکھوں دلوں پر راج کرتی ہے۔

خواجہ صاحب کا کلام اپنی شاعرانہ لطافت کے باعث سرائیکی خطے کے ہر خاص و عام میں یکساں مقبول ہے، کیوں کہ آپ کے کلام میں زندگی کی امید کا پیغام ملتا ہے مثلا آپ لکھتے ہیں کہ

تھی فرید شاد ول

ڈکھڑیں کوںنہ کر یاد ول

ریاست بہاولپور کے نواب خاندان کے تمام افراد آپ سے گہری عقیدت رکھتے تھے اور آپ کے مریدین میں شامل تھے۔ 1879میں نواب رحیم یارخان کے بیٹے نواب جندوڈا خان کی تاج پوشی کے لیے نور محل بہاولپور دربار لگایا گیا اور تاج پوشی کی اس محفل میں نواب صاحب کو خاص طور پر دعوت دی گئی۔

تاج پوشی کی اس تقریب میں انگریز سرکار کے نمائندے بھی شریک تھے جن میں گورنر رابرٹ ایجرٹن خاص طور پر مدعو تھے۔ تقریب کے اختتام پر ایک شان دار محفل مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔ اس مشاعرے میں خواجہ غلام فرید نے انگریز کے نو آبادیاتی نظام کے خلاف اپنی مزاحمتی شاعری بیان کرتے ہوئے فرمایا

اپنڑی نگری آپ وساتوں

پٹ انگریزی تھا نڑے

آپ کی اس انقلابی شاعری نے عوام کے اندر انگریز کے سام راجی نظام کے خلاف ایک نئی سوچ پیدا کی اور لوگوں کو انگریز کے استحصالی نظام کے خلاف سوچنے پر مجبور کردیا۔ مذہب کا نام لے کر لوگوں کو ورغلانے والے ملاؤں کے خلاف بھی آپ نے آواز بلند کی اور نام نہاد علماء کے اوپر تنقید کرتے ہوئے آپ نے فرمایا

ملاں نہیں کار دے

شیوے نہ جاتن یار دے

بجھن ناں بھیت اسرار دے

غرض آپ کے کلام کے ہر رنگ میں ایک مٹھاس اور شیرینی پائی جاتی ہے جو کہ سرائیکی ثقافت کی عکاسی کرتی ہے۔ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے نہ صرف سرائیکی خطے کی ثقافت کو اجاگر کیا ہے بلکہ آپ نے اپنی شاعری کے ذریعے محبت، اخوت اور بھائی چارے کا درس بھی دیا ہے۔

آپ نے 24جولائی 1901کو 56 سال کی عمر میں وصال پایا اور سرائیکی وسیب ایک عظیم شاعر سے محروم ہو گیا۔ آپ کی اولاد میں ایک بیٹا خواجہ محمد بخش عرف نازک کریم اور ایک بیٹی آپ کے پس ماندگان میں سے تھے۔ ہر سال 5ربیع الثانی کو آپ کا عرس مبارک کوٹ مٹھن شریف میں انتہائی عقیدت سے منایا جاتا ہے اور ضلعی سطح پر عام تعطیل کا اعلان کیا جاتا ہے۔

خواجہ صاحب نے اپنا ذریعہ اظہار زیادہ تر سرائیکی زبان کو بنایا اور روہی رت رنگیلڑی کے تمام خوب صورت پہلوؤں کو اجا گر کیا۔ روہی کی خوب صورت ثقافت اور وہاں کے لوگوں کے مسائل کو جس طرح خواجہ صاحب نے اپنی شاعری میں بیان کیا ہے شاید ہی کوئی بیان کر سکے۔ انہوں نے اپنے دل آفریں کلام کے ذریعے روہی کے لوگوں کی محرومیوں کو بھی اجاگر کیا اور خوشی کے لمحات کو بھی منفرد انداز میں بیان کیا۔ اس کے علاوہ آپ نے تصوف اور معرفت کے موضوعات پر بھی بہت لکھا ہے۔ آپ کی شاعری تصوف اور معرفت کے خزانوں سے بھری پڑی ہے۔ آپ کی دو سو سے زیادہ کافیاں مطبوعہ ہیں اور دیوان فرید میں شامل ہیں۔

دیوان فرید کا پہلا مجموعہ آپ کی زندگی میں ہی شائع ہو گیا تھا، جس میں کافیاں اور ڈوہڑے بھی شامل تھیں۔ ڈوہڑا سرائیکی شاعری کی بہت معروف صنف ہے جس کو سرائیکی ادب میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔ خواجہ صاحب نے سرائیکی ڈوہڑے بھی اسی خوب صورتی سے لکھے ہیں جس خوب صورتی سے آپ نے کافیاں لکھی ہیں۔ اسی بنا پر لاکھوں دلوں پر آپ کی شاعری کی لطافتوں کا قبضہ ہے۔ ماہرین فریدیات آپ کو سرائیکی زبان کی شاعری کا رومی قرار دیتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح رومی اپنے انقلابی پیغام کے ذریعے لاکھوں دلوں پر راج کرتے ہیں۔ اسی طرح خواجہ صاحب بھی اپنی آفاقی شاعری کی بنا پر وسیب کے لاکھوں دلوں پر راج کرتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سرائیکی وسیب کے اس رومی کے محبت اور اخوت کے اس پیغام کو سمجھا جائے اور آپ کے اعلٰی کردار اور اخلاق کی ترویج کی جائے، تاکہ نوجوان نسل آپ کے عظیم پیغام کو سمجھ سکے اور اس کو اپنے لیے مشعل راہ بنا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔