سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 23 فروری 2020
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

سَید فخرالدین بَلّے
ادب کی ہنگامہ خیز شخصیت
جاویداحمد قریشی

سَید فخرالدین بَِلّے میرے دوست بھی تھے اور رفیق کار بھی۔ ہماری رفاقت نصف صدی کا قصہ ہے۔ وہ کوئٹہ، قلات اور خضدار گئے، تو وہاں بھی ادبی ہنگامہ خیزیاں جاری رکھیں۔ سرگودھا، ملتان اور بہاول پور میں بھی ان کے جنوں نے انہیں فارغ نہیں بیٹھنے دیا۔ لاہور اور راولپنڈی میں بھی ادبی اور ثقافتی ہلچل مچائے رکھی۔ وہ ماحول کواپنے رنگ میں رنگنا جانتے تھے۔ اب دنیا میں نہیں رہے، لیکن اپنے احباب کے دلوں میں تابندہ ہیں۔ ایسی مرنجاں مرنج شخصیات کم کم ہی ہوتی ہیں۔

تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال اس شخصیت میں دست ِ قدرت نے بہت سی شخصیات کو یک جا کر دیا تھا۔

ادیب، شاعر، دانش وَر، مقرر اور ماہرتعلقات عامہ ہی نہیں، وہ بہت کچھ تھے۔ وسیع العلمی اور قادرالکلامی ان کا طرہّ امتیاز۔ جس رستے پر چلے، اپنی ذہانت اور علمیت کے گہرے نقوش چھوڑے۔ انسانیت ان کے انگ انگ میں تھی۔ مٹی کا قرض چکانااپنا فرض سمجھتے تھے۔

سَیّد فخرالدین بَلے کے ہاں مزاحمت کا رنگ بھی ہے اور تصوف کا رنگ بھی۔ دراصل ان کی شاعری کے کئی ادوار ہیں، ہر دور میں سوچنے کے انداز مختلف ہوسکتے ہیں اور ہیں بھی۔ اسی لیے ہمیں ان کی شاعری میں بہت سے رنگ دکھائی دیتے ہیں۔ اسے آپ ارتقائی سفر کا نام بھی دے سکتے ہیں۔

وہ قادرالکلام شاعر تھے۔ نظم اور غزل دونوں میں کمالات دکھائے۔ خود نمائی سے بچتے رہے۔ اخبارات و جرائد میں بھی ان کی نگارشات ان کے نام سے بہت کم چھپیں۔ البتہ اکابرین ِادب کی نظر میں وہ ایک دراز قامت علمی شخصیت تھے، اسی لیے وہ ان کی تخلیقی اور فکری توانائیوں کے معترف دکھائی دیتے ہیں۔ مولوی عبدالحق کہا کرتے تھے سید فخر الدین بَلّے کی نظم ہو یا نثر اس میں کوئی نقص نکالنا محال ہے۔ ان کے زیرسایہ بہت سے پودے پروان چڑھے اور ہم نے انہیں تن آور پیڑ بنتے دیکھا۔ ساری زندگی سر اٹھاکر جینے کی کوشش کی اور سراٹھا کے ہمیشہ جئے بھی۔ ان کا اپنا ایک شعر اس حوالے سے میرے تاثرات کو بیان کرنے کیلئے کافی ہے۔

سر اٹھاکر زمیں پہ چلتا ہوں
سرچھپانے کو گھر نہیں نہ سہی

چند حکم رانوں کے ساتھ بھی ان کے قریبی تعلقات رہے، لیکن انہوں نے اس کا کبھی فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ کسی نے نوازنے کی پیش کش بھی کی تو انہوں نے اسے قبول نہ کیا، کیوں کہ یہ تو سر اٹھاکر جینے والوں میں سے تھے۔ ذاتی منفعت اٹھاتے تو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے فائدہ ہی نہیں اٹھایا۔ وہ ذوالفقار بھٹو کے وزارت خارجہ کے دور میں وفد کے ساتھ نئی دہلی گئے تھے، وہاں ان کی ’پی آر‘ دیکھ کر بھٹو صاحب نے ’ایکسیلنٹ‘ کہا۔

اشفاق احمد زندگی میں آسانیاں بانٹنے کی باتیں کرتے رہے ہیں۔ یہی چلن ساری زندگی سید فخرالدین بلے کا رہا۔ وہ اپنے رفقائے کار کی غلطیوں کواپنے سر لے کر انہیں بچا لیا کرتے۔ برائی کا بدلہ بھلائی سے دینا ان کا شیوہ تھا۔ دوسروں کے کام آکر دلی خوشی محسوس کرتے۔ اپنے اثرورسوخ کو کام میں لاکر بہت سے قلم کاروں کو پلاٹ بھی دلوائے، مگر اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے کوئی امید نہیں رکھی۔ اسی لیے وہ بڑے لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کیا کرتے۔ انکساری کے ساتھ خودداری بھی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ہر چھوٹے بڑے کے ساتھ عزت سے پیش آتے اور اہل ِ علم وادب ہی نہیں بیوروکریٹس بھی انہیں قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ وہ بلاشبہ اپنے حلقۂ یاراں میں مقبول اور ہردل عزیز تھے۔

انہوں نے صدور، وزرائے اعظم، گورنروں، وزرائے اعلیٰ سمیت مقتدر شخصیات کے لیے ہزاروں تقریریں لکھیں، بیسیوں بروشرز، سووینئیرز، کتابیں اور کتاب چے شایع کرائے۔ لاہور میں ادبی تنظیم قافلہ بنائی، جس کے تحت بڑی خوب صورت محفلیں سجایا کرتے تھے۔ مجھے بھی ان کے قافلے کی بہت سی محفلوں میں پڑاؤ ڈالنے کا اعزاز ملا۔ ان محفلوں کی رپورٹوں کو یک جا کر دیا جائے، تولاہور کی ادبی تاریخ کے بہت سے اوراق ہم محفوظ کرسکتے ہیں۔ راولپنڈی آرٹس کونسل اور ملتا ن آرٹس کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے ان دونوں ثقافتی اداروں کو نئی زندگی بخشی۔ ڈوبتے ہوئے اداروں کو بچانا نئے ادارے بنانے سے زیادہ مشکل کام ہے، لیکن ان کے لیے یہ سب کچھ بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ اسی لیے تو انہوں نے بہ آسانی یہ معرکہ سر کرلیا۔

اسلام اور فنون ِ لطیفہ کے حوالے سے بھی انہوں نے قرآن واحادیث کی روشنی میں بڑا تحقیقی کام کیا، اس کا مسودہ میری نظر سے گزر چکا ہے۔ واقعی قابل ِ ستائش کارنامہ ہے۔ سَید فخرالدین بَلّے کو اپنی زندگی میں جو میدان ملا، وہ اس سے باہر نکل کر بھی بڑی کام یابی کے ساتھ کھیلتے نظر آئے۔

یہ 1970ء کی دہائی کی بات ہے۔ وہ محکمہ تعلقات عامہ ملتان ڈویژن کے سربراہ کی حیثیت سے سرکاری دورے پر ساہی وال آئے تو وارث شاہ کی یادگار ملکہ ہانس کی خستہ حالی دیکھ کر سیدھے میرے دفتر پہنچ گئے۔ میں ان دنوں ساہی وال میں ڈپٹی کمشنر تھا۔ کہنے لگے آپ کے ہوتے ہوئے آپ کے ضلع میں یہ سب ہورہا ہے، یقین نہیں آتا۔ میں نے پوچھا کیا ہوا تو کہنے لگے بات بتانے کی نہیں، دکھانے کی ہے۔ وہ مجھے ملکہ ہانس لے آئے، اس کی خستہ حالی کی طرف توجہ دلائی۔ انہی کی تحریک پر ملکہ ہانس کی تزئین ِ نو کا اہتمام کیا گیا۔

انہوں نے اس موقع پر ایک خوب صورت بروشر بھی شایع کیا تھا۔ ان کا اپنا شعر اس کے سرِ ورق کی زینت تھا۔ ہر مشکل وقت میں ان کی پیشہ ورانہ مہارت وطن ِ عزیز کے کام آئی۔ وہ محکمہ تعلقات عامہ پنجاب کا چہرہ تھے۔ ان کی عظمت یہ بھی ہے کہ اس محکمے میں ان کے ساتھ بہت سی ناانصافیاں بھی ہوئیں مگر انہوں نے اپنے کام سے ہمیشہ انصاف کیا۔ کام کو ہمیشہ عبادت سمجھا۔ لوگ ساری زندگی دولت سمیٹتے رہتے ہیں اور پھر خالی ہاتھ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں، لیکن سَید فخرالدین بِلّے نے صرف عزت اور نیک نامی کمائی اور دنیا کو بہت کچھ دے گئے۔

۔۔۔

آن لائن سفری سروس کے ’’زخم‘‘

پرویز بلگرامی

میں پابندی سے تینوں آن لائن سروس استعمال کرتا ہوں، اس لیے میرے پاس ’’زخم‘‘ زیادہ ہیں۔ ’اُوبر‘ کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ آپ براہ راست ڈرائیور سے بات نہیں کر سکتے، کمپنی کا عطا کردہ نمبر ہوتا ہے، جیسے ہی سفر پورا ہوا یا ’کیپٹن‘ نے منسوخ کیا وہ نمبر بند ہو جاتا ہے۔ ایک بار اُوبر میں ہمارے صاحب زادے کی ’اسٹک‘ رہ گئی۔ اتفاقاً اس نے بیٹے کو ایک نمبر دے دیا تھا۔ کال کی گئی تو اس نے کہا کہ ’اسٹک‘ کل پہنچا دوں گا۔ بیٹے نے کہا ’’میں اسی کے سہارے چلتا ہوں۔ یہاں آنے کا کرایہ بھی دوں گا۔

آپ لے آئیں۔‘‘ پھر بھی تین دن بعد ملی، لیکن اسٹک کے ربڑ غائب تھے! اس کی دوسری خرابی یہ ہے کہ جیسے ہی آپ کال کرتے ہیں، ڈرائیور پوچھتا ہے کہاں جانا ہے۔ اگر ادھر جانے کی مرضی نہیں ہے، تو وہ ’رائیڈ‘ آگے بڑھا دیتا ہے۔ اس چکر میں ایک دن مجھے 45 منٹ کا عذاب بھگتنا پڑا، ہر تھوڑی دیر بعد ایک نیا نمبر آجاتا ہے۔ اب اگر ہم رائیڈ کینسل کرتے ہیں تو جرمانہ عائد ہوتا ہے، اس آن لائن سروس سے رابطے کا کوئی نمبر نہیں ہے۔ ان کے ’فیس بک‘ پیج پر پیغام بھیجنے کی سہولت میسر نہیں۔ ای میل بھی بند، فون نمبر بھی کوئی نہیں۔ یعنی کوئی بھی راستہ نہیں کہ آپ ڈرائیور کی بدسلوکی یا غلطی کی شکایت کر سکیں۔ (دیگر سروس میں یہ موجود ہے) بفرزون سے ڈیفنس فیز 2 کا کرایہ بائیک سروس سے 120 سے 140 تک بنتا ہے، لیکن ایک دن 350 روپے بن گیا۔ اس وقت تو دے دیا، مگر میں ان کے دفتر پہنچ کر ان کے بڑوں سے ملا تو راز کھلا کہ موصوف نے کال ریسیو کرتے ہی ’سفر‘ جاری کر دیا تھا۔

ایک بار ’رائیڈ‘ بک کی تو رائیڈر نے جواب دیا کہ سر میں ناشتا کر رہا ہوں۔ تھوڑا سا ٹھیر جائیں۔ میں پان کی دکان پر کھڑا گپیں لگانے لگا۔ کافی دیر بعد فون کیا، تو موصوف بولے کہ سر پنکچر لگوا رہا ہوں۔ میں پھر باتیں کرنے لگا۔ دکان دار کے توجہ دلانے پر فون کیا، تو جواب ملا کہ بس آرہا ہوں۔ پھر انتظار کرنے لگا۔ تیسری بار جب فون کے لیے پیج کھولا تو حیران رہ گیا۔

بائیک شو مارکیٹ، گارڈن میں نظر آئی۔ فون کیا، تو جواب ملا کہ گوگل کا نقشہ غلط ہوگا۔ آٓپ دوسری ’رائیڈ‘ منگوا لیں۔ میں تو پنکچر لگوا رہا ہوں۔ میں نے ’کریم‘ کی بائیک منگوا لی اور دفتر پہنچ کر میل چک کیا تو پتا چلا کہ مائنس میں 370روپے لگ کر آئے ہوئے ہیں۔ اگلی ’رائیڈ‘ لیتے ہی وہ رقم ادا کرنی پڑے گی۔ میں ان کے دفتر پہنچ گیا۔ میرا وزیٹنگ کارڈ دیکھ کر ’سی ای او‘ سے ملاقات کرا دی گئی۔ چیک کیا گیا، تو پتا چلا پہلے بھی کئی لوگوں کو اس طرح بل بھیجا گیا۔ ’سی ای او‘ نے بتایا کہ ہر ’رائیڈر‘ دو دو کمپنی میں رجسٹر ہے۔ فون دو ہیں۔ ایک پر اس نے مجھے رائیڈ دی اور دوسرے پر کسی اور کو لے کر چلا گیا۔ دونوں کا بل بنتا گیا۔۔۔!

ایک بار ’کریم‘ کی گاڑی میں صفورا گوٹھ سے بچوں کو اس میں بھیج دیا۔ خود بائیک سے رات ایک بجے واپس آیا، تو بیگم نے بتایا کہ بل 15 سو روپے کا بنا۔ میں نے اپنے موبائل سے ’رُوٹ‘ دیکھا، تو پتا چلا کہ موصوف صفورا گوٹھ سے ائیر پورٹ گئے، پھر وہاں سے ’اسٹار گیٹ‘ اور پھر واپس ’جوہر موڑ‘ آئے اور گھر تک پہنچایا۔ ’کریم‘ کا دفتر میرے دفتر سے قریب ہے۔ میں نے جاتے ہی ’سی ای او‘ سے ملاقات کی اور روٹ دکھا کر کہا کہ میں ایف آئی آر کٹواؤں گا۔ میرے بچوں کو اغوا کی کوشش کی گئی تھی کیوں کہ ایئر پورٹ، ڈرگ روڈ جانے کی وجہ کیا تھی؟ ان لوگوں نے مجھ سے تعاون کیا اور کرایہ واپس کیا، پھر بتایا کہ ایئر پورٹ کے حدود میں جاتے ہی، ٹول ٹیکس لگ جاتا ہے، پھر رُوٹ بھی لمبا ہو جاتا ہے۔ یہی سوچ کر ڈرائیور نے اس راستے کو اپنایا۔

میں نے تو ’فیس بُک‘ پر کئی بار پوسٹ لگائی۔ ان کے دفتر جا کر شکایت کی کہ بھائی کم سے کم ’فیس بُک‘ کھول دیں کہ اس پر عوام اپنی شکایت درج کراسکیں۔ ان کے ایک بڑے افسر نے جواب دیا کہ اگر ایسا کر دیا تو لوگ پورا ’فیس بک پیج‘ بھر دیں گے، گویا یہ اشارہ ہے کہ غلطیاں ہیں اور ہم نہیں سدھریں گے۔۔۔ جو کرنا ہے کر لو! آج ہی صبح اُوبر بُک کی، فوراً جواب آ گیا کہ رائیڈر قریب ہی ایک سواری اتار کر آ رہا ہے۔ انتظار شروع۔۔۔ کچھ دیر بعد پیغام موصول ہوا ’کہاں جانا ہے؟‘ جواب دیا ڈیفنس! بائیک نمبر تبدیل ہو گیا، یعنی رائیڈر نے چار منٹ بعد رائیڈ دوسرے کو دے دی۔ دو ڈھائی منٹ بعد وہ نمبر غائب ایک تیسرا نمبر آنے لگا۔ یعنی اس نے بھی رائیڈ آگے بڑھا دی۔ پورے 32 منٹ بعد رائیڈ آئی، دور کی رائیڈ میں اُوبر والے یہی کرتے ہیں۔ اب شکایت کی جائے تو کس سے اور کس ذریعہ سے؟

۔۔۔

جادو کیسے پھیلا اس پتھر کی دنیا میں

احفاظ الرحمٰن

گُل باری کے ساتھ تما۱شے خوشبو کے اپنی چوپال سجاتے ہیں
میٹھے میٹھے ہاتھ خوشی سے تال لگاتے ہیں

تن، من، تن، تھنن تھنن، تھیا تھیا کی دھن پر ٹھمکے حسیں لگاتے ہیں
پھول ہونٹوں سے جھڑتے ہیں، ساتھ کھڑکیاں ہنستی ہیں
دروازے ہنستے ہیں، ہوا نشے میں جھومتی ہے
ویراں راستے پل بھر میں روشن ہو جاتے ہیں
شرمائی، شرمائی ہر اک سانول گوری کی آنکھوں سے رنگوں کی بارش
ہوتی ہے
اس کا ساتھی شرماتا شرماتا اس کے گرد
ناچنے لگتا ہے
تا تا تھیاتا تا تھیا، پوری دنیا وجد میں آ کر جھومتی ہے
نیلا ایک پرندہ اڑتا اڑتا پلٹ کر آتا ہے
’’ارے یہاں سے گزرو تو ہر سمت اداسی گھومتی تھی
بھوت نگر کے کالے چہرے اپنے جال بچھاتے تھے
چھپکلیاں چھت سے گر گر کر پاؤں سے لپٹی جاتی تھیں
سانپوں کی پھنکاروں سے نیلا زہر ٹپکتا تھا
ہر ذرے میں آگ کا دریا
ہر آہٹ پر خوف کا پہرا
کون ہے جس نے پلٹ دیا ساری دنیا کو
جادوگر وہ کون ہے جو پھولوں کی بارش کرتا ہے
سانول گوری شرماتی ہے، شرمیلے لڑکے کا چہرہ اور دمک اٹھتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔