یوں روز دل نہ جلایا کریں !

خالد محمود رسول  ہفتہ 22 فروری 2020

بیمار کا حال پتلا ہے، آنے والے تیماردار کے لیے بتانا بہت آسان ہے ، ٹوٹکے تجویز کرنا اس سے بھی آسان ہے کہ ان کی شہادت کی ضرورت ہوتی ہے نہ تصدیق کا کوئی تردد۔ ہاں قابل عمل شافی حل بتانا مشکل ہوتا ہے جو مریض کی حالت اور جیب کے مطابق ہو اور سریع الاثر بھی ہو۔ عموماً سمجھ دار تیمار دار پہلی ذمے داری تو بخوبی نبھا دیتے ہیں لیکن شافی حل کی کھوج مریض اور اہل خانہ پر ہی چھوڑنا مناسب سمجھتے ہیں۔

ہم بھی کچھ ایسی ہی مشکل میں ہیں۔ کوئی دن جاتا ہے کہ آئی ایم ایف کا کوئی نابغہ بتلاتا ہے کہ میاں ! خزانے کی حالت پتلی ہے، ٹارگٹ کے مطابق ریونیو اکٹھے کر لو ورنہ خسارے کے سبب مالی بخار میں مبتلا رہو گے۔ کوئی ورلڈ ریٹنگ ایجنسی تسلی دیتی ہے کہ مالی بخار سے فی الحال خطرے کا نقصان نہیں، شارٹ ٹرم آؤٹ لک بہتر ہے لیکن اگر شرح نمو کی رفتار یونہی رہی تو خدا نخواستہ فشارِ خون کا اندیشہ بھی ہو سکتا ہے۔ ہر دوسرے چوتھے اپنے ماہرین بھی یہی کرم فرمائی کرتے رہتے ہیں کہ صاحب اگر اکونومی نے بستر نہ چھوڑا اور نمو کی کلانچیں نہ بھریں تو یہ بخار اور فشارِ خون کوئی اور ہی رنگ نہ دکھا دے۔

اسی ہفتے وزیر تجارت رزاق داؤد نے ہمیں بتلایا کہ ہمارے مالیاتی خرابے کا واحد حل یہ کہ برآمدات بڑھائی جائیں۔ کیسے؟ پرسوں ایک کانفرنس میں گورنر اسٹیٹ بینک نے آگاہ کیا کہ برآمدات میں اضافے کا  سفر تو شروع بھی ہو چکا۔ بقول ان کے پہلی ششماہی میں پاکستان کی برآمدات میں ساڑھے چار فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے کو اگر کوئی انجان کم جانتا ہے تو اس کی آگاہی کے لیے انھوں نے بتلایا کہ ہمارے مقابل ممالک اس ششماہی میں کچھ چت ہو گئے اور کچھ لڑکھڑا کر سنبھلنے کے جتن کرتے رہے۔ بھارت کی برآمدات میں اس ششماہی میں سوا دو فیصد کمی ہوئی، جب کہ اس دوران برآمدات میں تھائی لینڈ کو اڑھائی ، سری لنکا کو ساڑھے تین اور بنگلہ دیش کو سات فی صد کمی کا سامنا کرنا پڑا۔

اس شاندار کارکردگی پر ابھی بغلیں بجانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ گورنر موصوف کی تقریر کے ایک اور حصے پر پڑ گئی ۔ پاکستان کی برآمدات کا تناسب جی ڈی پی میں دس فی صد سے بھی کم ہے۔ اس قدر کم تناسب کے ساتھ جن ممالک کے ’ شانہ بہ شانہ‘ ہم کھڑے ہیں ان کا نام انھوں نے یمن، صومالیہ اور ایتھوپیا بتلایا۔ اب یہ سن کر ان کی تقریر کے پہلے حصے سے حاصل ہوئی خوشی بھک سے کافور ہو گئی۔

مالیاتی اشاریوں میں کوئی معمولی بہتری آجائے تو حکومت شادیانے بجانے اور مخالفین کو کوسنے دینے میں جت جاتی ہے۔ اسی طرح اپوزیشن کو کوئی مالیاتی اشارئے اپنے مطلب کے مل جائیں تو وہ حکومت کے لتّے لینے میں کوئی کسر نہیں چھورتی۔ مان لیتے ہیں کہ یہ حکومت اب تک خلافِ توقع کوئی معاشی معجزہ نہیں دکھا سکی لیکن آج کی اپوزیشن کے پاس جب حکومت تھی ، تب کی کارکردگی بھی کوئی الگ تھوڑی تھی۔

کچھ ایسی ہی زمین تھی اور ایسا ہی آسمان تھا۔ الّا ماشاء اللہ    برآمدات کی بابت وزیر موصوف اور گورنر موصوف نے ’ پتے‘ کی باتیں کیں۔ 2003 سے لے کر 2018 کے دوران بھارت نے برآمدات میں ساڑھے پانچ گنا ، سری لنکا اڑھائی گنا ، ویت نام بارہ فی صد سے زائد اور بنگلہ دیش نے سات گنا اضافہ کر دکھایا۔اس دوران پاکستان کی برآمدات میں اضافہ فقط دگنا سے بھی کم ہوا یعنی 1.9گنا۔ اس دوران معاشی معجزہ کار شوکت عزیز نے بھی حکومت کی، پی پی پی اور مسلم لیگ ن نے بھی!

ہمارے ارد گرد ان معیشتوں کے حجم میں بھی لگاتار اضافہ ہوا ، ان میں سے بیشتر ممالک کے ہاں  جی ڈی پی کی سالانہ شرح نمو سات فیصد کے لگ بھگ رہی۔ اس کے بر عکس ہمارے ہاں معیشت اوسطاً تین چار فی صد سے کبھی زیادہ نمو نہ پا سکی۔ پاکستان کی برآمدات کا حصہ جی ڈی پی میں سال 2000میں ساڑھے تیرہ فیصد تھا جو سال 2018 میں کم ہو کر محض ساڑھے سات فی صد رہ گیا۔ یعنی تقریباً آدھا رہ گیا ، جب کہ اس دوران بھارت کا حصہ تیرہ فی صد سے بڑھ کر بیس فی صد ہو گیا، بنگلہ دیش کا  بارہ فی صد سے بڑھ کر پندرہ فی صد ، ترکی کا انیس فی صد سے بڑھ کر تیس فی صد ہو گیا ۔ ویت نام کا حصہ اکہرے ہندسے سے بڑھ کر 95 فی صد ہو گیا۔

صنعتی شعبہ مسلسل سکڑاؤ کا شکار ہے، معاشی ماہرین عرصے سے دہائی دے رہے کہ پاکستان کو قبل از وقت ڈی انڈسٹریلائزیشن کا سامنا ہے۔ زراعت میں بھی تمام بڑی اجناس کی پیداوار میں کمی کا رجحان ہے۔ ترجیحات کا یہ عالم ہے کہ پانی کی شدید قلت کے باوجود کپاس کی پیداوار کے ایریا میں کمی جب کہ گنے اور چاول کی پیداوار کے لیے ایریا میں اضافہ ہو رہا ہے۔  جب ملک میں پیداوار میں تنزلی اور ابتری کا یہ عالم ہو گا  تو برآمدات کے لیے دستیاب کیا ہوگا، کتنا ہو گا جو ہم برآمد کریں گے !

جو دستیاب ہے وہ اس قدر کم ویلیو کا ہے کہ بازار میں اس کی مانگ اور قیمت بہت کم ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی برآمدات میں آئرن اور اسٹیل، کیمیکلز، آفس و ٹیلی کام ایکیوئپمنٹ اور آٹو موبائلز شامل ہیں۔ ٹیکسٹائلز کا نمبر ان کے بعد کہیں آتا ہے ۔ ہم لے دے کر نصف سے زائد ٹیکسٹائلز اور گارمنٹس بر آمد کرتے ہیں جس کا حصہ دنیا کی ٹریڈ میں تین فی صد کے لگ بھگ ہے۔ پاکستان میں ویلیو ایڈڈ پیداوار کا تناسب جی ڈی پی میں سال 2000 میں پندرہ فی صد تھا جب کہ یہ تناسب سال 2017  میں بارہ فی صد تھا!

دنیا چوتھے انڈسٹریل انقلاب کے لیے سربہ گریباں ہے اور ہم ہیں کہ ایک ششماہی کے موافق اعدادو شمار پر شاداں ہیں۔ پاکستان کی معیشت کی  تعمیر میں سب سے بڑی خرابی کی صورت یہی مضمر ہے کہ دنیاکے پیداواری اور معاشی ڈھانچے میں انقلابات در انقلابات رونما ہوئے لیکن ہم اپنی کٹیا سے باہر نکلنے اور دیکھنے کو روا دار نہ ہوئے۔ کیا سیاسی اور کیا غیر سیاسی حکمران، طویل مدت میزانیہ سب کا ایک سا ہے۔ بیمار کا حال پتلا ہے، کوئی شافی اور سریع الاثر حل کسی کے پاس ہے تو Turn Key بنیادوں پر کچھ کر دکھائے ورنہ یوں دل نہ جلایا کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔