اب بھی وقت ہے

نصرت جاوید  منگل 4 ستمبر 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

معاشرے جب گروہوں میں بٹ کر اپنے اپنے گروہی مفادات سے بالاتر ہوکر چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کے قابل نہ رہیں تو وہ شے جسے سچ کہا جاتا ہے، اس کا تعین بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ہم بھی ایک بکھری ہوئی قوم بن چکے ہیں۔ آپ کا سچ مجھے جھوٹ نظر آئے گا اور میرے چاہنے والے میرے سراسر سفید جھوٹ کو بھی سچ ماننے کے لیے ایک منٹ نہ لگائیں گے۔

پیر کو سابق وزیر اعظم کے بیٹے علی موسیٰ گیلانی، جو اب قومی اسمبلی کے 90 ہزار ووٹوں کے ساتھ رکن بھی بن چکے ہیں، کی عبوری ضمانت ہائیکورٹ نے منسوخ کر دی۔ ایسا ہی فیصلہ مخدوم شہاب الدین کے بارے میں بھی کیا گیا۔ ان دونوں کی ضمانتوں کا منسوخ ہو جانا ٹیلی وژن اسکرینوں پر ’’بریکنگ نیوز‘‘ بن گیا اور یہ کوئی عجب بات نہ تھی۔ علی موسیٰ ایک سابق وزیر اعظم کے بیٹے ہیں اور شہبا ب الدین میانوالی قریشیاں کے مخدوم ہیں جن کا خاندان نسلوں سے سرکار دربار کے امور سے وابستہ رہا ہے۔

میں علی موسیٰ گیلانی کو بالکل نہیں جانتا۔ نہ کبھی ملاقات ہوئی نہ ان لوگوں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا ہوا جو ان کے بارے میں سب کچھ جانتے ہوں۔ مخدوم شہاب الدین کو البتہ بیس سے زیادہ سالوں سے جانتا ہوں۔ ان سے دوستی کا دعویٰ تو نہیں کر سکتا۔ مگر بہت دفعہ بے تکلف محفلوں میں ان کے ساتھ ضرور بیٹھا۔ ذاتی طور پر موصوف بڑے نفیس آدمی ہیں۔ بڑی شستہ اور یوپی کے اشراف والے لہجے کی اُردو بولتے ہیں۔

2008 کے انتخابات کے بعد اکثر مواقعے پر میں نے انھیں بڑا پریشان پایا۔ ان کا خیال ہے کہ سیاست اب ’’خاندانی آدمیوں‘‘ کے بس کی بات نہیں رہی۔ جن حلقوں سے انتخاب لڑ کر وہ اسمبلیوں میں آیا کرتے تھے وہاں کے لوگ ایسی سفارشوں پر مجبور کرتے ہیں جو کوئی بھی ’’عزت دار آدمی‘‘ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ وہ ایک مرتبہ اس بات پر بھی بہت حیران تھے کہ لاہور کے ان مضافاتی علاقوں میں جہاں کھیت ختم ہو کر پلازوں یا ہائوسنگ سوسائٹیوں کی جگہ بنا رہے ہیں۔ وہاں پٹواریوں وغیرہ کی تعیناتی یا تبدیلی کے لیے بہت سفارشیں آتی ہیں۔

انھیں اپنے پاس آنے والے سفارشیوں کو بڑی تفصیل اور عاجزی سے سمجھانا پڑتا ہے کہ پنجاب میں شہباز شریف کی بادشاہی ہے۔ وہ رحیم یار خان کے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے مخدوم شہاب الدین کی بات کیوں مانیں گے۔ سفارشی بجائے ان کی بات سمجھنے کے جاتے ہوئے کچھ اس طرح کا تاثر دیتے ہیں کہ چونکہ ان کی بات نہیں مانی گئی لہٰذا آیندہ انتخاب میں ووٹ لینے کے لیے ان سے رابطہ نہ کرنا ہی بہتر ہوگا۔

مخدوم شہاب الدین کی سفارشی معاملات کے بارے میں مسلسل نظر آنے والی حیرانی اور پریشانی کے تناظر میں میرے لیے کافی مشکل ہے کہ میں یہ بات ہضم کر سکوں کہ انھوں نے اپنے کسی جاننے والے کو ایفی ڈرین کا خلافِ معمول وضابطہ کوٹہ دلوا کر مال بنایا ہو گا۔ تاہم میں نہ تفتیشی افسر ہوں نہ عدالت۔ مخدوم صاحب کو گرفتاری پیش کر کے تحقیقات کے عمل سے گزرنا ہو گا۔

اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں۔ مخدوم صاحب کی گرفتاری کے وارنٹ پہلی بار عین اسی دن جاری ہوئے تھے جب انھیں وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا گیا۔ بجائے اسمبلی جا کر اس عہدے کے لیے ووٹ حاصل کرنے کے وہ چھپ چھپا کر پشاور پہنچے اور عبوری ضمانت کروا لی۔ وہ کرسی جو انھیں ملنا تھی راجہ پرویز اشرف کے نصیب میں لکھی گئی اور مخدوم صاحب کے چہرے پر ہمہ وقت نمایاں نظر آنے والی شگفتگی بھی کہیں غائب ہو گئی۔

مجھے اصل پریشانی مگر ایک خوش گوار شخص پر اُچھلنے والے گند کی نہیں۔ زیادہ فکر مند اس بات پر ہو رہا ہوں کہ علی موسیٰ گیلانی اور مخدوم شہاب الدین کی ضمانتیں منسوخ ہو جانے کے بعد میرے ٹیلی فون اور انٹرنیٹ پر آنے والے پیغامات میں بہت سارے لوگوں نے ان دونوں حضرات کے ساتھ ہونے والے سلوک کا تقابل ارسلان افتخار کے ساتھ ہونے والے برتائو سے کرنا شروع کر دیا۔

اگر آپ اس تقابل کا سطحی طور پر جائزہ لیں تو فوراََ خیال یہی آئے گا کہ پیپلز پارٹی کے حامی یہ تقابل پیش کرنے کیسوا اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ مگر بات اتنی بھی سادہ نہیں۔ موسیٰ گیلانی اور مخدوم شہاب الدین سے پہلے علامہ حامد سعید کاظمی تقریباََ دو سال تک ایف آئی اے کی قید میں رہ کر ضمانت پر رہا ہوئے ہیں۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ان کے خلاف ٹھوس ثبوتوں والا چالان تیار نہ ہو پایا۔ مگر اس دوران جو ذلت وتکلیف علامہ صاحب نے برداشت کی اس کا ازالہ تو کبھی نہ ہو پائے گا۔

انسانوں کے بارے میں ترحمانہ جذبات رکھنے سے قطعی طور پر عاری ہونے والے اپنے معاشرے میں مجھے زیادہ فکر اس بات کی ہو رہی ہے کہ ہمارے ملک میں اب ایک ایسا گروہ تیزی سے پھیل رہا ہے جو طے کیے بیٹھا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہ نمائوں اور حامیوں کو ہمارے عدالتی نظام سے انصاف مل ہی نہیں سکتا۔ ذرا سنجیدگی سے سوچئے تو ایسی سوچ آپ کو چین سے بیٹھنے نہ دے گی۔ عدالت کو گروہی تقسیم سے بالا تر نظر آنا چاہیے۔

اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے اور یہ امید بھی کہ اپنی تمام تر خامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود ہم ایک نسبتاََ مہذب معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ جہاں زورآور، ان کا تعلق خواہ کسی جماعت سے ہو اپنی من مانی نہیں کر سکتے۔ ان پر نگاہ رکھنے والے ادارے بھی ہیں اور الزامات کا غیر جانبداری سے جائزہ لینے والی عدالتیں بھی۔

دنیا بھر کی جمہوریتیں خواہ وہ امریکا ہو یا بھارت، سیاسی طور پر بڑی شدت سے تقسیم ہوئی نظر آیا کرتی ہیں۔ امریکا میں آج کل صدارتی انتخاب کی مہم چل رہی ہے۔ اوبامہ کے بڑے ہی وسائل والے مخالفین وہاں کی ٹیلی وژن اسکرینوں کو بڑے ہی منفی اشتہارات سے بھر رہے ہیں۔ مگر مجھے یقین ہے کہ اگر اوبامہ یا اس کے کسی نامی معتمد یا ساتھی کا تذکرہ کسی عدالتی معاملے سے ہو گا تو کوئی بھی شخص انصاف نہ ملنے کا رونا نہیں روئے گا۔

حال ہی میں بھارت میں گجرات کے فسادات میں اہم کردار ادا کرنے والے ایک ہندو انتہاء پسند سابق وزیر کو تقریباََ تامرگ قید سنا دی گئی۔ بھارتی اپوزیشن کے کسی ر ہنما نے عدالتوں کو اپنی تنقید کا نشانہ نہیں بنایا ہے۔ ہمارے ہاں ایسا کیوں نہیں ہو پا رہا؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنا پڑے گا۔

جان کی امان پاتے ہوئے یہ بھی عرض کرنے کی کوشش کروں گا کہ سیاستدانوں سے قطع نظر ہماری عدالتوں میں بیٹھے عزت مآب ججوں کو اس تاثر کو جھٹلانے کی ہر ممکن کوشش کرنا ہوگی کہ وہ آیندہ انتخابات کے بہت ہی قریب زمانے میں صرف ایک سیاسی جماعت کو جھٹکے دیے جا رہے ہیں۔ یہ محض اتفاق ہے کہ توہین عدالت کے الزام میں فارغ شدہ گیلانی بغیر چالان کے جیل میں پڑے رہنے والے علامہ کاظمی اور اب شہاب الدین اور علی موسیٰ گیلانی کا تعلق صرف پاکستان پیپلز پارٹی سے ہی نہیں سرائیکی وسیب سے بھی ہے۔ سیاستدان اپنے مقصد کے حصول کے لیے جذباتی کہانیاں گھڑنے اور انھیں پھیلانے کے ماہر ہوا کرتے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والوں نے اپنی مظلومیت کا فسانہ گھڑ کر لوگوں کے دلوں تک پہنچا دیا تو آیندہ انتخابات میں ایسی فضاء بھی بن سکتی ہے جو کسی کے قابو میں نہیں آئے گی۔ اب بھی وقت ہے۔ ہمیں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ان کی طرف سے بنائے گئے مقدمات کا عدالتوں کے ذریعے منصفانہ فیصلہ ہوتے ہوئے نظر آنا چاہیے۔ بغیر کسی لیت ولعل اور حجت کے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔