Point of No Return

اسلم خان  ہفتہ 23 نومبر 2013
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

پاکستان کے خلاف جاری امریکی جارحیت اور حالات کے جبر نے ہمیں دیوار کے ساتھ لگا دیا ہے، بند اندھیری گلی میں دھکیل دیا ہے۔ ہمارے شیر دلیر حکمرانوں سے قوت فیصلہ چھین لی ہے۔ سارے جہان کی آفتوں اور مصیبتوں نے ہمارے گھر کی راہ دیکھ لی ہے اور ہم بدحواسی کے عالم میں دائیں بائیں دیکھ رہے ہیں۔ مصیبت کے اس عالم میں کون ہماری مدد کو آئے گا؟ چینی ہمیشہ کی طرح غیر جانبدار ہیں، ایران سے ہم گیس پائپ لائن کا معاہدہ کر کے پچھتا رہے ہیں۔ روسی بن بلائے ہماری مدد کو کیوں آئیں گے، دُور کھڑے تماشا دیکھ رہے ہیں۔ رہی اسلامی دُنیا تو اس کی شہ رگ امریکا کی آہنی گرفت میں ہے۔

ان حالات میں خیبر پی کے قانون کی علمبرداری والے علاقے ہنگو میں پہلا ڈرون حملہ کر کے امریکیوں نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنے ڈرون حملوں کا دائرہ کار اسلام آباد سمیت پاکستان بھر میں پھیلا سکتے ہیں۔ نواز شریف اور عمران خان کے لیے یہ کٹھن وقت ہے۔ ان کے لیے آگے کھوہ (کنواں) اور پیچھے کھائی ہے۔ فیصلے کی گھڑی آ پہنچی ہے، اب ہمیں عزت یا ڈالروں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے، چوہدری نثار علی خاں اپنا سر پیٹ رہے ہیں۔ ڈرون حملوں کے بارے میں امریکی یقین دہانیوں پر اعتبار کرنا حماقت ہو گا۔ فرماتے ہیں کہ ڈرون حملوں کے بارے میں سرتاج عزیز جیسے سنجیدہ فکر اور تجربہ کار بزرگ کا بیان پڑھ کر دنگ رہ گیا تھا۔ چوہدری نثار علی خاں نے انکشاف کیا کہ ہنگو حملے کے بعد امریکیوں نے انھیں اپنی طلسم ہوش ربا جیسی ’الف لیلیٰ‘ کی کہانی سنانے کی کوشش کی تھی لیکن میں نے اُنہیں صاف صاف بتا دیا تھا کہ امریکا پاکستان میں امن اور طالبان سے مذاکرات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ سرتاج عزیز نے بتایا تھا کہ امریکیوں نے مذاکرات کے دوران حملے نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ کیا مذاکرات شروع ہو گئے تھے؟ جو ہم تازہ ترین حملے پر سٹپٹا گئے ہیں۔

امریکی تو شاید بہت پہلے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ پر ڈرون حملہ کر دیتے لیکن انھیں اسامہ بن لادن کی نعش کی ’ٹرافی‘ درکار تھی اس لیے انھوں نے کمانڈو آپریشن کر کے انھیں ساتھیوں سمیت قتل کر دیا تھا۔ اب یہ واضح ہو گیا ہے کہ امریکا پاکستان کو بحران در بحران کے منحوس چکر میں اُلجھا کر بے بس کرنا چاہتا ہے۔ جس میں شاطر امریکیوں نے جزوی کامیابی حاصل کر لی ہے۔

بے دھڑک اور بغیر لگی لپٹی کے بات کرنے والے بلند آہنگ عمران خان کے لیے صورتحال سنگین سے سنگین تر ہوتی جا رہی ہے۔ وہ نیٹو سپلائی بند کرنے اور دھرنا دینے میں خیبر پی کے کی صوبائی حکومت کو شامل کرنا نہیں چاہتے تھے لیکن پشاور میں انھوں نے جلسے میں تقریر کے دوران انھوں نے کے پی کے حکومت سے نیٹو سپلائی بند کرنے کی اپیل کردی ہے۔ ہنگو حملے کے بعد خیبر پی کے کی صوبائی حکومت اس معاملے میں فریق بن گئی ہے۔ خیبر پی کے صوبائی حکومت نے ہنگو ڈرون حملے کے بعد نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے جب کہ عمران خان کے اتحادی جماعت اسلامی کے درویش صفت سید منور حسن تو نجانے کب کے امریکیوں سے دو دو ہاتھ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کئی دہائیوں پر محیط یاد اللہ کی وجہ سے یہ کالم نگار جانتا ہے کہ سید منور حسن:

’بے دھڑک کود پڑا آتش نمرود میں عشق‘

کی زندہ و تابندہ مثال ہیں۔ انھیں مہلک نتائج کی کوئی پروا نہیں ہے، ہمیں پتھر کے دور میں دھکیل دیا جائے یا اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے۔ بعض سیانے دہائی دے رہے ہیں، ڈرا رہے ہیں، تلخ حقائق بتا رہے ہیں کہ خیبر پی کے 1 کھرب 18 ارب روپے کے سالانہ بجٹ میں 35 ارب روپے کی نیٹو رکن ممالک کی امداد بھی شامل ہے۔ نیٹو سپلائی بند کی گئی تو یہ امداد بھی بند ہو جائے گی، مولانا فضل الرحمن USAID کے جاری ترقیاتی منصوبوں کا طعنہ دئیے جا رہے ہیں لیکن عمران خان تمام نتائج سے بے پروا ہو کر لامتناہی دھرنا دینے کے لیے میدان میں نکل آئے ہیں۔

یہ بھی تاریخ کا جبر ہے کہ ایچی سن کالج کے زمانے سے متحارب دو دوست، عمران خان اور نثار علی خاں تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آتے جا رہے ہیں۔ سید منور حسن، عمران خان اور نثار علی خاں کی تکون امریکیوں سے پنجہ آزمائی کے لیے بے تاب ہے لیکن آخری فیصلہ تو وزیر اعظم نواز شریف نے کرنا ہے جنھیں عالمی سطح پر پاکستان کی تنہائی کا بخوبی احساس ہے۔ دگرگوں معاشی صورتحال اور بدترین اقتصادی حالات نے نواز شریف سے ان کی روایتی مسکراہٹ چھین لی ہے۔ امریکی شہ دماغوں نے ان کی ’ہاتھ ہولا رکھنے‘ کی تمام درخواستیں ہوا میں اُڑا دی ہیں، ہماری تنہائی کا یہ عالم ہے کہ ہمسایہ ممالک میں سے صرف ایران ہماری مدد کو آ سکتا تھا۔ جسے خود اپنی سلامتی کے لیے جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ سے بلند اور شہد سے میٹھی دوستی کے دعویدار چینی ہمیشہ کی طرح غیرجانبدار ہیں، وہ تو ہمیں محاذ آرائی سے بچنے کے مشورے دے رہے ہیں۔

چین سے غیر ضروری توقعات باندھنے والے یہ حقیقت فراموش کر دیتے ہیں کہ امریکا چین تاریخی روابط شروع کرانے کے صلے میں 1970ء کے بحران میں دونوں ممالک نے ہماری کوئی مدد نہیں کی تھی۔ بھارتی جارحیت کے مقابل چینی خاموش رہے تھے جب کہ امریکیوں کا 7 واں بحری بیڑا بحر ہند میں خراماں خراماں گشت کرتے ہوئے بنگال کے ساحلوں تک نہیں پہنچ پایا تھا۔ اگر یہ چینی بھارت کے مقابل 1971ء میں ہماری مدد کے لیے نہیں آئے تھے تو اب وہ امریکا کی مخالفت مول لے کر کیسے ہماری مدد کرینگے۔ آخری اُمید روسی صدر پیوٹن ہو سکتے ہیں جنھوں نے شام کی خانہ جنگی میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہوئے کیمیاوی ہتھیاروں کی آڑ میں عالمی لشکروں کو شام پر چڑھائی نہیں کرنے دی تھی لیکن ہمارے وزیر اعظم نے تاحال ماسکو کا دورہ کرنا ضروری نہیں سمجھا۔

اندریں حالات آخری سیاسی فیصلہ جناب نواز شریف نے کرنا ہے، مسلح افواج نے گذشتہ دنوں بہاولپور میں ہونے والی جنگی مشقوں کے دوران وزیر اعظم نواز شریف کی موجودگی میں مقامی ساختہ ڈرون تباہ کر کے واضح پیغام دیا تھا کہ پاکستان امریکی ڈرونز گرانے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ تخت یا تختہ، زندگی یا موت آج ہم دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ہمارے وزیر داخلہ کہہ رہے ہیں ’ڈالر یا عزت‘ فیصلہ ہم نے خود کرنا ہے۔ فرار کی کوئی راہ موجود نہیں یا تو آنکھیں بند کر کے امریکیوں کی غلامی قبول کر لیں یا پھر اللہ کا نام لے کر اپنی آزادی اور خود مختاری کا علم بلند کر کے میدان عمل میں نکل آئیں۔اب آگے کیا ہوگا ہے،اس کا فیصلہ حکومت نے کرنا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔