مشرف کا مستقبل، امید و خدشات…

محسن کاظمی  ہفتہ 23 نومبر 2013

پاکستان میں پہلا مارشل لاء اکتوبر 1958 میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے لگایا اس مارشل لاء میں11 سال تک سیاست دانوں پر پابندی لگی رہی صرف اس وقت یہ پابندی نرم ہوئی جب 1962 کے قانون کے تحت نئے انتخابات ہوئے ۔جس میں براہ راست جمہوری انداز میں ووٹ دینے کاحق نہیں تھا بلکہ بنیادی جمہوریت یعنی BD سسٹم کے تحت انتخابات ہوئے جس کا مقصد یہ تھا کہ مارشل لا ہٹا کر بھی فیلڈ مارشل محمد ایوب خان ہی ملک کے سربراہ رہیں۔ ان کا مقابلہ محترمہ فاطمہ جناح نے کیا جن کی قومی خدمات یہ تھیں کہ انھوں نے اپنے بھائی کے شانہ بشانہ تحریک پاکستان میں برابر کا حصہ لیا اور قائد اعظم محمدعلی، لیاقت علی خان اور علامہ اقبال جیسے سیاسی اکابرین فکر کے بعد سب سے زیادہ حق اقتدار رکھنے والی مدبر خاتون تھیں۔

ہر محب وطن کے دل میں ان کی بہت عزت اور وقار تھا اصولاً تو جنرل ایوب خان کو ان سے مقابلہ کرنا ہی نہیں چاہیے تھا اور اگر کرنا ہی تھا تو عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے، مگر ان انتخابات کے نتائج جو خاص منصوبہ بندی سے تیارکیے گئے تھے ان کا اعلان ریڈیو پاکستان سے اسوقت ہی شروع ہوگیا تھا جب انتخابی حلقوں میں ابھی ووٹنگ کی گنتی جاری تھی۔ سب سے زیادہ احتجاج کراچی میں ہوا کیونکہ یہاں ان لوگوں کی اکثریت ہے جنھوں نے پاکستان کی تحریک میں عملی حصہ لیا اور پاکستان کی محبت میں اپنے آبائی وطن سے ہجرت کی ۔ اپنے مال و زر زمین و مکان کی قربانی دی۔ اپنے خاندانوں کی تقسیم کو برداشت کیا صرف اس لیے کہ وہ ایسے وطن کا خواب دیکھ رہے تھے جہاں ہندوؤں کا تسلط نہ ہو۔ جہاں بحیثیت مسلمان وہ آزادانہ طور پر اپنے مذہب پر عمل کرسکیں کوئی رکاوٹ نہ ہو اور دنیا کو یہ باور کراسکیں کہ پاکستان ایک مثالی مسلم اسٹیٹ بن کر ابھرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔

قائد اعظم محمدعلی جناح کی رحلت اور خان لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد مسلم لیگی سیاستدانوں نے پاکستان میں ان قوتوں کے ہاتھ مضبوط کیے جو جمہوریت نہیں ملوکیت چاہتے تھے ان میںمذہبی جماعتوں نے سب سے زیادہ اہم کردار ادا کیا کیونکہ ملاؤں کی اکثریت پہلے کی تقسیم ہند کے خلاف تھی۔ ہمارے بزرگ جانتے ہیں کہ جنرل ایوب خان کو امیر المومنین بنانے کی تیاری کون کررہا تھا۔ جنرل یحییٰ خا ن کا  ساتھ کس نے دیا۔ پاکستان میں قومیت، لسانیت اور صوبائیت کا نعرہ لگانے والے پختونستان ، گریٹر بلوچستان ، سندھو دیش اور پاکستان ٹوٹنے کا شور مچانے والے کون تھے۔ ان ہی لوگوں نے پاکستان کے نظریہ کو کاری ضربیں لگائیں۔آج ہم جو کچھ بھگت رہے ہیں وہ سب ان ہی لوگوں کی وجہ سے ہے۔

جب 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹا تو اس وقت بھی تمام قوم پرست اور مُلّا ملٹری الائنس کے تحت آمر کا ساتھ دیا گیا۔ کچھ سیاستدانوں کے مشورہ اور عالمی دباؤ پر ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی جس نے بقیہ پاکستان کو بچالیا، جس نے تعلیم کو عام کیا نوکر شاہی کے کیڈر کو ملیا میٹ کرکے غریب ہاری اور مزدور کے بیٹے اور بیٹی کو بھی میرٹ کے امتحان میں بیٹھنے کا موقع دیا، جمہوریت کو پھر سے پروان چڑھایا۔ جب اگست 1988 میں ضیاالحق فضائی سانحہ میں جاں بحق گئے اور اس کے بعد انتخابات ہوئے تو پھر پی پی پی اور بے نظیر جیت گئی۔ مگر شایداسٹیبلشمنٹ کو منظور نہ تھا، یوں اس کے بعد سے کسی بھی جمہوری حکومت کو مضبوط نہیں ہونے دیا گیا۔

جنرل پرویز مشرف نواز شریف کا تختہ الٹ کر منظر عام پر آئے ۔ ان پر الزامات بہت سے ہیں،مقدمات بھی لاتعداد، تاہم  ان پر غداری کا الزام معنیٰ خیز ہے۔ایسا نہیں ہے ۔ وہ بھی پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانا چاہتے تھے۔تاریخی طور پر پاکستان میں نہ جنرل ایوب کے خلاف مقدمہ چلا نہ جنرل آغا یحییٰ کے خلاف مقدمہ چلا نہ جنرل ضیا الحق کے خلاف۔ آج جنرل پرویز مشرف پر کسی طور پر مقدمہ نہیں چلایا جانا چاہیے۔ اسی طرح مارشل لاء کے دوران جتنے اقدامات ہوئے ان کو چیلنج کیا جاسکتا ہے یا نہیں اس پر ملک ایک نئے بھونچال سے گزرے گا۔ سابق جنرل پرویز مشرف آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کی عدالت سے ضمانتیں ہونے کے باوجود انھیں رہائی سے پہلے ہی لال مسجد کے معاملے میں گرفتارکرنا کوئی نیک شگون نہیں تھا ، نہ ہی یہ وقت کا تقاضہ ہے۔

جنرل پرویز مشرف کے اقدامات کا، زرداری دور یا سابقہ جنرل ضیاء الحق کے دور سے موازنہ کریں تو جنرل پرویز مشرف کا دور سب سے اچھا تھا ۔ انھوں نے کوئی کرپشن نہیں کی ۔ ہاں ان سے غلطیاں ضرور ہوئیں انھوں نے نادان دوستوں اور بے وفاؤں پر بھروسہ کیا ۔ انھوں نے شوکت عزیز کی شکایت پر عدالت عظمیٰ کے ججوں کے خلاف جو اقدام اٹھایا وہ مناسب نہیں تھا۔ جنرل پرویز مشرف کو حق پہنچتا ہے کہ انھیں سیاسی مقابلہ کی اجازت دی جائے۔ اگر ان کو اسی طرح مقدموں میں پھنسایا گیا تو اس کے نتائج منفی ہوں گے۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف ہر مقدمہ کا سامنا کرنے کو تیار ہیں مگر ان کا میڈیا ٹرائل انصاف نہیں ہے۔ حال ہی میں 2013 کے عام انتخابات کے نتائج تو حیران کن ہیں۔ ان کے راز کھلنا اب شروع ہوگئے ہیں۔ اگر اپوزیشن یہ ٹھان لے کہ تمام نتائج کے لیے انگوٹھے کے نشان کی تصدیق نادرا سے کروائی جائے کیونکہ یہ انتخابات کافی حد تک مشکوک ہوچکے ہیں تو یقینا حیران کن نتائج سامنے آئیں گے۔

موجودہ حکومت کے تمام اداروں کو سیاسی اقدامات اور ترجیحات میں اپنے تضادات اور پسند و ناپسند ختم کرنا ہونگے تاکہ کوئی یہ تاثر نہ لے کہ

میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔