شامی بحران؛ ترک صدر کے مختلف ملکوں سے رابطے

ایڈیٹوریل  اتوار 23 فروری 2020
روسی جنگی طیاروں کی بمباری سے حالات قابو سے باہر نکل جانے کا خدشہ ہے

روسی جنگی طیاروں کی بمباری سے حالات قابو سے باہر نکل جانے کا خدشہ ہے

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پیوٹن سے کہا ہے کہ شام کے صدر پر ادلب میں باغیوں کے خلاف فوجی کارررائی روکنے کے لیے دباؤ ڈالیں ۔ ادلب آخری علاقہ ہے جو شامی حکومت کے باغیوں کے قبضہ میں رہ گیا ہے۔

صدر اردوان نے صدر پیوٹن کے ساتھ اپنے ٹیلی فونک رابطے میں کہا کہ اس علاقے میں فوجی کارروائی سے انسانی المیہ پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ روسی جنگی طیاروں کی بمباری سے حالات قابو سے باہر نکل جانے کا خدشہ ہے۔ واضح رہے نو سال سے جاری اس خانہ جنگی میں شام کے لاکھوں سویلین ہلاک و بے گھر ہو چکے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ شام کے شمال مغربی صوبے ادلب میں ترکی شامی باغیوں کے بعض گروپوں کی مبینہ طور پر حمایت کر رہا ہے اور اس سلسلے میں ترکی کی مسلح افواج کے بعض افسروں کی ہلاکت کی خبریں بھی ملی تھیں۔ ترکی کے صدر نے پیوٹن کے علاوہ فرانس اور جرمنی کے سربراہوں سے بھی اس بحران کے حل کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

یاد رہے ترکی اور روس دونوں شام میں ایک دوسرے کے مخالف دھڑوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ رجب طیب ادوان نے فرانس کے صدر عمانویل میکرون اور جرمن چانسلر انجیلا مرکل سے بھی ٹیلی فون پر بات کی ہے۔ چھتیس لاکھ سے زائد شامی مہاجرین ترکی میں پناہ گزین ہیں۔ ترکی مزید مہاجرین کو اپنے ملک میں پناہ دینے کے حق میں نہیں ہے اور کوشش کر رہا ہے کہ شام کی خانہ جنگی ختم ہوجائے۔

مرکل اور مکیرون نے بھی روسی صدر پیوٹن کے ساتھ بات چیت کی ہے اور ان سے درخواست کی ہے کہ ترکی میں جو چار ملکی کانفرنس منعقد کی جا رہی ہے اس کانفرنس میں بھی تمام اسٹیک ہولڈرز کو شرکت کرنی چاہیے تاکہ شام میں ہونے والے اس المیے کو کم سے کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔