محبت کی خوشبو

شیریں حیدر  اتوار 23 فروری 2020
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

شادی کے بعد لندن گئی تھی تو سات سال کے بعد لوٹی تھی، اس کے ہمراہ تین بچے بھی تھے۔ چار ماہ گزار کر وہ واپس جا رہی تھی۔ بجائے اس کے کہ میں اسے اور اس کے بچوں کو چھوٹے چھوٹے تحائف دیتی، میں نے سوچا کہ میں اسے کوئی اچھی چیز دے دیتی ہوں ، جو کہ اس کے پاس رہے اور ہمیشہ یادگار بھی ہو۔ مارکیٹ میں کچھ ایسا منفرد اور اس موقعے کے شایان شان نہ لگا۔ میںنے گھر سے ہی ایک پرفیوم نکالا جو کہ میری سمدھن نے ہماری ملاقات کے بعد، میری سالگرہ پر مجھے دیا تھا۔ اتنا قیمتی پرفیوم تھا اور اس پر مستزاد اس کی بوتل یوں تھی جیسے کہ کوئی سجاوٹ کی چیز ہو۔ اتنے عرصے سے استعمال نہیں کیا تھا تو اب اس کے بعدمیں اسے استعمال کیا کرتی۔ یوں بھی کون سا میری سمدھن اور بینا کی اب ملاقات ہونا تھی جو وہ اسے بتاتی کہ آپی نے اسے وہ پرفیوم دے دیا تھا جو کہ اس نے مجھے دیا تھا۔

چند ماہ کے بعد، لاہو ر جانا ہوا تو بیٹی کے ڈریسنگ ٹیبل پر ویسا ہی پرفیوم نظر آیا ۔ کیسا ہے یہ پرفیوم؟ میںنے اس سے سوال کیا تھا۔ کیونکہ میںنے بند کا بند ہی بینا کو دے دیا تھا۔ ’’ پتا نہیں… برانڈ اور قیمت تو اچھی ہے، پرفیوم بھی اچھا ہی ہو گا! ‘‘ بیٹی نے بتایا، ’’ یاد آیا، آپ کی سالگرہ پر آپ کو بھی تو ملا تھا اسی طرح کا پرفیوم؟ یاد نہیں کس نے دیا تھا!! ‘ ‘ اس نے ذہن پر زور دیا۔ مگر اسے یاد نہیں آیا۔ میںنے اس سے پوچھا کہ اس نے کہاں سے لیا اور ابھی تک کھولا کیوں نہیں؟ اس نے بتایا کہ بینا آنٹی کی نند اسے ملنے کے لیے آئی تھی، اس کی نند میری بیٹی کے سسرال میں بیاہی ہوئی ہے۔ میں نے پرفیوم کی پیک بوتل کو واپس رکھ دیا ۔ تو گویا بینا نے اپنی نند کو دے دیا تھا اور اس کی نند نے میری بیٹی کو۔

بیٹا اور بہو… ہنی مون پر بیرون ملک گئے تھے، واپسی پر ان کی پرواز کا کوئی مسئلہ ہو گیا تو انھیں لاہور کی پرواز پر سیٹ ملی اور وہ لاہور پہنچے۔ ان کی آمد کے بعد بیٹی نے ان کی شادی کی دعوت کرنا تھی مگر اب بھائی اور بھاوج یوں بنا کسی پیشگی پلان کے پہنچ گئے تھے۔ اپنی نئی نویلی بھابی کو اسے خالی ہاتھ لوٹانااچھا نہ لگا، مارکیٹ جانے کا بھی وقت نہ ملا تھا یا غالبا اس نے بھی میری طرح اپنی دانست میں اچھا ہی سوچا اور وہی پرفیوم بھابی کو تحفہ دے دیا۔ بہو نے گھر پہنچ کر بتایا کہ آپی نے اسے کیا تحفہ دیا تھا، اسے بھی علم تھا کہ وہ پرفیوم کتنا قیمتی تھا۔ ’’اماں میں تو پھولوں کے بنے ہوئے پرفیوم استعمال نہیں کرتی، آپ کر لیں … ‘‘ اس نے مجھے پیش کش کی ۔ میںنے اس کی پیش کش کو پیار سے رد کر دیا، ’’ بیٹا، آپ خود نہ بھی استعمال کریں تو رکھ لیں، کسی اچھی جگہ دینے کے کام آ جائے گا!!‘‘ میںنے اسے سمجھایا اور اسے سمجھ آ گئی۔

دو ایک بار ایسے موقعے آئے کہ گھر پر کوئی اچانک آ گیا تو سمجھ میں نہ آیا کہ اسے کیا دیں یا اس کی سہیلیوں کی سالگرہ کا موقع آیا تو اس نے وہ پرفیوم نکالا کہ فلاں کو دے دیں یا فلاں کو، مگر میں جانتی تھی کہ ایسا تحفہ وہیں دینا چاہیے جہاں اگلے کو اس کی وقعت معلوم ہو ، اسے منع کر دیتی کہ رکھ دو، کون سا اس کی خوشبو اڑ جائے گی۔ اچھے برانڈز کی یہ خاصیت تو ہوتی ہے کہ ان کی مصنوعات کی شیلف لائف زیادہ ہوتی ہے۔

اپنی دادو کی پچھترویں سالگرہ پر اس نے وہ پرفیوم انھیں دے دیا اور میں دل ہی دل میں ہنسی کہ چلو اب اس کا سفر تمام ہوا۔ اس نے بتایا کہ دادو کا وہ پسندیدہ پرفیوم تھا اور باہر سے جو کوئی بھی آتا تھا، ان کے لیے وہی پرفیوم لے کر آتا تھا۔ اچھا تھا کہ وہ وہاں پہنچا تھا جہاں اس کی قدر تھی کسی کو۔ وہ استعمال تو کریں گی، ہماری طرح بند بوتل کو ڈیکوریشن کے طور پر تو نہیں رکھ چھوڑیں گی۔ دوبارہ وہاں سے آکر اس نے بتایا کہ دادو اس سے بہت ناراض ہوئیں کہ کیوں اس نے انھیں اتنا قیمتی تحفہ دیا، اس کے سسرال والے کیا سوچتے ہوں گے کہ اتنی رقم اپنی دادی کے تحفے پر خرچ کر دی۔ میںنے انھیں بتایا اماں کہ میںنے خریدا نہیں، مجھے تحفہ ملا تھا، پھر بھی ڈانٹا کہ تحفہ ملا تھا تو خود استعمال کرتی… ‘‘ وہ ہنس ہنس کر بتا رہی تھی۔ ’’ کہہ رہی تھیں کہ اب میںاس بڑھاپے میں ایسے پرفیو م استعمال کرتی کیا اچھی لگوں گی، مجھے واپس دے رہی تھیں مگر میںنے واپس لینے سے انکار کر دیا… کہنے لگیں کہ رکھ دوں گی، کسی کو تحفہ دے دوں گی، کسی جوان خاتون کو! ‘‘

انھیں اس موقعے کا زیادہ عرصہ انتظار نہیں کرنا پڑا اور اگلے ہی مہینے اپنی بہو، یعنی میری بہو کی والدہ کو اس کی سالگرہ پر وہ پرفیوم تحفے میں ملا… میری اس پر دل ہی دل میں بہت ہنسی چھوٹی ۔ پہلے نہیں، اب وہ پرفیوم واپس اپنی اصلی جگہ پر پہنچ گیا تھا۔ چلو اچھا ہے، وہ استعمال تو کرے گی نا۔ ساس کا دیا ہوا تحفہ تو یوں بھی قیمتی ہوتا ہے ۔

مارکیٹ گھومنے کے بعد ہمیں لنچ پر جانا تھا، کئی دنوں سے یہ پروگرام بن رہا تھا اور کوئی نہ کوئی ایسی مصروفیت آ جاتی کہ اس پر عمل نہیں ہو پا رہا تھا۔ میں میزبان تھی اور ہم دونوں سمدھنیں اس چھوٹے سے چائنیز میں بیٹھی گپ شپ لگا رہی تھیں۔ ’’ آپ کو پرفیوم پسند آیا تھا جو میں نے آپ کی سالگرہ پر دیا تھا؟ ‘‘

’’ بہت اچھا تھا… ‘‘ میں نے مختصر جواب دے کر ان کے پیالے میںسوپ انڈیل کر انھیں شروع کرنے کو کہا۔

’’ پرفیوم ہے تو بہت اچھا مگر اتفاق دیکھیں کہ مجھے اور میری بیٹی، دونوں کو پھولوں والے پرفیوم لگانے سے چھینکیں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ بہت اچھا پرفیوم ہے مگرکیا کروں کہ میں اسے استعمال ہی نہیں کرپاتی۔ ابھی پچھلے دنوں میری ساس نے میری سالگرہ پر مجھے تحفتاً وہی پرفیوم دے دیا ہے۔ اتنے قیمتی پرفیوم کا آپ کے سوا کون قدر دان ہو سکتا ہے، یہی سوچ کر… ‘‘ انھوں نے اپنے بیگ کے ساتھ دھرا ہوا گفٹ بیگ اٹھا کر میری طرف بڑھایا، ’’ اس لیے دوبارہ آپ کو وہی پرفیوم دے رہی ہوں، پہلے والا تو ختم ہو گیا ہو گا اب تک!! ‘‘ میںنے بے خیالی سے پیکٹ تھاما ۔

’’ ارے نہیں، اس کی کیا ضرورت تھی، پہلے والا بھی ختم نہیں ہوا ہے، آپ خود استعمال کریں نا، اتنا اچھا پرفیوم ہے، کپڑے پہن کر ان پر سپرے کرنے کے بجائے پہلے سے سپرے کر کے ، تھوڑاانتظار کر کے لباس پہنیں تو چھینکیں نہیں آئیں گی!! ‘‘ میں نے ہچکچا کر کہا۔

’’ ایسے تو نہ کہیں، میں خلوص سے دے رہی ہوں۔ میں نے اپنی ساس کو بھی بتایا تھا، انھیں کوئی اعتراض نہیں۔ مجھے خوشی ہو گی اگر آپ اسے استعمال کریں گی تو!! ‘‘

’’ بہت شکریہ! ‘‘ میں نے پرفیوم کو بیگ اپنے ساتھ والی خالی کرسی پر رکھا اور انھیں کھانا پیش کرنے لگی۔ ’’ ویسے اتنا اچھا پرفیوم تھا جو آپ نے مجھے دیا تھا، ہمارے ہا ں تو ہر چیز کی نمبر دو، اصل سے پہلے ملتی ہے۔ آپ نے وہ کہاں سے خریدا تھا؟ ‘‘ ان کے تحفے کی تعریف تو کرنا تھی، یوں بھی سوچ رہی تھی کہ جہاں کہیں سے وہ پرفیوم لیتی ہیں وہاں سے میں بھی انھیں کوئی اچھا اور ایسا ہی قیمتی پرفیوم خرید کر دوں گی۔

’’ شکریہ کہ آپ کو پسند آیا تھا!! ‘‘ وہ مسکرائیں، ’’ جھوٹ نہیں بولوں گی، آپ کی کزن ہے نا، بینا، جولندن سے آئی تھی، وہ ہمارے ہاں پہلی بار آئی تھی تو میرے لیے لائی تھی… اب بتایا ہے نا کہ میں پھولوں کی خوشبو والے پرفیوم… ‘‘ وہ جانے کیا کیا کہہ رہی تھیں اور میں غائب دماغی سے ا ن کے ہلتے ہوئے لب دیکھ رہی تھی۔ کیا وہ پرفیوم ، اپنا سفر تمام کر کے ، پلٹ کر واپس میرے پاس منزل پر پہنچا ہے یا ابھی اس کا سفر باقی ہے؟؟ کیا میں اس کے بعد کھول کر اسے استعمال کر لوں یا اگلی ملاقات پر پھر بینا کو تحفہ دے دوں اور اس کے سفر کا نیا مرحلہ شروع ہوجائے؟؟ کھانا کھانے کے دوران ہی میں نے فیصلہ کر لیا۔ کھانا ختم ہوا۔

’’ آپ کو اپنے اوپر اس کا چھڑکاؤ کرنے سے ہی الرجی ہے نا؟ ‘‘ میں نے اس بوتل کو کھول کر تھوڑا سا اپنے اوپر سپرے کیا، ’’ کہیں ایسا تو نہیں ہو گا کہ میں اپنے اوپر سپرے کروں گی تو بھی آپ کو چھینکیں آنا شروع ہو جائیں گی؟ ‘‘ انتہائی خوبصورت خوشبو نے فضا کو معطر کر دیا تھا، سامنے بیٹھی ہوئی وہ مروت سے کہہ تو چکی تھیں کہ کوئی بات نہیں مگر اب انھیں چھینکیں شروع ہو چکی تھیں ۔ ریستوران سے باہر نکلتے ہوئے، استقبالیہ پر کھڑی مینیجر نے مسکر ا کر الوداع کہا اور لپک کر کاؤنٹر سے باہر آئی، ’’میڈم آپ نے کون سا پرفیوم لگا رکھا ہے، بہت مسحور کن خوشبو ہے!! ‘‘

’’ یہ محبت کی خوشبو ہے… ‘‘ میں نے جوابا مسکراکر اسے بتایاتھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔