ہوتا اگر پہاڑ تو لاتا نہ تابِ غم

شاہد سردار  اتوار 23 فروری 2020

ہمیں اس سے بچھڑے بمشکل تمام ڈھائی سال ہوئے ہیں، اس کے باوجود وہ ہم سے پہچانا نہیں جا رہا اور شاید وہ بھی ہمیں ٹھیک سے نہیں پہنچا رہا۔ یوں ہم اور وہ ایک دوسرے کے لیے ’’ اجنبی آشنا یا آشنا اجنبی‘‘ بن کر رہ گئے ہیں۔ برسوں ایک دوسرے سے آشنا واقف حال ، واقف دل لیکن اب ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے صرف جانے پہچانے سے ہی رہ گئے ہیں۔

جیسے ہمارا حلیہ ، شکل وصورت بدل گئی بالکل ایسے ہی اس کا حال حلیہ اور شکل وصورت بھی وہ نہیں رہی۔ جس طرح پورے کراچی کا حال ہوگیا ہے، اسی طرح ہماری جنم بھومی کا بھی ہوا ہے ، جس کے رستوں سے ہم کبھی اتنے ہی واقف تھے جتنے اپنے ہاتھ کی ہتھیلیوں کی لکیروں سے لیکن اب اکثر رستے نہ جانے کیوں اجنبی اور بے مہر لگتے ہیں۔ اسٹاپ ، محلہ اور لوگوں کی افراتفری، بے زارگی یا دامن بچانے کی ادا سب کا سب مت مار دیتا ہے اور یقین ہی نہیں آتا کہ ہم یہاں 60 برس تک رہے۔ سچ ہے وقت عمرکا تیزاب ہوتا ہے شکلیں بھی بدل دیتا ہے اور مزاج بھی۔ واقعی وقت بہت ظالم ہوتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ انسانوں ہی کے نہیں شہروں کے ناک نقشے بھی بدل اور بگڑجاتے ہیں۔

خدا جانے آیندہ سالوں میں یہ شہرکیسا ہوگا، مکان اور مکین کیسے ہوں گے؟ یوں تو ہمارے جیسے لاکھوں لوگ اپنے پرانے گھروں کو چھوڑکر نئی بستیوں میں آباد ہوچکے ہیں جہاں ہم سب ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہیں۔ ہمیں علم نہیں ہمارے پڑوس میں کون رہتا ہے؟ کیوں رہتا ہے اورکیا کرتا ہے؟ بس مخصوص وقتوں میں شکلیں نظر آتی ہیں، عید جیسے بڑے تہوار پرگنتی کے دو تین لوگ مڈ بھیڑ ہو جانے پر گلے مل لیتے ہیں ان میں سے بھی بعض کنی کترا کر گھر میں دبک جاتے ہیں۔ پڑوس سے برابر والے گھر میں پچھلے ہفتوں دو قتل ہوئے میاں بیوی کے ان کے جنازے میں صرف چار مرد تھے۔ یہاں گاڑیاں بے تحاشا کھڑی رہتی ہیں دروازوں پر لیکن انسان اکا دکا ہی نظر آتے ہیں بالخصوص بچے تو جیسے یہاں رہتے ہی نہیں۔ واقعی بڑے یا پوش علاقوں میں دوستیاں جانوروں سے کی جاتی ہیں اور رشتے داریاں انٹرنیٹ پر نبھائی جاتی ہیں۔

حضرت انسان کی یہ فطرت ابتدا ہی سے رہی ہے کہ اس کی آرزوئیں اور خواب بہت ہی بڑے ہوتے ہیں۔ شہر چاہے بڑے یا چھوٹے ہوں اس کی خواہشوں کی چادر اس کے وجود سے بھی زیادہ لمبی ہوتی ہے، پھر بھی اچھی یا بڑی جگہ رہنے کی حسرت اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی اورکشتیاں جلا کر اگر وہ رہ بھی جائے تو ’’بس‘‘ نہیں پاتا۔ مہنگے یا پوش علاقوں کا یہ المیہ ابتدا ہی سے رہا ہے کہ وہاں ہمسایوں اور رشتے داروں پر ان لوگوں کو ترجیح دی جاتی ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے ان کی ضرورت ہیں بس ان کی اپنی ایک الگ دنیا ہے۔

گردش دوراں کہہ لیں، سماجی ڈھانچے کی تنزلی یا کھوکھلا پن یا پھر رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ یا زوال پذیری کوئی سا بھی نام دے لیں ایک عام مڈل کلاس کا المیہ یہ ہے کہ اس کے گھر میں بہن بیٹیوں کے رشتے نہیں آتے بیٹا جتنا قابل ہو بیٹی جتنی چندے ماہتاب، چندے آفتاب ہو مضافاتی بستیوں میں رہنے والے ’’بیک ورڈ‘‘ کہلاتے ہیں اور اچھے رشتے اس طرف کا رخ ہی نہیں کرتے۔ ہم کتنے ہی ایسے لوگوں سے واقف ہیں جو اپنی بچیوں کے رشتے کے لیے اپنے آبائی یا خاندانی گھروں سے عارضی طور پر مہنگے علاقوں میں کرائے پر رہ کر اپنی بچیوں کے ہاتھ پیلے کرکے لٹے پٹے اپنے مضافات میں واقع گھروں کو پلٹتے ہیں اور سالوں اس ہجرت کا خراج ادا کرتے ہیں۔

ہمارے پرانے علاقے کے دو تین اچھے خاصے کھاتے پیتے افراد نے ہمیں کہا ’’ہماری بیٹیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، خوش شکل ہیں لیکن جب کسی اچھے خاندان میں رشتے کی بات چلنے لگتی ہے تو وہ وہیں ٹھہر جاتی ہے، ہم پر ایک بہت بڑا داغ یہ ہے کہ ہم چھوٹے علاقے میں رہتے ہیں، اپنے کلچر سے بندھے ہوئے ہیں لیکن بیٹیوں کی شادی کے لیے مہنگے یا بڑے علاقوں میں رہنا بہت ضروری ہے۔ ایسا کریں ہمیں اپنے علاقے میں کوئی گھر کرائے پر لے دیں تاکہ ہم اپنی بچیوں کو بیاہ سکیں پھر اس فریضے کے بعد واپس اپنے گھر آجائیں گے۔‘‘

اسے انسانی المیہ کہہ لیں یا حالات کی مجبوری لیکن حقیقت یہی ہے کہ بعض لوگ خواہ کسی بھی وجہ سے نقل مکانی یا ہجرت کریں وہ دس قسم کے مسئلوں سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ نیا گھر راس نہیں آتا۔ انہونیاں واقع ہونے لگتی ہیں یا وہ ہوجاتا ہے جو وہم و گمان میں نہیں ہوتا اور اگر ایسا کچھ بھی نہ ہو پھر بھی دل نہیں لگتا۔ رات بھر بستر پر سلوٹیں اور کروٹیں مقدر بن جاتی ہیں۔ یوں کلچر سے یا ماحول سے مس انڈر اسٹینڈنگ چلنا شروع ہوجاتی ہے۔ پرانے علاقوں کی گہما گہمی ، میل ملاپ، دکھ تکلیف میں قدم سے قدم ملا کر پڑوسیوں یا احباب کا رویہ جان کو ہلکان کرتا رہتا ہے، یہ سب کا سب محسوس کرکے بندہ ڈپریشن میں چلا جاتا ہے۔

ویسے بھی ایک عمر ایسی آتی ہے جب بہت کچھ کیا بھی کام نہیں آتا نہ اس کا ریگارڈ (احترام) باقی رہتا ہے نہ اس کی موجودگی کو موجودگی سمجھا جاتا ہے۔ جوان جوان بچے اپنے اپنے بچوں اور اپنی اپنی بیویوں میں لگ جاتے ہیں۔ والدین کی حیثیت دروازوں کی حد تک رہ جاتی ہے، دروازہ کھولنے بند کرنے کی یا زیادہ سے زیادہ بچوں کو اسکول ٹیوشن لانے لے جانے اور سودا سلف لانے کی اس سے زیادہ بڑوں کو کوئی مقام دینے پر تیار نہیں ہوتا اور یہ منظرنامہ ہمارے 80 فیصد گھروں کا ہے۔ اسی منظرنامے کی دوسری دلخراش حقیقت یہ بھی ہے کہ ہجرت عام طور پر خوشی سے نہیں کی جاتی کسی نہ کسی مجبوری یا ضرورت کے تحت انسان یہ تکلیف دہ کام کرنے کا قصد کرتا ہے کیونکہ ہجرت کا عمل اصل میں زندگی کے اعلیٰ و ارفع مقاصد کے لیے اپنی نادیدہ خواہش کو قربان کرنے کا عمل ہے اور یہ ایک طرح کی قربانی بھی کہلاتی ہے اور قربانی جتنے بھی اعلیٰ مقصد کے لیے دی یا کی جائے وہ بہرحال بہت تکلیف دہ امر ہوتی ہے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسان گھر بدلتا ہے، رشتہ بدلتا ہے، شہر بدلتا ہے، بعض اوقات ملک بدلتا ہے لیکن پھر بھی وہ دکھی، بے چین یا غیر مطمئن ہی رہتا ہے۔ گو درد اور دوا کا رشتہ قدیم ترین انسانی رشتوں میں سے ایک ہوتا ہے اور مرہم کی تاریخ بھی کم و بیش اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ زخم کی۔ لیکن اپنوں سے چھوٹ جانے یا ان کی جدائی کا زخم وقت کا مرہم بھی کبھی نہیں بھر پاتا۔ پھر جنم بھومی (پیدا ہونے کی جگہ) سے وقت گزرتے گزرتے محبت سی ہو جاتی ہے۔ اپنا ہی شہر اپنا ہی ملک دیار غیر لگنے لگتا ہے۔

دلیپ کمار جو گزشتہ پانچ چھ برسوں سے بولنے سے قاصر ہیں اور 92 سال عمر ہو چکی ہے، عارضے بھی لگے ہیں لیکن لکھ کر سائرہ بانو سے کہتے ہیں ’’میں پشاور (پاکستان) اپنے آبائی گھر میں جاکر رہنا چاہتا ہوں۔‘‘ کم و بیش ہمارا بھی یہی حال ہے ہمیں بھی اپنا خاندان چھوٹ جانے والے اپنے پیارے، محلہ ٹولا بے حد یاد آتا ہے اور دل گرفتہ کرتا ہے، دوست بھی بہت یاد آتے ہیں۔ جہاں ہم رہ رہے ہیں وہ بھی ہمارا ذاتی گھر ہے ہم نے ہی اسے خریدا ہے لیکن یہ گھر ہمارا نہیں لگتا۔ ہم مالک مکان ہیں کہنے کو لیکن حقیقت میں ہم خود کو کرائے دار بھی نہیں سمجھ پاتے آج تک۔ واقعی اگر ستارے مٹھی میں آ بھی جائیں تو بھی اپنے خالص ماں باپ کی نشانی، گھر کے دیے کی روشنی کی اہمیت کبھی ختم نہیں ہوتی۔

یہ بھی ایک مسلمہ امر ہے کہ ہم دنیاداری میں الجھے لوگ دل کی پکار سنتے ہی نہیں اور جب دل کی بات نہ سنی جائے تو وہ بولنا یا کہنا چھوڑ دیتا ہے۔ ویسے بھی زمینی فائدے کبھی دلوں کے قرار نہیں بنتے بلکہ دل کا کام تمام کرنے کا سبب بن جاتے ہیں اور ہم جیسے خاکی انسانوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ سکھ کی پوری ہانڈی ندیدے بن کر اکیلے ہی کھا جاتے ہیں لیکن دکھ کا ایک پیالہ بھی حلق سے نہیں اتار پاتے اور کون نہیں جانتا کہ دکھ انسان کو ہمیشہ اپنی عمر سے آگے دھکیل دیتا ہے اور اپنی قبر سے بہت قریب ہوتے ہوتے بالآخر ایک روز اسی کا رزق بن کے تمام ہو جاتا ہے۔ مذکورہ بالا سچویشن پر حبیب جالب نے کیا خوب کہا تھا کبھی کہ:

ہوتا اگر پہاڑ تو لاتا نہ تابِ غم

جو رنج اس نگر میں یہ دل ہنس کے سہہ گیا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔