اسٹیڈیم کیوں نہیں بھر رہے؟

سلیم خالق  اتوار 23 فروری 2020
عمر اکمل کو اگر پاکستان کرکٹ کا ’’بیڈ بوائے‘‘ کہا جاتا ہے تو وہ غلط نہیں فوٹوفائل

عمر اکمل کو اگر پاکستان کرکٹ کا ’’بیڈ بوائے‘‘ کہا جاتا ہے تو وہ غلط نہیں فوٹوفائل

’’ذرا سنیے سلیم صاحب آپ کو ایک بات بتانی ہے، میں نے چونک کر پیچھے دیکھا تو ڈائریکٹر میڈیا امجد حسین بھٹی موجود تھے، میں اپنی نشست سے اٹھ کر ان کے پاس گیا تو وہ کہنے لگے کہ ’’ہمیں اسپاٹ فکسنگ کے حوالے سے ایک رپورٹ ملی تھی اس پر تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں، خالد لطیف اور شرجیل خان کو فوری طور پر معطل کر کے وطن واپس بھیجنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے‘‘ میں یہ سن کر حیران و پریشان رہ گیا، لیگ کا دوسرا ایڈیشن ہی تھا کہ اتنا بڑا اسکینڈل سامنے آ گیا، یہ کیسے برقرار رہے گی۔

میرے ذہن میں یہی خیالات گردش کرنے لگے، چیئرمین بورڈ نجم سیٹھی بھی میڈیا سینٹر آئے، ان کے چہرے پر بھی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں، اس وقت لگتا تھا کہ شاید شرجیل اور خالد دوبارہ پاکستان کی نمائندگی نہ کر سکیں لیکن اب 3 سال بعد ہی شرجیل خان ایک بار پھر ایکشن میں ہیں،ایک اور اسپاٹ فکسنگ کیس میں جیل جانے والے محمد عامر اور سلمان بٹ بھی مختلف ٹیموں میں شامل ہیں، اب ایسے میں اگر عمر اکمل کا کیس سامنے آئے تو اس پر کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے، جب تک حقیقی ’’زیرو ٹالیرنس‘‘ پالیسی اپناتے ہوئے فکسنگ میں ملوث کرکٹرز پر تاحیات پابندی عائد نہیں ہوتی ایسا ہی ہوتا رہے گا، ایسے کھلاڑیوں کو دوبارہ ایکشن میں دیکھ کر نوجوان بھی یہی سوچتے ہوں گے کہ فکسنگ کرو، پیسے کماؤ،اگر پکڑے گئے تو کچھ سزا کاٹو پھر دوبارہ ٹیم میں واپس آ جاؤ، پہلی بار ملک میں مکمل پی ایس ایل کا انعقاد ہو رہا ہے ایسے میں آغاز پر ہی ایسی منفی چیزوں کا سامنے آنا افسوسناک ہے۔

عمر اکمل کو اگر پاکستان کرکٹ کا ’’بیڈ بوائے‘‘ کہا جاتا ہے تو وہ غلط نہیں، وہ جتنے تنازعات کا حصہ بنے ان پر ایک کیا کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں، انسان اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتا ہے مگر افسوس عمر ایسے لوگوں میں شامل نہیں ہیں، حال ہی میں فٹنس ٹیسٹ کے دوران انھوں نے جو حرکت کی اس کے بعد ان پر پابندی لگنا چاہیے تھی مگر پی ایس ایل میں فرنچائز کو نقصان سے بچانے کیلیے ایسا نہیں کیا گیا، اس سے انھوں نے سبق نہ سیکھا اور نئے تنازع میں الجھ گئے، یہ واقعہ اتنا سادہ نہیں جتنا نظر آتا ہے، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مالک کو رات گئے ہوٹل میں اس بارے میں آگاہ کیا گیا۔

انھیں عمر اکمل کے بارے میں بعض پختہ ’’ثبوت‘‘ دکھائے گئے، اینٹی کرپشن آفیسر ٹیم کے فلور پر نظر آئے تب ہی پلیئرز سمجھ گئے تھے کہ معاملہ گڑبڑ ہے، عمر اکمل اپنی فیملی کے ساتھ کراچی آئے ہوئے تھے مگر پہلے میچ سے قبل ہی انھیں واپس جانا پڑا، بورڈ نے چند سطور کی پریس ریلیز میں معطلی کا بتاتے ہوئے لکھا کہ’’معاملے پر فی الحال مزید تبصرہ نہیں ہوگا‘‘، یہ بات ٹھیک نہیں قوم کو حقائق سے آگاہ کرنا چاہیے، اب امید یہی کرتے ہیں کہ مزید کھلاڑی اس کیس میں شامل نہیں ہوں گے، اس بار پی ایس ایل کے تمام میچز پاکستان میں کھیلے جا رہے ہیں لیکن حیران کن طور پر ابتدائی میچز میں اسٹیڈیمز مکمل بھر نہیں سکے۔

پی سی بی نے ٹکٹوں کی قیمت بھی زیادہ رکھی، ایک عام انسان اگر اپنی فیملی کے ساتھ جائے تو اس کی جیب پر اچھا خاصا بوجھ پڑ جاتا ہے، پھر آمدورفت اور کھانے پینے کے اخراجات الگ ہیں، خاصا پیدل بھی چلنا پڑتا ہے جبکہ اسٹیڈیم میں چیزیں مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہیں، حکام ان مسائل کو حل کریں تو یقیناً فرق پڑے گا، غیرمتاثر کن افتتاحی تقریب نے بھی شائقین کو خاصا ناراض کیا، اندھیرے میں کسی کو کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ اسٹیڈیم میں ہو کیا رہا ہے، ساؤنڈ سسٹم بھی اچھا نہ تھا، درمیان بھی غیرضروری وقفوں سے بھی لوگ اکتا گئے۔

آپ یہ سوچیں کہ ٹی وی پر دیکھنے والے مایوس ہوئے تو اسٹیڈیم والوں کا کیا حال ہوگا،21 کروڑ روپے خرچ کرنے سے کیا حاصل ہوا؟ واحد مثبت چیز آتشبازی تھی جس نے کچھ ماحول بنایا، ’’تیار ہیں، تیار ہیں‘‘ ہوتا رہا مگر لگتا ہے کہ اتنے بڑے ایونٹ کیلیے بورڈ خود تیار نہیں،اس نے ہیڈ کوچ و چیف سلیکٹر مصباح الحق کو لیگ میں کوچنگ کی کھلی چھوٹ دیدی، بولنگ کوچ وقار یونس اور ویمنز چیف سلیکٹر و کرکٹ کمیٹی ممبر عروج ممتاز کمنٹری کر رہے ہیں، مفادات کے ٹکراؤ کی پالیسی تو شاید اب ختم ہو چکی، اردو کمنٹری کو متعارف تو کرا دیا مگر وقار یونس اور بازید خان بالکل نہیں جچ رہے، کسی اسپیشلسٹ اردو کمنٹیٹر کو ہی یہ کام سونپیں بڑے ناموں پر نہ جائیں، اگر پی ایس ایل کو کامیاب بنانا ہے تو اسے تنازعات سے پاک رکھنا ہوگا، یہ ہماری اپنی لیگ ہے اس کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ غلطیوں کی نشاندہی نہ کریں کیونکہ اسی سے بورڈ کو اصلاح کا موقع ملے گا۔

اچھی بات یہ ہے کہ کئی غیرملکی کرکٹرز ایونٹ میں شریک ہیں اس سے ملک کا مثبت تاثر اجاگر ہوگا، جیسے ڈیرن سیمی نے دنیا بھر کو یہ باور کرانے میں اہم کردار ادا کیا کہ پاکستان انٹرنیشنل کرکٹ کیلیے محفوظ ملک ہے، اسی لیے اب انھیں صدر مملکت نے 23 مارچ کو اعلیٰ ترین ایوارڈ کے ساتھ اعزازی شہریت بھی دینے کا اعلان کیا ہے، چیئرمین پی سی بی کہہ چکے کہ اگلے برس پشاور کو بھی میزبان شہروں میں شامل کیا جا سکتا ہے، اپنے گراؤنڈز پر انٹرنیشنل اسٹارز کو ایکشن میں دیکھنا ہر پاکستانی کا حق ہے، پشاور میں بھی یقیناً کھلاڑیوں کی بھرپور پذیرائی ہوگی،ہم 10 برس تک یہی کہتے رہے کہ پاکستانی کرکٹ سے بہت محبت کرتے ہیں انھیں انٹرنیشنل میچز سے محروم نہیں رکھنا چاہیے، اب یہاں مقابلے ہو رہے ہیں تو شائقین کو بھی اسٹیڈیمز بھر دینے چاہئیں، اس کیلیے بورڈ کو بھی کردار ادا کرنا ہوگا، خیر ابھی تو ایونٹ کا آغاز ہوا، امید ہے آہستہ آہستہ مومینٹم بنے گا اور لیگ ہر لحاظ سے کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔