افغانستان میں صلح کا پہلا دن

ایڈیٹوریل  پير 24 فروری 2020
اگر طالبان فائر بندی کے اپنے وعدے پر قائم رہتے ہیں تو اس سے ان پر اعتماد میں اضافہ ہو گا۔ فوٹو: فائل

اگر طالبان فائر بندی کے اپنے وعدے پر قائم رہتے ہیں تو اس سے ان پر اعتماد میں اضافہ ہو گا۔ فوٹو: فائل

افغانستان میں طالبان اور امریکا فوج میں عبوری صلح کے پہلے دن ملک بھر میں تقریباً امن و امان برقرار رہا چنانچہ اس موقع پر صوبہ قندھار میں جسے طالبان کا اسٹرانگ ہولڈ تصور کیا جاتا ہے وہاں نوجوانوں کو خوشی میں محو رقص دکھایا گیا ہے، ساتھ ہی ڈھول کی تھاپ بھی موجود ہے۔ طالبان اور امریکا امن معاہدے پر رضا مند ہو چکے ہیں اور اب صلح نامے پر دستخطوں کی باری آئے گی۔

واضح رہے امریکی فوج نے اپنے اتحادیوں کے ہمراہ 2001میں افغانستان پر حملہ شروع کیا تھا۔ بہرحال طویل لڑائی کے بعد فریقین امن معاہدے پر متفق ہوگئے۔ میڈیا نے کابل کے ایک ٹیکسی ڈرائیور کے حوالے کہا ہے کہ اسے پوچھا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ آج پہلا دن تھا جب میں کسی بم دھماکے اور کسی خود کار رائفل کی فائرنگ کے خطرے کے بغیر گھر سے باہر نکلا۔ فائر بندی پر اتفاق کی صورت میں لوگ آدھی رات سے پیشتر اپنے گھروں سے باہر نکل آئے تھے ۔

افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کی سربراہی جنرل اسکاٹ ملر کے ہاتھ میں ہے، ان کا کہنا تھا کہ مغربی فورسز فائر بندی کی نگرانی جاری رکھیں گی۔ جنرل ملر نے رپورٹروں کو بتایا کہ امریکا نے افغانستان میں فوجی کارروائیاں ترک کر دی ہیں۔ طالبان نے مختلف ذرایع کے استعمال سے دوحہ قطر میں مذاکرات کے لیے اپنا سیاسی دفتر قائم کر رکھا تھا جہاں پاکستان نے بھی طالبان کے ساتھ مصالحت کرانے پر کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ فائر بندی کی کسی خلاف ورزی کی صورت میں امریکا طالبان کے سیاسی دفتر سے رابطہ کرے گا، باور کیا جاتا ہے کہ عسکریت پسند 29 فروری کو دوحہ میں امن معاہدے پر دستخط کر دیں گے تا کہ امریکا 18 سال سے زائد عرصہ کے بعد اپنے فوجی وطن میں واپس بلا سکے۔ اس صورت میں بہت تھوڑی امریکی فوجیوں کی تعداد نگرانی کے لیے وہاں رکھی جائے گی۔ اگر طالبان فائر بندی کے اپنے وعدے پر قائم رہتے ہیں تو اس سے ان پر اعتماد میں اضافہ ہو گا۔

قندھار اور جلال آباد میں بھی نوجوان افغانوں کو محو رقص دکھایا گیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فائر بندی کو قائم رکھنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ ’’سپوائلرز‘‘ کی طرف سے مخالف کارروائیوں کا خطرہ بدستور موجود رہے گا۔ اس کے ساتھ ہی پشاور کے ایک مہاجر کیمپ میں صلح کی خوشی میں مٹھائی تقسیم کی تصویر بھی اخبارات میں شایع ہوئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔