کورونا وائرس اور پولیو

ایڈیٹوریل  منگل 25 فروری 2020
کورونا وائرس چین سے نکل کر ایشیا کے دیگر ممالک‘ یورپ اور امریکا کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بن گیا ہے۔ فوٹو : فائل

کورونا وائرس چین سے نکل کر ایشیا کے دیگر ممالک‘ یورپ اور امریکا کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بن گیا ہے۔ فوٹو : فائل

ایران میں کورونا وائرس پھیلنے کی اطلاعات کے بعد بلوچستان حکومت نے اپنے خطے میں اس وائرس کے پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر پاکستانی زائرین کے ایران جانے پر پابندی عائد کر دی ہے‘ تفتان میں امیگریشن گیٹ بند کر دیا گیا ہے جس کے بعد دوطرفہ آمدورفت اور ٹرانزٹ گاڑیوں کا داخلہ نہ ہو سکا۔ ابھی صورت حال کا جائزہ لیا جا رہا ہے کسی بھی خطرے کے بڑھنے کے خدشے کے باعث بلوچستان حکومت وفاقی حکومت سے ایران اور افغانستان کے ساتھ مکمل طور پر سرحد بند کرنے کی درخواست کر سکتی ہے۔

کورونا وائرس چین سے نکل کر ایشیا کے دیگر ممالک‘ یورپ اور امریکا کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بن گیا ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ایران میں اس وائرس سے مزید تین افراد زندگی کی بازی ہار گئے جس کے بعد وہاں اس وائرس سے مرنے والوں کی تعداد 8ہو گئی ہے۔

ایران کے دارالحکومت تہران اور قم سمیت ایران کے 14صوبوں میں اسکول‘ یونیورسٹیاں اور ثقافتی مراکز بند کرنے کا اعلان کیا گیا ہے‘ ملک بھر میں کھیلوں کی تقریبات بھی دس روز کے لیے معطل کر دی گئیں۔ افغانستان اور ترکی نے بھی ایران کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کر دی ہیں‘ کویت نے اپنی بندرگاہوں پر ایرانی بحری جہازوں کی آمدورفت معطل اور فلائٹ آپریشنز بھی بند کر دیے ہیں جس سے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

ادھر جنوبی کوریا میں بھی اب تک 556 افراد کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی اطلاعات میڈیا میں آئی ہیں، جاپان میں بھی کورونا کے 20نئے کیس سامنے آنے پر وہاں بھی تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے‘ مغربی یورپ کے ملک اٹلی میں اس وائرس سے دو افراد ہلاک ہو گئے ہیں، اب تک 132 افراد کے متاثر ہونے کی اطلاعات ہیں۔

شمالی اٹلی میں منعقد ہونے والا وینس میلہ بھی منسوخ کر دیا گیا ہے اور یکم مارچ تک ہر عوامی تقریب اور بڑے اجتماعات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، اٹلی میں اچانک پھیلنے والی کورونا وائرس کی وبا سے پورے یورپ میں خوف پیدا ہو گیا۔ان اعداد وشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وائرس کا پھیلاؤ اندازے سے کہیں زیادہ ہے ، تیسری دنیا کے ممالک میں تو شاید یہ بھی پتہ نہ چل سکے کہ وہاں یہ وائرس موجود ہے۔

چین میں مجموعی طور پر 2442 افراد کورونا وائرس سے ہلاک اور 77ہزار سے زیادہ اس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ اس صورت حال کے تناظر میں کورونا وائرس اب صرف چین ہی کا نہیں بلکہ عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ جب چین میں کورونا وائرس پر قابو پانے میں مشکلات درپیش آ رہی ہیں تو ترقی یافتہ ممالک کو مشترکہ طور پر اس وبا پر قابو پانے کے لیے چین کی مدد کرنا اور اس وبا کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنا چاہیے۔

اس معاملے میں ترقی یافتہ ممالک کی خاموشی کے باعث اب یہ وبا ان کے لیے بھی دردسر بننا شروع ہو گئی ہے، اٹلی ایک بڑا سیاحتی اور صنعتی ملک ہے جہاں یورپ سمیت دنیا بھر سے لوگ سیاحت اور کاروبار کی غرض سے آتے ہیں‘ لہٰذا اٹلی میں کورونا وائرس کا پھیلنا پورے یورپ کے لیے خطرے کی علامت ہے کیونکہ پورے یورپ میں لاکھوں سیاح اور کاروباری افراد آتے جاتے ہیں۔ چین کے بعد اب پاکستان کے پڑوسی ملک ایران میں کورونا وائرس کا پھیلنا پاکستان کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے لہٰذا اس وبا کو روکنے کے لیے ایران کے ساتھ فوری طور پر سرحد بند کرنے کا فیصلہ صائب ہے۔

ہماری حکومت کو محکمہ صحت کی ’’اعلیٰ کارکردگی‘‘ اور عوام کو فراہم کی جانے والی ’’ بہترین طبی سہولیات‘‘ کا بھی بخوبی ادراک ہے۔ ہمارے سرکاری اسپتالوں کی حالت زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔نجی اسپتالوں میں اخراجات بہت زیادہ ہیں اور وہاں بھی اس وائرس کے حوالے سے کوئی دوائی نہیں ہے،اوپر سے ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں احساس ذمے داری کتنا ہے، اس کا بھی اس ملک کے عوام کو بخوبی پتہ ہے۔

چینی حکومت تو اس وبا پر قابو پانے کے لیے اپنے تمام تر وسائل اور ٹیکنالوجی بروئے کار لا رہی ہے کیونکہ چین ایک ترقی یافتہ ملک ہے جب کہ پاکستان کی حالت یہ ہے کہ یہاں کتے کے کاٹنے کے علاج کی ویکسین تک سرکاری اسپتالوں میں موجود نہیں اور شہری یہ ویکسین نہ ملنے سے ہلاک ہو جاتے ہیں‘دیگر بیماریوں کے مریض بھی سرکاری اسپتالوں میں چلے جائیں تو ان کا علاج بھی نہیں ہوتا۔خیبر سے لے کر کراچی تک ہر جگہ صورتحال ایک جیسی ہے۔

دوسری جانب پولیو کے 6نئے کیس سامنے آئے ہیں جن میں سے 5 کا تعلق صرف خیبرپختونخوا کے علاقے سے ہے، پہلے بھی پولیو کے زیادہ تر کیسز کا تعلق خیبرپختونخوا ہی سے رہا ہے‘ جس کی بنیادی وجہ وہاں کے لوگوں کا محکمہ صحت اور پولیو ٹیموں سے عدم تعاون ہے۔ ہم اقوام متحدہ کے تعاون سے ملک بھر میں وسیع پیمانے پر چلائی جانے والی پولیو مہم کے باوجود پولیو پر قابو نہیں پا سکے ، ہمارے پاس طبی سہولتوں اور وسائل کا جو فقدان ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔دل اور گردے کے مریض مناسب اور فوری علاج نہ ہونے کے سبب سرکاری اسپتالوں میں پریشان حال پھر رہے ہیں۔

دوسری جانب ادویات کا معیار بھی کسی شک وشبہ سے بالاتر نہیں۔وفاقی حکومت پہلے ہی طبی سہولیات کے لیے ناکافی فنڈ فراہم کر رہی ہے۔ملک بھر میں جدید طبی ریسرچ سینٹر موجود نہیں اور طبی ماہرین کی شدید کمی ہے۔ایسے میں اگر خدانخواستہ یہاں کورونا وائرس آ دھمکا تو جو تشویشناک اور اذیت ناک کیفیت پیدا ہو گی اس کا تصور بھی رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ اس لیے حکومت کو  سرکاری محکموں کو فعال اور متحرک کرنے کے ساتھ ساتھ علمائے کرام اور عوامی نمائندوں کے تعاون سے اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے فوری کردار ادا کرنا ہو گا اور وہ ممالک جو کورونا وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں وہاں کسی بھی بنیاد اور مقصد کے لیے آنے جانے والے پاکستانی شہریوں کو روکا جائے۔ شہریوں کو بھی اس سلسلے میں حکومت سے تعاون کرنا چاہیے ،یہ ان اور ان کے خاندان کے لیے بھی سود مند ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔