حصول اقتدار کی بے چینی

ظہیر اختر بیدری  منگل 25 فروری 2020
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

حصول اقتدار کے لیے اپوزیشن جماعتوں میں اس قدر بے چینی پائی جاتی ہے کہ ایک بار پھر سہ فریقی اتحاد کا ڈول ڈال رہے ہیں، اس حوالے سے ایک دوسرے کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ ہم حکومت کو جمہوری طریقے سے گرائیں گے۔

ہمارے سیاسی شہزادے، حکومت کو سلیکٹڈ حکومت کہتے ہیں لیکن اس حقیقت پر نظر ڈالنے کی زحمت نہیں کرتے کہ ملک میں جو الیکٹڈ حکومتیں برسر اقتدار آتی رہی ہیں ان کے بارے میں یہی سیاسی شرفا دھاندلی کے الزامات سے آسمان سرپر اٹھاتے رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سلیکٹڈ حکومتوں اور دھاندلی کی پیداوار حکومتوں میں کون سی حکومتیں زیادہ ’’جمہوری‘‘ ہوتی ہیں۔

حکومت کو برسر اقتدار آئے ہوئے ابھی صرف ڈیڑھ سال ہو رہا ہے، از روئے جمہوریت عمران خان کو ابھی ساڑھے تین سال حکومت میں رہنے کا حق حاصل ہے لیکن ہماری سیاسی اشرافیہ شور مچا رہی ہے کہ عمران خان فوری حکومت سے دست بردار ہو جائیں اس مطالبے کو جمہوریت کی کون سی قسم کہا جائے؟

عوام اور معتقدین میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ معتقدین امیرکے حکم پر عمل کرتے ہیں یہ نہیں دیکھتے کہ وہ جس حکم کی تعمیل کر رہے ہیں، اس میں جمہوریت کا کوئی نام و نشان ہوتا ہے یا نہیں۔ ہماری سیاسی اشرافیہ آج کل مولانا فضل الرحمن کو خوب بانس پر چڑھا رہی ہے کیونکہ مولانا کے پاس بھاری تعداد میں معتقدین ہیں جو ووٹر کا کام دے سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ہلا گلہ بھی کرسکتے ہیں یہی وہ مجبوری یا چارہ ہے جو سیاسی اشرافیہ کو مولانا کی نازبرداری پر اکسا رہا ہے۔

مولانا کو جب اسی قسم کی ضرورت پیش آتی تھی اور مولانا ان سیاسی اکابرین کی خوشامد کر رہے تھے کہ بھائیو! حکومت گرانے میں میرا ساتھ دو تو کوئی ’’اشراف‘‘ مولانا کی بات سننے کے لیے تیار نہ تھا۔ اشرافیہ کی اس خود غرضی سے مولانا بہت مایوس اور مشتعل تھے اور انھوں نے اعلان کیا تھا کہ آیندہ اشرافیہ سے کسی قسم کا کوئی اتحاد نہیں بنائیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حضرت مولانا اپنی بات پر ڈٹے رہتے ہیں یا سرینڈر کرجاتے ہیں۔ ایک نوجوان سیاسی رہنما شہباز شریف سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ تشریف لائیں اور اپنا عہدہ سنبھالیں۔

ہماری اشرافیہ نے کرپشن کے حوالے سے جو نام کمایا ہے وہ اتنا مشہور ہوگیا ہے کہ عوام اب اس اشرافیہ کو گھاس ڈالنے کے لیے ہرگز تیار نہیں بلکہ دیہاڑی پر بھی اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ ہماری سیاسی اشرافیہ کی ایسی ناکامی ہے کہ وہ ایک ہزاری دو ہزاری سیاست دانوں کی خوشامد میں لگی ہوئی ہے کہ آپ ہمارے اتحادی بن جائیں، آپ کے بغیر ہم حکومت کو گرانے کا محترم کام انجام نہیں دے سکتے۔ تاحال مولانا نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن چونکہ دونوں ہی اہل غرض ایک دوسرے کی ضرورت بن گئے ہیں لہٰذا امید کی جاسکتی ہے کہ اس سہ فریقی اتحاد کی بیل جلد یا بدیر منڈھے چڑھے گی۔

ہماری اشرافیہ حکومت سے سوال کر رہی ہے کہ آپ نے پندرہ ماہ میں کون سا تیر مارا ہے۔ بے شک عمران حکومت پندرہ ماہ میں کوئی تیر نہ مار سکی لیکن عوام اس اشرافیہ سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ آپ نے دس  سالوں میں کون سا تیر مارا ہے آپ بجلی کی لوڈشیڈنگ کو ختم کرانے کا ایک کام نہ کرسکے پھر آپ کو یہ حق کیسے ملے گا کہ آپ پندرہ ماہی حکومت سے اس کی کارکردگی کے بارے میں سوال کریں۔ 10 سال اور ڈیڑھ سال میں فرق تو ہوتا ہے نا۔

ماضی میں جو اتحاد بنتے تھے اس میں جو پارٹیاں شامل بلکہ لازمی طور پر شامل ہوتی تھیں ان میں محمود خان اچکزئی کی پارٹی لازماً شامل ہوتی تھی اس کے علاوہ اور پارٹیاں بھی ہوتی تھیں لیکن اس بار اتحاد کو صرف تین پارٹیوں تک محدود رکھا گیا ہے جو ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا ہماری آج کی اپوزیشن بغیر اقتدار کے رہ ہی نہیں سکتی جس عمران خان پر سلیکٹڈ وزیر اعظم کا الزام لگایا جا رہا ہے وہ 22 سال تک اپوزیشن میں رہ کر اقتدار کا انتظار کرتا رہا ہے جب کہ ہماری آج کی  اپوزیشن کا حال یہ ہے کہ عمران خان کے اقتدار میں آتے ہی اس نے حکومت گرانے کی باتیں شروع کردی تھیں۔

ہماری  اپوزیشن کئی جانب سے حکومت کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہی ہے ہماری آج کی اپوزیشن کل جب اقتدار میں تھی تو اس نے کمال ہوشیاری کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں اپنے حمایتی پیدا کرلیے تھے۔ آج پاکستان کے غریب عوام جس مہنگائی کے شکار ہیں وہ ان ہی حمایتیوں کی مہربانی ہے جو 10 سالہ اشرافیائی حکومت کی پیداوار ہیں۔ اپوزیشن تین جماعتی اتحاد بنالے یا تیرہ جماعتی اتحاد اسے صرف مولانا فضل الرحمن کے حامیوں کی حمایت حاصل رہے گی عوام کی حمایت سے اپوزیشن محروم رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔