جماعت اسلامی اور مہنگائی کے خلاف مہم

مزمل سہروردی  منگل 25 فروری 2020
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پاکستان کی سیاست اس وقت عجیب تضاد کا شکار ہے۔ اپوزیشن کی جماعتیں اصل ایشوز پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کا عوام سے رابطہ کٹ رہا ہے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اس وقت سب سے اہم مسئلہ مہنگائی ہے۔ لیکن اپوزیشن کی جماعتیں مہنگائی پر سیاست کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ حالات اور مقدمات کی ماری ن لیگ چپ کا روزہ رکھنے پر مجبور ہے۔

پیپلزپارٹی کا مسئلہ بھی سندھ کے آئی جی کی تبدیلی ہے۔ انھیں بھی مہنگائی سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ کے پی اور بلوچستان کے حالات بھی سب کے سامنے ہیں۔ مولانا کے بھی عجب مسائل ہیں۔ ملک میں کوئی بھی سیاسی جماعت مہنگائی پر سیاست کے لیے تیار نہیں ہے۔

مہنگائی کے حوالے سے جتنا بھی شور مچا ہے اس میں میڈیا کا کمال ہے۔ میڈیا بھی اس وقت شدید مسائل کا شکار ہے۔ اس لیے اس نے اپنا سار ا غصہ مہنگائی پر نکال دیا۔ عمران خان کو میڈیا پر شدید غصہ ہے۔

اب سیاسی جماعتوں کے پاس ماہر معاشیات کی بھی شدید کمی ہو گئی ہے۔ قابل لوگ سیاسی جماعتیں جوائن نہیں کرتے ہیں۔ وہ سیاست سے کنار ہ کشی اختیار کر گئے ہیں۔ ریٹائرڈ جنرل، سفارت یا کسی اور ٹیکنیکل جگہ پر دوبارہ نوکری لینے میں تو دلچسپی رکھتے ہیں لیکن سیاسی جماعت کے ساتھ کام کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔

ریٹائر ڈ بیوروکریٹ بھی ریٹائرمنٹ کے بعدکوئی نوکری لینے کی کوشش میں رہتے ہیں لیکن کسی سیاسی جماعت کا حصہ بننے سے اجتناب کرتے ہیں۔ شاید سیاسی جماعتوں میں مشاورت اور پالیسی سازی کا کلچر بھی ختم ہو گیا ہے ۔ اس لیے وہ شامل ہو کر جی حضوری کے سواکیا کریں۔ اسی لیے سیا سی جماعتوں میں اچھے اور سمجھدار لوگوں کا قحط الرحجال ہے۔ آپ دیکھ لیں ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں میں کوئی ماہر معاشیات نہیں ہے۔ سب نے کرائے کے لوگوں سے کام چلایا ہے۔ تحریک انصاف کے پاس ایک نام تھا اسد عمر ۔ ن لیگ کے پاس ایک نام اسحاق ڈار۔ پی پی پی بھی خالی۔ مولانا کی جماعت میں بھی کوئی نہیں ہے۔

جماعت اسلامی کے پاس پروفیسر خورشید رہے ہیں۔ وہ اب زیادہ وقت لندن میں ہی گزارتے ہیں۔

اتنے سالوں میں جماعت اسلامی ان کا کوئی متبادل نہیں بنا سکی تھی۔ جماعت اسلامی میں شمولیت بھی تو آسان نہیں۔ آپ کو باقاعہ رکن بننا پڑتا ہے، حلف اٹھانا پڑتا ہے، تنظیم میں شامل ہونا پڑتا ہے۔ ایک لمبا اور مشکل کام ہے۔ ہر سطح پر اسکروٹنی ہوتی ہے۔ لیکن امیر جماعت اسلامی کے پاس یہ اختیار بھی موجود ہے کہ وہ براہ راست کسی بھی شخص کو جماعت اسلامی کا رکن بنا سکتے ہیں۔

بہر حال بہت دنوں بعد خبر ملی ہے کہ سابق بیوروکریٹ وقار مسعود نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اپنا خصوصی اختیار استعمال کرتے ہوئے انھیں باقاعدہ جماعت اسلامی کا رکن بنا دیا ہے۔

وقار مسعود پاکستان کی تاریخ میں سب سے لمبے عرصہ تک مرکز میں سیکریٹری خزانہ تعینات رہے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں حکومت کا نظام افسر شاہی بابو چلاتے ہیں۔ وقار مسعود وہ بابو ہیں جنھوں نے لمبے عرصہ تک پاکستان کی معیشت کو چلا یا ہے۔ انھیں سب سے پہلے نواز شریف نے پاکستان کا سیکریٹری خزانہ لگایا۔ بعد میں وہ مشرف دور میں بھی تعینات رہے۔

شوکت عزیز کے ساتھ رہے۔ پھر پی پی پی کا دور آیا تو رہے اور اب 2017میں ریٹائر منٹ تک بھی رہے۔ا س طرح انھوں نے پاکستان کے سیکریٹری خزانہ رہنے کا ایک ریکارڈ بنایا ہے ۔ اس کے علاوہ وہ سیکریٹری اکنامک افیئرز، سیکریٹری پٹرولیم، سیکریٹری ٹیکسٹائل انڈسٹری ، بھی رہے ہیں۔ یہ مانا جاتا ہے کہ ان کے دامن پر کوئی داغ نہیں ہے۔ ان کا کوئی اسکینڈل نہیں ہے۔ انھیں ایک درویش منش انسان کے طور پر جانا جاتا ہے۔

اسی لیے وہ ہر ایک کو قابل قبول بھی رہے ہیں۔ انھیں عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ مذاکرات اور کام کرنے کا بھی وسیع تجربہ ہے۔ انھوں نے ایک بار نہیں درجنوں بار ان عالمی مالیاتی اداروں سے پاکستان کے لیے مذاکرات کیے۔ آج عمران خان کی سب سے بڑی ناکامی بھی یہی سمجھی جا رہی ہے کہ نہ تو وہ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے پاس بروقت جانے کا کوئی فیصلہ کر سکے۔ اور جب گئے تو اتنے برے مذاکرات کیے کہ ایک سال میں ہی پاکستان کی عوام کو مہنگائی سے کچومر نکل گیا ہے۔ بہر حال امیر جماعت اسلامی نے وقار مسعود کو ترجمان برائے معاشی امور مقرر کر دیا ہے۔ وہ امیرجماعت اسلامی کے مشیر برائے معاشی امور بھی ہوںگے۔ سیاسی معاشی امور کمیٹی کے صدر بھی ہوںگے۔

جماعت اسلامی نے ملک بھر میں مہنگائی کیمپ لگانے کا اعلان کیا ہے۔ جلسے جلوسوں کا بھی اعلان کیا ہے۔ کفن بردار جلوسوں کا بھی اعلان کیا گیا۔ بجلی گیس کے بلوں کو غباروں سے فضا میں اڑانے کی مہم کا بھی اعلان کیا ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ ان اجتماعات میں  عوام کا جم غفیر نہیں آئے گا۔ یہ کام سب سیاسی جماعتوں کو کرنا چاہیے۔

مل کر کرنا چاہیے۔ عوام کی آواز بننا چاہیے۔ لیکن جیسے میں نے کالم کے شروع میں لکھا ہے کہ سب جماعتوں کی مجبوریاں ہیں۔میڈیا تنہا شور مچاکر برا بن گیا۔ چلیں اب جماعت اسلامی کی آواز بھی اس میں شامل ہو جائے گی۔ شائد پاکستان کی عوام کو کچھ ریلیف مل جائے۔ ورنہ ابھی تک ممکن نظر نہیں آرہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔