اشارات

رفیع الزمان زبیری  اتوار 24 نومبر 2013

ڈاکٹر آفتاب احمد اپنے مضمون ’’اردو ادب تقسیم کے بعد‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ہندوستان میں ترقی پسند تحریک شروع تو حقیقت نگاری کے نام پر ہوئی لیکن اس کے زیر اثر جو ادب پیدا ہوا وہ بڑی حد تک نظریاتی تھا، خصوصیت کے ساتھ شاعری۔ چنانچہ اس کے زیر اثر مسلمان ادیبوں کے ہاں ان کا قومی احساس کچھ دب کر رہ گیا تھا۔ پاکستان کے وجود میں آنے سے یہ احساس پھر ابھرا اور مسلمان ادیبوں کو اپنی تمدنی اور ثقافتی روایات کے تحفظ اور ترقی کی فکر ہونے لگی۔

ڈاکٹر آفتاب احمد اپنے اس مضمون میں جو ان کی تنقیدی تحریروں کے مجموعہ ’’اشارات‘‘ میں شامل ہے لکھتے ہیں ’’اصل میں تو خود پاکستان کا مطالبہ ہی اس بنا پرکیا گیا تھا کہ ہم اس کلچر کو زندہ رکھنا چاہتے تھے جو ہندوستان مین مسلمانوں کی بدولت پیدا ہوا تھا کیوں کہ ہمیں خوف تھا کہ متحدہ ہندوستان میں ایک معاندانہ ہندو اکثریت کا کلچر اسے برداشت نہیں کرسکے گا اور ہر حیلے اور بہانے سے اسے مٹانے کی کوشش کرے گا۔ اس ہند اسلامی کلچر کی سب سے ممتاز اور سب سے حسین یادگار اردو ہے۔ اس لیے تو اردو کو پاکستان کی قومی زبان تسلیم کیا گیا ہے حالانکہ اردو پاکستان کے کسی حصے کی بھی مادری زبان نہیں ہے۔‘‘

اپنے مضامین اور تبصروں کے بارے میں جو اس مجموعے میں شامل ہیں، ڈاکٹر آفتاب احمد لکھتے ہیں کہ یہ ادب و شعر اور ان کے متعلقات اور تخلیقات کو سمجھنے، سمجھانے اور پرکھنے کے سلسلے میں ان کی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ وہ اپنے تاثرات کو پہلے خود صاف اور واضح طور پر دیکھنا اور پھر قارئین تک پہنچانا چاہتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے دنیا کے کلچرل سرمایہ میں بیش بہا اضافہ کیا ہے اور اپنی صدہا سالہ تاریخ میں دو فنون یعنی فن تعمیر اور فن شعر و سخن میں عرفانی اور عظیم الشان کارنامے انجام دیے ہیں لیکن ان کی نظر میں جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ شاعری کی دنیا میں ہمارے شعرا کا مذہب اسلام نہیں کفر ہے۔ انھوں نے زاہدوں اور محراب و منبر کے ساتھ جو بے باکیاں کی ہیں اور جس طرح برملا کفر کا کلمہ پڑھا ہے وہ عیاں ہے، ذاتی زندگی میں ان میں سے اکثر اسلام کے صرف قائل ہی نہیں اس کے احکامات کے پابند بھی رہے ہوں گے مگر شاعری میں ان کے تخیل نے ایک بالکل مختلف قسم کی دنیا آباد کر رکھی ہے۔ مسلمان اس کافرانہ شاعری کو صدیوں سے قبول کرتے آئے ہیں اور اسی کے گن گاتے رہے ہیں۔ پھر وہ سوال کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں اس کفر کی نوعیت اور ماہیت کیا ہے؟ یہ کس تصور یا ذہنی کیفیت کی ترجمانی ہے؟

ڈاکٹر آفتاب احمد کہتے ہیں ’’ظاہر ہے، یہ کفر ایک تمثیل ہے۔ شاعر ہم تک اپنی بات پہنچاتا ہے تو عموماً علامتوں اور تمثیلوں کا سہارا لے کر۔ مختصر یہ کہ ہماری شاعری نے کفر پرستی کے ذریعے رچی ہوئی انسانیت اور بھرپور زندگی کا پیغام دیا ہے۔ ان تمام صدیوں میں شاعر نے ظاہر پرستی کے خلاف تن تنہا روح کی جنگ لڑی ہے، اپنے وجدان کے آدرشوں اور اعلیٰ انسانی اقدار کی پاسبانی کی ہے۔ اس نے مخالف ہواؤں میں اپنا چراغ روشن رکھا ہے۔

از صد سخن پیرم یک نکتہ مرا یاد است

عالم نہ شود ویراں تا مے کدہ آباد است

ڈاکٹر آفتاب احمد کہتے ہیں کہ اقبال نے اردو شاعری میں تلمیحات سے جو کام لیا ہے وہ فنی اور تخلیقی اعتبار سے ایک ایسا کارنامہ ہے جو انھیں باقی شعرا سے ممتاز کرتا ہے۔ اقبال کی شاعری پر اپنے تنقیدی مضمون میں وہ کہتے ہیں ’’ہر شاعر کی شاعری ایک مخصوص فضا کی آئینہ دار بھی ہوتی ہے۔ اس ذہنی فضا کی ترتیب و تعبیر میں شاعر کی افتاد طبع اور رجحان طبیعت کے ساتھ ساتھ وہ ثقافتی روایات بھی بہت اہم حصہ لیتی ہیں جو نسلاً بعد نسل شاعر تک پہنچتی ہیں۔ اگر شاعر اپنے خیالات و تجربات کے اظہار اور ترجمانی کے لیے تلمیحات سے کام لینا چاہتا ہے تو وہ لامحالہ اس مجموعے کی طرف رجوع کرتا ہے۔‘‘

اقبال کی ذہنی تربیت اور شاعرانہ شخصیت کی نشو و نما میں اسلامی تاریخ، اسلامی خیالات، افکار اور تصورات جو اہمیت رکھتے ہیں اس کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ اسلام کے ماضی سے دل بستگی کی گونج ان کی تمام تخلیقات میں سنائی دیتی ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اقبال کی تلمیحات مسلمانوں کی مذہبی تاریخی اور فکری روایات سے ماخوذ ہیں۔ دور حاضر کی تہذیب ان سے بالکل مختلف بنیادوں پر تعمیر ہوئی ہے بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ اقبال کی نظر میں یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ایک خیر ہے تو دوسری شر۔ اس تضاد اور آویزش کو اقبال نے مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے اور اس ضمن میں جو چند تلمیحات بار بار استعمال کی ہیں وہ ان کے ہاں خیر و شر کی علامات بن گئی ہیں جیسے کلیم و فرعون، خلیل و نمرود، مصطفی و ابولہب، عصائے کلیم اور ضرب کلیم۔ تاریخی تلمیحات میں ان کی محبوب ترین تلمیح محمود و ایاز ہے۔

ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم کی کتاب ’’فکر اقبال‘‘ کے بارے میں آفتاب احمد کہتے ہیں کہ انھوں نے اقبال کو سمجھنے اور سمجھانے کا حق اس احسن طریقے سے اور اس شرح و بسط کے ساتھ ادا کیا ہے کہ کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔

جوش ملیح آبادی کی خود نوشت روداد حیات کے بارے میں ڈاکٹر آفتاب احمد کہتے ہیں کہ اس کے لیے ’’یادوں کی برات‘‘ جیسے نام کے انتخاب ہی سے جوش کی شخصیت جھلکی پڑتی ہے۔ اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا مقصد یادوں کو دہرانا نہیں بلکہ ان کی برات مرتب کرنا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یادوں کی برات کے دولہا خود جوش صاحب ہیں۔ اپنی ذات سے جوش صاحب کی والہانہ دلچسپی تو سمجھ میں آتی ہے مگر پڑھنے والے کی یہ جستجو بھی ایک فطری امر ہے کہ جوش صاحب کو اپنی ذات سے باہر کن چیزوں سے دلچسپی ہے۔ کتاب کے شروع میں جوش صاحب نے فرمایا ہے کہ ان کی زندگی کے چار بنیادی میلانات ہیں، شعر گوئی، عشق بازی، علم طلبی اور انسان دوستی۔ یہ تو ہوئی دعوے کی بات۔ پڑھنے والے کو خیال ہوتا ہے کہ جوش صاحب جب اپنی داستان حیات سنائیں گے تو لازمی طور پر یہ بھی بتائیں گے کہ یہ میلانات کس طرح ان کی زندگی میں بروئے کار آئے۔ عشق بازی کے متعلق انھوں نے جملہ معلومات بہم پہنچا دیں، شعر گوئی ان کا منصب زندگی ٹھہرا، البتہ علم طلبی اور انسان دوستی کا مضمون بہت تشنہ رہ گیا۔‘‘

ڈاکٹر آفتاب احمد نے جوش کی شاعری کو نصف قصیدہ اور نصف مرثیہ قرار دیا ہے، قصیدے اپنی ذات، اپنے خاندان اور لکھنو کی حسین صبحوں اور شاموں کے اور مرثیے پاکستان میں اپنی زندگی اور معاشی پریشانیوں کے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔