سوشل میڈیا اور چنگاری

روبینہ عامر  اتوار 24 نومبر 2013

کہتے ہیں کہ پتھر کے دور میں زبان کے ارتقا سے بھی پہلے کمیونیکیشن کا طریقہ ایجاد ہوگیا تھا۔ اشارے استعمال ہونا شروع ہوئے ایک دوسرے کو اپنے خیالات بتانے کے لیے جب کہ بقائے زندگی کے لیے دوسرے انسانی گروہوں کے ساتھ رابطے کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے جو پہلا طریقہ ایجاد ہوا وہ درختوں پر نشانیاں باندھنے کا تھا۔ جو ترقی کرتے کرتے راک آرٹ کی شکل اختیارکرگیا اور جن کی نشانیاں آج بھی قدیم چٹانوں پر پہاڑوں اور غاروں پر ملتی ہیں۔ وقت کا پہیہ گھومتا ہوا آج اس مقام تک آپہنچا ہے جہاں انسان نے اپنی ذہنی ارتقا کی بدولت اتنی ترقی کر لی ہے کہ اب میلوں دور بیٹھا ایک انگلی کے اشارے سے پوری دنیا گھوم رہا ہے۔

پتھر کے دور سے اب تک نسل انسانی کی تاریخ بتاتی ہے کہ بقا  اور فنا کا دارو مدار اتحاد میں ہے اور جن قوموں میں اتحاد کا فقدان ہو وہ فنا ہوکر تاریخ کا حصہ بن گئیں۔ دور حاضر کے تناظر میں سوشل میڈیا تیز رفتار کمیونیکیشن کی بہترین مثال ہے۔ لیکن اس کا استعمال شاید نظریہ بقا سے دور ہوتا نظر آتا ہے اس کی بہترین مثال پاکستان ہے۔ جو اس وقت اندرونی اور بیرونی خطرات سے گھرا ہوا ہے سوشل میڈیا بے لگام ہاتھی بنتا جا رہا ہے۔ دس محرم الحرام کو راولپنڈی میںپیش آنے والا واقعہ افسوسناک  تھا۔کیسے ہوا؟ کون ملوث ہے؟ اور کون نہیں اس بحث سے قطع نظر سوشل میڈیا پر نظر ڈالیں تو ایسا لگتا ہے کہ سانحہ راولپنڈی  دراصل بھس میں چنگاری تھی۔ جسے سوشل میڈیا خصوصا فیس بک اور ٹوئٹر کے ذریعے ہوا دی جا رہی ہے۔ نفرتیں بڑھانے والی پوسٹ اتنی بڑی تعداد میں گردش میں ہیں کہ ایسا لگتا ہے خصوصی ٹیم اس کام کے لیے مختص کی گئی ہے۔ یہ ٹیم کس حد تک کامیاب ہے اس کا اندازہ کمنٹ باکس سے ہوتا ہے۔ انتہائی کھل کر رائے زنی ایک دوسرے فرقے کے خلاف غیر اخلاقی اور غیر اسلامی القابات اور جملے کسے جا رہے ہیں غرض سوشل میڈیا پر ایک ناختم ہونے والی جنگ چھڑ گئی ہے۔ یہ  صورت حال انتہائی خوفناک ہے۔ کیونکہ جب راکھ میں دبی ہوئی چنگاری کو مسلسل ہوا دی جائے تو پھر آگ اچانک ہی بھڑکتی ہے اور یہ آگ ایسی ہوتی ہے جو اپنے ساتھ سب کچھ جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔

سوشل میڈیا خصوصا فیس بک پر فرقہ وارانہ فساد کی راہ بنانے والے انتہائی مہارت سے مشہور شخصیات، مشہور صحافیوں اور دیگر عوام میں مقبول افراد کے نام ٹیگ کر رہے ہیں۔ کیونکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ عوام کی بڑی تعداد اپنے ہیروز کا نام دیکھ کرنا صرف پوسٹ کو پڑھیں گے، دیکھنے بلکہ اسے پھیلانے میں بھی فخر محسوس کریں گے۔ کوئی بھی ذی ہوش انسان اس جنگ کے پیچھے چھپی فرقہ وارانہ منافرت کی سازش کو سمجھ سکتا ہے لیکن ذی ہوش کتنے ہیں؟

حقیقتا پاکستانی عوام کے پاس کچھ ہو یا نا ہو…جذبات بہت ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے جذبات کے خریدار بھی یہاں کے عوام میں ذہنی بالیدگی کی اعلیٰ ترین مثالیں موجود ہیں۔ ان کے گھر کھانے کو روٹی ہو یا نہیں، بجلی پانی ہو یا نہیں یہ برسوں سے آزمائے ہوئے سیاست دانوں کو اپنا نجات دہندہ سمجھنا نہیں چھوڑتے۔ اپنے خود ساختہ ہیروز کے لیے پیٹ پر پتھر باندھ کر شاہرائیں بلاک کرنی ہوں، مظاہرے کرنے ہوں یا پھر جان کی بازی لگانی ہو دریغ نہیں کرتے۔ یہاں تو معاملہ ہی مذہبی ہے۔ نماز پڑھتے ہوں یا نہیں، اسلام کے دیگر ارکان کی ادائیگی کا فرض پورا ہورہا ہو یا نہیں فرقہ وارانہ تعصب رکھنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان فرقہ وارانہ جذبات کی ایک لمبی تاریخ رکھتا ہے جو بہت اچھی نہیں اور ایک دفعہ پھر سوشل میڈیا کے ذریعے خونیں بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ جس کا ردھم ٹوٹنا چاہیے۔ خلق خدا امن و انصاف کی منتظر ہے۔

سلسلہ تھمنے کے بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔ ہر شریف اور باشعور شہری آنے والے وقت سے خوفزدہ دکھائی دے رہا ہے لیکن بے خوف ہیں اور بے فکر ہیں تو وہ ہیں ان ہی جذباتی عوام کے سر چڑھائے ہوئے سیاست دان جو قیادت کی کرسی سنبھال کر اقتدار کے مزے لوٹنے میں مصروف ہیں۔ من حیث القوم یہ جان لینا چاہیے کہ نفرتیں اور عداوتیں صرف بگاڑ لاتی ہیں، تباہیاں لاتی ہیں۔ اب بھی مذہبی رواداری اور بھائی چارے کو بروئے کار نہ لایا گیا تو پاکستان کا حشر حال ہی میں تباہی کا شکار ہونے والے شام سے مختلف نہ ہوگا۔ سوشل میڈیا کو رابطے اور مثبت معلومات کے فروغ کے لیے استعمال کرنے میں ہی بقا ہے۔ اپنی صفوں میں چھپے  آستین کے سانپوں کو خود پہچانیں۔ کیا ہماری جملہ قیادتیں اس قابل نہیں کہ بیرونی فتنے کو ختم کر سکیں؟

شام عراق اور اس جیسے ممالک جہاں بیرونی طاقتوں نے اندرونی فرقہ واریت کا فائدہ اٹھا کر مقاصد حاصل کیے۔ انھیں موقعہ نہ دیں اور سوشل میڈیا پرمضبوط اتحاد کی بنیاد رکھیں۔ مذہب بھی رواداری کا سبق دیتا ہے اور اسی میں ہماری بقا کا راز پوشیدہ ہے۔ ورنہ جدید کمیونیکیشن کا یہ نظام منفی استعمال سے ہمیں بہت جلد پتھر کے دور میں لا پھینکے گا جہاں شاید ہم اشاروں میں بات کرنے کے بھی قابل نہ ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔