- کروڑوں روپے کی اووربلنگ کی جا رہی ہے، وزیر توانائی
- کراچی؛ نامعلوم مسلح ملزمان کی فائرنگ سے 7بچوں کا باپ جاں بحق
- پاک بھارت ٹیسٹ سیریز؛ روہت شرما نے دلچسپی ظاہر کردی
- وزیرخزانہ کی امریکی حکام سے ملاقات، نجکاری سمیت دیگرامورپرتبادلہ خیال
- ٹیکس تنازعات کے سبب وفاقی حکومت کے کئی ہزار ارب روپے پھنس گئے
- دبئی میں بارشیں؛ قومی کرکٹرز بھی ائیرپورٹ پر محصور ہوکر رہ گئے
- فیض آباد دھرنا: ٹی ایل پی سے معاہدہ پہلے ہوا وزیراعظم خاقان عباسی کو بعد میں دکھایا گیا، احسن اقبال
- کوئٹہ کراچی شاہراہ پر مسافر بس کو حادثہ، دو افراد جاں بحق اور 21 زخمی
- راولپنڈی؛ نازیبا و فحش حرکات کرکے خاتون کو ہراساں کرنے والا ملزم گرفتار
- حج فلائٹ آپریشن کا آغاز 9 مئی سے ہوگا
- کیویز کیخلاف سیریز سے قبل اعظم خان کو انجری نے گھیر لیا
- بجلی صارفین پرمزید بوجھ ڈالنے کی تیاری،قیمت میں 2 روپے94 پیسے اضافے کی درخواست
- اسرائیل کی رفح پر بمباری میں 5 بچوں سمیت11 افراد شہید؛ متعدد زخمی
- ٹرین سےگرنے والی خاتون کی موت،کانسٹیبل کا ملوث ہونا ثابت نہ ہوسکا، رپورٹ
- 'ایک ساتھ ہمارا پہلا میچ' علی یونس نے اہلیہ کیساتھ تصویر شیئر کردی
- بجلی چوری کارخانہ دار کرتا ہے عام صارف نہیں، پشاور ہائیکورٹ
- عدلیہ میں مداخلت کیخلاف اسلام آباد ہائیکورٹ بار کا سپریم کورٹ سے رجوع
- مہنگائی کے دباؤ میں کمی آئی اور شرح مبادلہ مستحکم ہے، وزیر خزانہ
- پی ٹی آئی کی جلسوں کی درخواست پر ڈی سی لاہور کو فیصلہ کرنے کا حکم
- بابراعظم سوشل میڈیا پر شاہین سے اختلافات کی خبروں پر "حیران"
کورونا وائرس ایران میں
پوری دنیا اس وقت پریشانی میں ہے اور خاص طور پر چین میں اس وقت حالات انتہائی دگرگوں ہیں۔ لیکن چین کا ماضی دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ چین اس وبا سے نمٹ لے گا۔ ہزار بستروں کا اسپتال بنانا ہمارے سامنے ہے۔ یہچین کے اقدامات ہی تھے کہ شائد یہ وائرس پوری دنیا کو ابھی لپیٹ میں نہیں لے سکا۔ لیکن اب اس وائرس کی بازگشت ایران میں سنائی دی جانے لگی ہے اور شنید ہے کہ قم میں چینی شخص کی آمد کی وجہ سے یہ وائرس وہاں پھیلنا شروع ہوا۔ کیا ہم اس لمحے تیار ہیں؟
بلوچستان کی سرحد نہ صرف ایران سے ملتی ہے بلکہ ایرانی بلوچستان (یعنی وہ حصہ جو ایران کا حصہ ہے) میں معمولات زندگی منجمد ہونے لگے ہیں۔ پاکستان سے سیکڑوں کی تعداد میں زائرین مقامات مقدسہ کی زیارت کےلیے تفتان بارڈر کے راستے ایران داخل ہوتے ہیں۔ اور قم میں ہی زیادہ تر ان کا قیام ہوتا ہے۔ مشہد، تہران اور دیگر شہروں میں بھی ان کے سفر میں پڑاؤ ہوتا ہے۔ ایران میں وائرس کے پھیلنے کا خدشہ ہی قم سے ظاہر کیا گیا ہے۔ ایسے حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
چین میں پاکستانی طلبا کی بہت بڑی تعداد موجود ہے اور اس حوالے سے گزشتہ دنوں مشیر صحت اور مشیر اوورسیز پاکستانیز کی پریس کانفرنس میں ہم نے ایک المیہ دیکھا کہ کیسے والدین اپنے بچوں کے لیے پریشان ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے اس حوالے سے کوئی واضح پالیسی نہیں اپنائی اور سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ چین سے پاکستانی طلبا کی پریشان کن ویڈیوز سامنے آنے لگیں۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ پوری دنیا کے لوگ چین میں موجود تھے؟ کیا انہوں نے اپنے شہریوں کو ایسے ہی ڈیل کیا جیسے ہم نے؟ جاپان کے حالات آپ کے سامنے ہیں۔ بحری جہاز جس میں کورونا مریضوں کی بڑی تعداد موجود ہے، وہ بھی آپ پڑھ، دیکھ اور سن چکے ہوں گے۔ لیکن ان تمام ممالک نے فوری ردعمل دیتے ہوئے ضروری اقدامات کیے اور آپ کو اس وقت چاہے اخبارات دیکھیں یا نیوز چینلز، ہیجانی کیفیت کسی ملک میں نظر نہیں آتی۔ ہمارا اب مزید امتحان شروع ہوا چاہتا ہے۔
چین نے کسی نہ کسی طرح اس وبا کو ایک شہر یا کچھ علاقے تک محدود کیا ہوا ہے۔ لیکن ایران جو پہلے ہی پابندیوں کا شکار ہے، وہاں اس وبا کا پھوٹنا پوری دنیا کےلیے خطرے کی علامت ہے۔ ایران کے پاس نہ تو مناسب طبی سہولیات موجود ہیں، نہ ہی ان کے پاس اس وبا سے نمٹنے کےلیے مناسب تکنیکی سہولیات موجود ہوں گی۔ ایران ایک لمبے عرصے سے پابندیوں کا شکار ہے۔ اس لیے وہاں تحقیق و ترقی ایک دائرے میں گھوم رہی ہے کہ ٹیکنالوجی کا تبادلہ ممکن نہیں ہوسکا۔ ایسی صورت حال میں وائرس کا اس خطے میں پہنچنا، پاکستان کےلیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ یہیں سے یہ وائرس اگر افغانستان کا رخ اختیار کرلیتا ہے تو وہاں کے حالات بھی ایسے نہیں کہ اس سے نمٹا جاسکے۔ اور پاکستان کی وسیع سرحد افغانستان کے ساتھ بھی منسلک ہے۔ باقاعدہ سرحدی گزرگاہوں کے باوجود ہزاروں غیر قانونی انٹری پوائنٹس یقینی طور پر موجود ہوں گے، جو پاکستان کےلیے چلتے پھرے ایٹم بم ثابت ہوسکتے ہیں۔ لیکن اس وقت ملک میں ہنگامی بنیادوں پر اقدامات ہوتے نظر نہیں آرہے۔ اس وبا کا یا تو ہمیں مکمل ادراک نہیں ہے یا پھر ہم اپنی ازلی سستی کے ہاتھوں مصیبت سر پر پڑنے کا انتظار کررہے ہیں۔
وزیراعظم نے وزیراعلیٰ بلوچستان سے بات کی اور حالات کا جائزہ لیا۔ لیکن یہ کافی اس لیے نہیں کہ بلوچستان حکومت کے پاس کیا تکنیکی سہولیات اس مسئلے سے نمٹنے کےلیے موجود ہوں گی؟ یقیناً نہیں۔ کیوں کہ تفتان بارڈر ایریا ویسے بھی اتنا ترقی یافتہ نہیں۔ مزید یہ کہ پاکستانی زائرین جو تفتان بارڈر سے پاکستان کی جانب موجود ہیں ان کو تو واپس کیا جاسکتا ہے۔ لیکن تفتان بارڈر پر ایران کی جانب بہت سے زائرین پاکستان واپسی کے منتظر تھے کہ بارڈر کو بند کرنا پڑا۔ کوئی شک نہیں کہ ہمارے پاس بارڈر بند کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ لیکن ہمیں ایک قدم آگے بڑھنا ہوگا تاکہ چین میں موجود پاکستانیوں جیسے حالات یہاں پیدا نہ ہوں۔ ایرانی حکام سے رابطہ کرکے ہنگامی بنیادوں پر ایرانی حدود کے اندر بھی اقدامات کی پیش کش کرنا ہوگی کہ یہ ہمارے لیے بہتر ہے۔ ہم ایسا نہیں کریں گے تو پاکستان کا پسماندہ صوبہ خطرے میں پڑجائے گا۔
اس وقت دنیا کو ایران کی مدد کرنی چاہیے۔ ایران چاہے دعویٰ بھی کرے کہ وہ حالات سے نمٹ لے گا لیکن پوری دنیا جانتی ہے کہ اس وقت ایران کی مالی اور انتظامی حالت کیا ہے۔ کورونا وائرس کو نہ تو میزائل سے شکست دی جاسکتی ہے کہ ایران اس سے آسانی سے نمٹ لے، نہ ہی کسی اور دفاعی طاقت سے۔ اسے صرف ٹیکنالوجی اور حفاظتی تدابیر سے شکست دی جاسکتی ہے، جس میں ایران کو مدد کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں اپنے ہم وطنوں کی حفاظت کا خیال کرتے ہوئے اپنے تمام وسائل، چاہے وہ طبی سہولیات ہوں، پاک فوج کے ڈاکٹرز ہوں، یا دیگر ملکی ادارے، سب کا رخ اس وبا سے نمٹنے کی طرف کرنا ہوگا۔ ورنہ حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ خرابی کی طرف جائیں گے۔
ہمیں ایران کی مدد ایران کےلیے نہیں بلکہ پاکستان اور پاکستانیوں کےلیے کرنا ہوگی۔ چین ترقی کی رفتار میں اس مقام پر ہے کہ وہ ایک ہفتے میں ہزار بستروں کا اسپتال بناسکتا ہے اور وبا کے خلاف تن تنہا کام کرسکتا ہے۔ لیکن ایران کے حالات یکسر مختلف ہیں۔ ایران میں صورتحال نہایت تشویش ناک اس لیے بھی ہے کہ اس سے خطے میں ایک شدید خطرہ منڈلانے لگا ہے۔ اگر اس خطرے کا ادراک نہ کیا گیا اور دنیا آپس کے سیاسی مسائل میں ہی الجھ کر مدد کو ہاتھ بڑھاتی نظر نہ آئی تو وہ وقت دور نہیں کہ ہم ناقابل تلافی نقصان کا شکار ہوسکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔