باہر جانے آنے والے

سعد اللہ جان برق  بدھ 26 فروری 2020
barq@email.com

[email protected]

اس دن ہم نے دو شریف اور وائٹ کالر لوگوں کو ’’مالٹوں‘‘ کی مہنگائی پر چرچا کرتے سنا تو ٹھہر گئے، ان کے مطابق ’’مالٹے‘‘ نہایت ہی ناقابل برداشت اور اس کے بیچنے والے اس سے زیادہ ناقابل برداشت ہو چکے ہیں، ان کی باتیں اور وہ دونوں ہمارے لیے مالٹوں اور مالٹے بیچنے والوں سے بھی زیادہ ناقابل برداشت تھے۔

کیونکہ ہمارا مالٹوں سے تو کیا ہر قسم، نسل اور خاندان کے پھلوں سے کوئی ناتا نہیں ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ یہاں خوا مخواہ دکانداروں اور سوداگروں کے ہاتھوں زچ کیا ہوں گے وہاں جائیں گے تو خوب جی بھر کر کھا لیں گے۔ البتہ بزرگوں کے ہم بہت تابعدار ہیں، اس لیے کبھی کبھی ان کے بتائے ہوئے طریقے پر صرف ’’نرخ‘‘ پوچھ کر ’’کمائی‘‘ کر لیتے ہیں کیونکہ ان کا فرمودہ ہے جو پیسے تم نے بچا لیے یوں سمجھ لو کہ پھر سے کما لیے۔

ایک ریڑھی والے سے مالٹوں کا نرخ پوچھا تو اس نے بتا دیا۔ یوں ہم نے دل ہی دل میں حساب لگایا تو ’’نہ خرید‘‘ کر بہت بڑی بچت بلکہ کمائی تو کر لی لیکن ویسے ہی دل پشوری کے لیے پوچھا۔ اتنے مہنگے کیوں ہیں؟ بولا۔ باہر جا رہے ہیں۔

ہمیں یاد آیا کہ کل ہم نے انار والے سے انار کی مہنگائی کا پوچھا تھا تو اس نے کہا تھا کہ ’’باہر سے آتے ہیں‘‘ ہمیں اب باہر جانے والوں اور آنے والوں سے نہ کوئی ناتا ہے نہ رشتہ۔ تاہم یہ باہر جانے اور باہر سے آنے کا مسئلہ تحقیق طلب تھا اس لیے اپنے ٹٹوئے تحقیق کو اسٹارٹ کیا کہ آخر یہ حکومت ’’اندر باہر‘‘ اور آنے جانے کا کھیل کیوں کھیلتی ہے۔ تب ہمیں پتہ چلا کہ بچاری حکومت بھی آخر کیا کرے کہ چند خوراکی چیزیں ہی تو ہیں جنھیں باہر بھیجا جا سکتا ہے۔ چاول، مالٹے، آم اور کچھ دوسرے وغیرہ جن سے روٹیاں وغیرہ بنتی ہیں۔

آخر اس بچاری پر اتنے زیادہ وزیروں مشیروں معاونین متاثرین اور مساکین کا بوجھ جو ہے اور کیا ہے جو باہر بھیجے کیونکہ ’’بنانے والی‘‘ چیزوں میں تو صرف ’’باتوں‘‘ کی پیداوار زیادہ ہے یا لیڈر وافر تعداد میں پیدا ہوتے ہیں لیکن ان کی مانگ صفر ہے، تو آخر بچاری کرے کیا ۔ بسکٹ اور ٹافیاں تک باہر سے آتی ہیں یہاں پر ایک کہانی دُم ہلا رہی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک میاں بیوی رات  مشورہ کرنے لگے کہ لڑکا جوان ہو چکا ہے اس کی شادی خانہ آبادی کرنا چاہیے۔ شوہر نے کہا، کیا کریں، ہاتھ میں تو کچھ ہے نہیں۔ بیوی نے کہا۔ اگر ہم اپنے گدھے بیچیں تو بندوبست ہو سکتا ہے لیکن شوہر نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ گدھے ہی تو ہماری روزی روٹی ہیں، اگر انھیں بیچ ڈالا تو گھر کیسے چلے گا۔

لڑکا جو پاس ہی چارپائی پر لیٹا ہوا تھا ۔بول پڑا تم لوگ وہ ’’گدھوں‘‘ والی بات کیوں نہیں کر رہے ہو۔ والدین سمجھ گئے کہ بیٹا شادی چاہتا ہے چنانچہ باپ نے اسے بھی سمجھاتے ہوئے کہا کہ بیٹا یہی گدھے تو ہمارا کل اثاثہ ہیں۔ لڑکے نے کہا یہ تو کوئی بات نہیں گدھوں کا کام میں کر لیا کروں گا۔

والدین مان گئے اور شادی کے لیے گدھے بیچ دیے۔ اس کے بعد کیا ہوا یہ آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کیوں کہ ’’معلوم‘‘ سے نامعلوم کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہے۔ گدھے بیچ دیے جائیں تو گدھوں کا کام کسی نہ کسی تو لیا جائے گا۔ اس پر کہتے ہیں مالٹے مہنگے ہیں چاول مہنگے ہیں اور وہ مہنگا ہے جس سے روٹیاں پکتی ہیں۔ آخر انصاف بھی توکوئی چیز ہے جب آپ کھانے کی چیزیں باہر بھیجیں گے تو گدھے تو بھوکے رہیں گے ۔ منہ میں گھاس نہیں مگر رینگنا تو ہے بول کہ لب آزاد ہیں تیرے لیکن سنے گا کون؟ پرانے زمانوں میں ’’صحرا‘‘ میں اذان کا محاورہ تھا لیکن اسے اب شہروں پر لاگو کیا جا سکتا ہے، اتنے شور میںمیں کوئی اذان کیا سنے گا، صرف ایک شور ہی سنائی دے گا اور ’’شور‘‘ کے کوئی معنی نہیں ہوتے۔

رات بھر شور رہا ہے ترے ہمسائے میں

کس کے ارمان بھرے دل کو خدا یاد آیا

بات پھلوں سے شروع ہوئی تھی اور پہنچی کہاں تک بلکہ ابھی پہنچی کہاں تک ہے ابھی تو زمین چاول مالٹے آم اور گندم اگا رہی ہے لیکن جب ساری زمین پر ٹاونز سٹیز، کا لونیوں اور پیراڈائزز کے سیمنٹ سریے کے جنگل اگ آئیں گے تو پھر۔ پھر تو صرف گدھے ہی بچے ہوں گے بشرطیکہ ان کو بھی ناپید نہیں کیا گیا ہو یا پہلے ہی سے رہن نہ رکھے گئے ہوں کیونکہ عام طور جائیداد غیر منقولہ سے پہلے جائیداد منقولہ ہوتی ہے۔ خیر کوئی بات نہیں ابھی تو اس نوجوان میں کچھ دم خم باقی ہے جس نے والدین کو گدھے بیچنے اور خود کو گدھوں کی جگہ پیش کرنے کی تجویز دی تھی۔

ابھی ’’خروں‘‘ کے جسم پر تو کھال باقی ہے

ابھی ’’خرکار‘‘ کے ارمان بول کہاں نکلے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔