عالمی سطح پر بدلتی صورتحال، محتاط فیصلہ سازی کی متقاضی

ارشاد انصاری  بدھ 26 فروری 2020
کومت کو تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے محتاط حکمت عملی اپنانی چاہیے۔

کومت کو تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے محتاط حکمت عملی اپنانی چاہیے۔

 اسلام آباد: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ انڈیا، ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد کے استعفٰی، اور قطر میں امریکہ و طالبان کے درمیان اگلے چند روز میں متوقع امن معاہدہ پر دستخط سمیت خارجی سطح پر بڑی اہم ڈویلپمنٹس ہونے جا رہی ہیں جن کے جنوبی ایشیا اور پاکستان پر مستقبل میں براہ راست اثرات مرتب ہون گے۔

طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدہ حتمی مراحل میں ہونے کی اطلاعات ہیں اور اس معاہدے پر 29 فروری 2020 کو دستخط ہونے کی امید ہے یقینی طور پر یہ معاہدہ خطے کیلئے اور پاکستان کیلئے خاص طور پر اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے، مگر اس سے بھی بڑھ کر اس معاہدے کے بعد کے اثرات زیادہ اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان نے اس معاہدے میں اہم کردار ادا کیا ہے جسے نہ صرف امریکہ بلکہ دوسرے فریقین نے بھی تسلیم کیا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاہدے کو حقیقی معنوں میں عملی جامہ پہنانے اور منفی و سازشی عناصر کے شر سے محفوظ رکھنے کیلئے اہم اسٹیک ہولڈر کے طور پر آگے پاکستان کا کردار امن چاہنے والے ملک کے طور پر ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی قیادت کی بھی ذمہ داری ہے کہ مستقبل کی صورتحال کے تناظر میں اندرونی معاملات کو درست کیا جائے اور قومی یکجہتی کو فروغ دینے کی راہ ہموار کی جائے۔

اگر حکومت اپنا اقتدار بچانے کیلئے اپنے اتحادیوں کے ساتھ بات چیت کرنے پر مجبور ہو سکتی ہے ارو معاملات کو حل کر سکتی ہے تو ملکی خود مختاری اور قومی مفاد کیلئے حزب اختلاف کے ساتھ بات چیت کے ذریعے معاملات حل کرنے میں کون رکاوٹ ہے۔ احتساب کیلئے ادارے موجود ہیں احتساب کو سیاسی انتقام کا رنگ نہ چڑھنے دیا جائے۔

اداروں کو اپنا کام کرنے دیا جائے اور قانون نے جو اپوزیشن کو مقام دیا ہے حکومت بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے تسلیم کرے اور ملک کو آگے لے کر چلیں تاکہ قومی یکجہتی پروان چڑھ سکے ،کیونکہ قومی یکجہتی ہی دیرپا سیاسی و معاشی استحکام کی ضامن ہو سکتی ہے اس کے علاوہ وزیراعظم کو بھی چاہیئے کہ بات کرنے میں اعتدال سے کام لیں اور اپنے عہدے کے تقدس کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھیں اور اگر وہ فی البدیہہ تقریر کر کے ماضی کے سیاسی حکمرانوں سے خود کو ممتاز رکھنا چاہتے ہیں تو رکھیں مگر ضروری ہے کہ تقریر کرنے سے پہلے تیاری ضرور کر لیا کریں کیونکہ جب وزیراعظم جب اپنی تقاریر میں سال کے بارہ موسموں اور بھارت پر ترکی کی چھ سو سال حکومت اور جرمنی اور جاپان کی سرحدیں ساتھ ملانے جیسے بیانات دیں گے تو مذاق تو بنے گا اور اپوزیشن بھی پھر اس پر سیاست تو کرے گی۔

اس س نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی ہمیں سنجیدہ نہیں لیا جاتا۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ہم نے ایران، سعودی عرب کے معاملہ، افغان طالبان و امریکہ کے معاملہ اور چین و امریکہ سمیت ہر معاملے میں خود آگے آکر بغیر کسی کی درخواست کے ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی مگر جواب میں ڈومور ہی سامنے آیا، اس لئے اب تمام سیاسی جماعتوں کو سنجیدگی سے مل بیٹھ کر ملک کے مستقبل بارے ایک ہونا پڑے گا تب یہ ممکن ہوگا کہ یہ دنیا ہمیں سنجیدہ لے۔

امریکہ کو اپنی ماضی کی روایات کو توڑنا ہوگا اور پاکستان کو صرف ثالثی کے چورن پر نہ رکھا جائے کیونکہ اس حوالے سے امریکہ کا ماضی کوئی بہت اچھا نہیں ہے اب تک کی تاریخ یہی رہی ہے کہ امریکہ نے پاکستانی قیادت کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا ہے اور استعمال کرنے کے بعد مسائل کیلئے تنہا چھوڑ دیا۔ سوویت یونین کے حصے بخرے ہونے کے بعد کی صورتحال دنیا کے سامنے ہے اور پاکستان ہزار قیمتی جانوں کے نقصان اور اربوں ڈالر کے معاشی نقصان کی صورت میں آج تک اس کی بھاری قیمت چکا رہا ہے اور جب کبھی بھی پاکستان کو ضرورت پڑی نہ تو امریکہ کا بحری بیڑی پہنچا اور نہ ہی نائن الیون کے بعد فرنٹ لائن اتحادی کے طور پر زبوں حالی کا شکار ہونیوالی پاکستانی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے کوئی پائیدار اقدامات اٹھائے اور جو بھی امریکی صدر آیا وہ پاکستان کیلئے ڈومور کا نیا ایجنڈا لے کر آیا۔

لہٰذا اب کی بار اگرچہ پاکستان نے کسی بھی پرائی جنگ کا حصہ نہ بننے کا واضع و دوٹوک پیغام امریکی قیادت کو پہنچایا ہے مگر اس کے ساتھ ہی پاکستان کو مستقبل سے متعلق فیصلہ سازی میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔ ابھی افغانستان کے حوالے سے بھی جو ہونے جارہا ہے اس میں ترپ کا پتہ پاکستان کو اپنے ہاتھ میں رکھنا ہوگا اور چین، ایران، ترکی سمیت دیگر ممالک کی طرح ہمیں بھی اپنا ملکی وقومی خودمختاری و مفاد دیکھنا ہوگا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنی پہلی بھارت یاترا پر ہیں جہاں وہ تین ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے کرنے جا رہے ہیں اور ان سطور کی اشاعت تک بھارت کے ساتھ تین ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے کی تفصیلات بھی سامنے آچکی ہوںگی اور امریکی صدر کا دورہ بھارت بھی مکمل ہوچکا ہوگا، لیکن گاندھی جی کی جنم بھومی اور انتہاء پسند ذہنیت کے حامل مودی سرکار کے آبائی علاقے احمد آباد گجرات سے شروع کئے جانیوالے دورے میں امریکی صدر کا بھارتی سرزمین پر کھڑے ہوکر پاکستان کی تعریف کرنا واقعی ایک بڑی بات ہے۔

اور پھر ڈونلڈ ٹرمپ کی بھارت یاترا کے دوران جس طرح پرتشدد کاروائیوں کے واقعات سامنے آئے ہیں اس نے بھارت کے جمہوریت پسندی کے مکرو چہرے کو مزید گہنا دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارتی حلقوں میں کہرام مچا ہے اور بھارتی میڈیا مودی سرکار کو آڑے ہاتھوں لے رہا ہے مگر اس کے ساتھ ہی ہمیں بھی چوکنا رہنا ہوگا کیونکہ بیان بازی کے حوالے سے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کا ریکارڈ کوئی اچھا نہیں ہے، بھارت کے ساتھ معاملات کے حل کیلئے ثالثی کی پیشکش کی گئی تو اس کے بعد بھارتی ہٹ دھرمی دنیا کے سامنے ہے مگر امریکہ بہادر نے مسلسل خاموشی اختیار کئے رکھی اور اب بھی بھارت میں کھڑے ہوکر پاکستان کی تعریف کی گئی ہے اس سے بعض حلقوں کی جانب سے پھر تحفظات کا اظہار کیاجا رہا ہے کہ اسکے بعد اب بھارت کوئی نیا کھیل نہ رچائے۔

مولانا فضل الرحمان کے بعد اب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے مارچ میں میدان لگانے کا اعلان کردیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بلاول ہاوس لاہور میں پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے عہدیداران سے ملاقات کے دوران گفتگو میں کہا ہے کہ موجودہ حکمران داخلی خارجی اور ملکی سالمیت کے لیے سکیورٹی رسک بن چکے ہیں، بہتر ہے حکمران مارچ سے پہلے ہی خود استعفیٰ دے کر عوام کی جان چھوڑ دیں۔

دوسری طرف عدالت نے مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کی ضمانت منظور کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا ہے جس کے ملکی سیاست پر یقیناً گہرے اثرات مرتب ہوں گے ۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کے راستے پر دھکیلا جا رہا ہے اور ماضی کی حکومتوں کی پرانی غلطیوں کو بڑے بے ہنگم طریقے سے دہرایا جا رہا ہے، حکومت کو تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے محتاط حکمت عملی اپنانی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔