تخریب کاری کی وارداتوں میں موٹر سائیکل بورن آئی ڈی ٹیکنالوجی کا استعمال

ساجد رؤف  پير 25 نومبر 2013
رواں سال اس تکنیک کے دھماکوں سے درجنوں معصوم شہری لقمہ اجل بن چکے ہیں ایسے دھماکے مخصوص کالعدم تنظیموں کے ملزمان کرتے ہیں، پولیس۔ فوٹو: آن لائن/فائل

رواں سال اس تکنیک کے دھماکوں سے درجنوں معصوم شہری لقمہ اجل بن چکے ہیں ایسے دھماکے مخصوص کالعدم تنظیموں کے ملزمان کرتے ہیں، پولیس۔ فوٹو: آن لائن/فائل

کراچی: انچولی میں موٹر سائیکل بورن آئی ڈی ٹیکنالوجی کے ذریعے کیے جانیوالے یکے بعد دیگرے2بم دھماکے دہشت گردوں کی جانب سے پہلی مرتبہ نہیں کیے گئے اس سے قبل بھی ایک درجن سے زائد مرتبہ دہشت گردی کی وارداتوں میں موٹر سائیکل بورن آئی ڈی ٹیکنالوجی استعمال کی جاچکی جس کے نتیجے میں درجنوں معصوم اور بے گناہ شہری لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

شہر قائد میں دہشت گرد کارروائیوں میں زیادہ تر وارداتیں موٹر سائیکل میں بم نصب کرکے دھماکے کر کے کی گئی ہیں، رواں سال موٹر سائیکل بورن آئی ڈی ٹیکنالوجی کے ذریعے کی جانے والی وارداتوں کی تعداد نصف درجن سے زائد ہے، دہشت گردوں کی جانب سے موٹر سائیکل بورن آئی ڈی ٹیکنالوجی کے ذریعے کی جانے والی پہلی دہشت گرد کارروائی یکم جنوری کو عائشہ منزل کے قریب کی گئی جس کے نتیجے میں ایم کیوایم کے مرکز نائن زیرو پر منعقدہ پروگرام میں شرکت کر کے واپس گھر جانیوالے افراد کو نشانہ بنایا گیا اور دہشت گردوں نے موٹر سائیکل میں بم نصب کا دھماکاکر کے4 افراد سے جینے کا حق چھین لیا جبکہ50سے زائد افراد زخمی ہو گئے تھے اسی طرح 26 اپر یل کو نصرت بھٹو کالونی میں ایم کیو ایم کے انتخابی دفتر کے قریب دہشت گردوں نے موٹر سائیکل میں بم نصب کرکے دھماکا کیا جس کے نتیجے میں ایم کیو ایم کے 6 کارکنان زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ10سے افراد زخمی ہو گئے تھے۔

تیسری واردات اگلے ہی روز27اپریل کو لیاری کمہار واڑہ میں پیپلز پارٹی کی کارنر میٹنگ کے قریب ہوئی جہاںموٹر سائیکل میں بم نصب کر کے دھماکا کیا گیا جس میں کمسن بچی سمیت میں4افرادلقمہ اجل بن گئے اور 30 سے زائد افراد زخمی ہوئے ، چوتھی واردات 26 جون کو برنس روڈ پرحنفیہ مسجد کے قریب موٹر سائیکل میں بم نصب کر کے جسٹس مقبول باقر کو نشانہ بنایا گیا جس میں جسٹس مقبول باقر سمیت متعدد افراد زخمی ہو گئے جبکہ ان کے اسکواڈ میں شامل6 پولیس اہلکار ، 2 رینجرز اہلکار اور ان کے ڈرائیور جاں بحق ہوگئے تھے، 10 اکتوبر کو منگھوپیر  غازی گوٹھ کے قریب اجتماع گاہ روڈ پر موٹر سائیکل میں نصب بم زور دار دھماکے سے پھٹ گیا جس سے موٹر سائیکل پر سوار 3 مبینہ دہشت گرد مارے گئے ، رواں سال کی آخری تخریب کاری جمعہ 22 اکتوبر کو فیڈرل بی ایریاانچولی موڑ کے قریب واقع گولڈن پان شاپ اور پاکیزہ پکوان سینٹر کے قریب 2 موٹر سائیکلوں میںنصب بم دھماکوں میں6 افراد جاں بحق اور45 سے زائد افراد زخمی ہو گئے تھے۔

سال 2012 میں بھی دہشت گردوں کی جانب سے موٹر سائیکل بورن آئی ڈی تکنیک کئی بار استعمال کی گئی، 5 اپریل کو ملیر ہالٹ کے قریب موٹر سائیکل سوار خود کش حملہ آور نے ایس ایس پی ملیر رائو انوار کے قافلے کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں4 افراد جاں بحق اور3 سٹی وارڈن سمیت 19افراد زخمی ہو گئے تھے،30 جولائی کو کلفٹن کے علاقے میں واقع چینی قونصل خانے کے باہر موٹر سائیکل میں بم نصب کر کے کیے جانے والے دھماکے میں رینجرز اہلکار سمیت2 افراد زخمی ہو گئے18ستمبر کو نارتھ ناظم آباد بلاک ای ڈالمین شاپنگ سینٹر کے قریب واقع بوہری جماعت خانہ کے قریب موٹر سائیکل اور درخت میں بم نصب کر کے کیے جانے والے2 بم دھماکوں میں شیر خوار بچی اور میاں بیوی سمیت 8 افراد جاں بحق اور22 افراد زخمی ہوئے18 نومبر کو ابوالحسن اصفہانی روڈ پر واقع عباس ٹائون کے داخلی راستے پر موٹر سائیکل میں بم نصب کر کے دھماکا کیا گیا جس سے 2 افراد جاں بحق جبکہ 2 رینجرز اہلکاروں سمیت18 افراد زخمی ہوئے۔

21 نومبر کو اورنگی ٹائون نمبر5 شارع اورنگی پر واقع حیدر قرار ٹرسٹ امام بارگاہ کے قریب موٹر سائیکل میں بم نصب کر کے کیے جانے والے دھماکے میں 2 افراد جاں بحق اور صحافی ، رضا کاروں ، پولیس اور رینجرز اہلکاروں سمیت20 افراد زخمی ہو گئے26 دسمبر کو سہراب گوٹھ جنت گل ٹائون میں واقع مسجد کے قریب موٹر سائیکل میں بم نصب کر کے دھماکا کیا گیا جس کے نتیجے میں4 افراد زخمی ہو گئے تھے ، پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ موٹر سائیکل بورن آئی ڈی تکنیک کے ذریعے بم دھماکے مخصوص کالعدم تنظیموں کے ملزمان کرتے ہیں، مشاہدے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے دہشت گردوں کی جانب سے ایک بم دھماکے کے بعد دوسرا بم دھماکاکیے جانے لگا ہے جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ جانی و مالی نقصان پہنچانا ہے لہذا عوام الناس سے اپیل ہے کلہ اگر شہر میں کسی مقام پر کوئی دہشت گرد کارروائی کی جاتی ہے توشہری فوراً جائے وقوع پر نہ جائیں بلکہ اس سے دور رہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔