نئی اقوام متحدہ کی ضرورت

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 27 فروری 2020
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

اقوام متحدہ اب 74سال پرانی ہوگئی اتنے طویل عرصے میں اقوام متحدہ نے کوئی ایسا کارنامہ انجام نہیں دیا جو اس کے ہونے کا جواز بن سکے۔ پہلے اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا نے اقوام متحدہ کی تشکیل کیوں کی۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران مختلف حوالوں سے جو جنگیں جاری تھیں اور اس دوران پہلی اور دوسری عالمی جنگیں بھی لڑی گئیں جس میں لاکھوں عوام گاجر مولی کی طرح کاٹ دیے گئے اور دنیا قتل و غارت کا مرکز بن گئی۔ اس بھیانک صورتحال کو دیکھ کر دنیا کے چند حکمرانوں کو خیال آیا کہ دنیا کے تنازعات کے حل کے لیے کوئی ایسا ادارہ ہونا چاہیے جو جنگوں کو روکے اور امن کی حمایت کرے چونکہ اس خیال کے بانی بڑے ملکوں کے سربراہ تھے لہٰذا اقوام متحدہ وجود میں آئی ، مجموعی طور پر اقوام متحدہ دنیا میں امن اور شانتی کا ایجنڈا لے کر آئی۔

دنیا کے عوام کو اقوام متحدہ سے تحفظ کا احساس ہوا۔ دنیا سیکڑوں ملکوں میں بٹی ہوئی ہے اور ان ملکوں کے درمیان محبت اور بھائی چارے کے بجائے دشمنی اور عداوت کا کلچر محفوظ ہوتا گیا اس دوران ویت نام ، کوریا میں امریکی سامراج نے بلاجواز جنگیں چھیڑیں اور ان جنگوں میں لاکھوں عوام جنگوں کا ایندھن بن گئے لیکن اقوام متحدہ کسی نہ کسی طرح حرکت پذیر رہی اور کوشش کرتی رہی کہ دنیا میں امن قائم ہو لیکن چونکہ بڑی طاقتوں کے اختلافات بہت گہرے تھے۔

لہٰذا اقوام متحدہ امن کے حوالے سے وہ کچھ نہ کرسکی جو اس کی ذمے داری تھی۔ آج بھی دنیا کے مختلف ممالک میں جنگ کے الاؤ جل رہے ہیں اور اقوام متحدہ بے بسی سے ان جلتے الاؤ کو دیکھ رہی ہے لیکن کچھ کر نہیں سکتی یہ اقوام متحدہ کی نااہلی ہے یا بڑی طاقتوں کی داداگیری جس کا اندازہ دنیا کے عوام کر رہے ہیں۔ کوریا اور ویت نام کی جنگوں کے بعد جگہ جگہ جنگ کے الاؤ روشن رہے اگرچہ  اقوام متحدہ جنگوں اور دنیا کے مختلف ملکوں میں اختلافات کو ختم کرنے کے لیے کوشاں رہی لیکن سامراجی ملک بنیادی طور پر امن کے دشمن ہیں اور بڑے اور طاقتور ملک ہونے کی وجہ وہی خدمات انجام دیتے رہے ہیں جو ان کے مفادات سے ہم آہنگ ہوں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جگہ جگہ جنگوں کا کلچر مضبوط ہوتا رہا۔

دنیا میں جب تک سوشلسٹ ملک موجود تھے امن کی آشائیں زندہ تھیں لیکن عالمی سامراج نے سوشلسٹ ملکوں کو مختلف حوالوں سے مجبور کرکے سوشلسٹ ملکوں کو نہ صرف توڑ تاڑ دیا بلکہ انھیں بھی سرمایہ دارانہ نظام اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ یوں پوری دنیا تاریخ کے بدترین استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کے زیر نگیں آگئی بلکہ ظلم و استحصال کے ایسے کلچرکو پروموٹ کیا جو عوام کو غربت واستحصال کی بھٹی میں جھونک کر ایک ایسا گناہ کر رہا ہے جو مستقبل کے حکمران طبقے لازماً اسی کلچر کو فالوکریں گے۔

بڑی طاقتوں کا مفاد اسی میں ہے کہ دنیا میں جنگیں ہوتی رہیں تاکہ اسلحے کی کھپت کا اہتمام ہوتا رہے۔ سامراجی ملکوں نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ جنگوں کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع کیا ہے، اس کا سب سے بڑا کام ہتھیاروں کی فروخت ہے۔ سامراجی ملکوں نے دنیا کے ملکوں کے درمیان ایسے تضادات کھڑے کر دیے ہیں کہ اسلحے کی فروخت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

مثال کے طور پر مشرق وسطیٰ کو لے لیں ، مشرق وسطیٰ خصوصاً عرب ملکوں کے درمیان اسرائیل کو ایک منی سپرپاور کا درجہ دے کر سارے عرب ملکوں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنے عوام کا پیٹ کاٹ کر ہتھیاروں کی خرید کو اپنی پہلی ضرورت بنالیں۔ عرب ملکوں میں سعودی عرب اور یو اے ای دو ایسے علاقے ہیں جو مغربی ملکوں سے سب سے زیادہ ہتھیار خریدتے ہیں اور ہتھیاروں کی نکاسی کے لیے اسرائیل کا خوف ضروری ہے سو امریکا اور اس کے اتحادیوں نے اسرائیل کو دادا بناکر عرب ملکوں کو اربوں ڈالر کا اسلحہ خریدنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس سامراجی سیاست نے نہ صرف اسرائیل کو علاقے کی منی سپر پاور بناکر سارے عرب ملکوں کو اپنے زیرنگیں کرلیا اور اربوں روپوں کا اسلحہ خریدنے پر مجبور کردیا ہے۔

اقوام متحدہ اس سارے پراسس میں ایک تماش بین بن کر رہ گئی ہے اور جس مقصد یعنی امن کا قیام جنگوں کو روکنے کی ذمے داری اب اقوام متحدہ کے فرائض میں شامل نہیں۔ پاکستان اور بھارت فلسطین اور اسرائیل دو متحارب طاقتیں ہیں ان دونوں متحارب طاقتوں کے درمیان سامراجی ملکوں نے ایسے تضادات کھڑے کردیے ہیں کہ ان کے درمیان امن بھائی چارے کا کوئی امکان نہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے برصغیر کا دورہ کیا اور سوائے آئیں بائیں شائیں کے کچھ نہ کیا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی یہ ذمے داری تھی کہ وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان اور اسرائیل اور عرب ملکوں کے درمیان کم ازکم مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے کی کوشش کرتے لیکن ایسا اس لیے ممکن نہ ہو سکا کہ بڑی طاقتیں خصوصاً امریکا کے مفادات کا یہ تقاضا ہے کہ ان ممالک کے درمیان جنگ کا ماحول بنا رہے اور ہتھیاروں کی نکاسی کا سلسلہ جاری رہے۔ اس پس منظر میں ایک نئی اقوام متحدہ کی ضرورت ہے جس کا کنٹرول ترقی پذیر ملکوں کے ہاتھوں میں ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔