جرائم تو کھیت کی فصل ہوتے ہیں

سعد اللہ جان برق  جمعرات 27 فروری 2020
barq@email.com

[email protected]

جرائم پرتو ہم کبھی کبھی اپنی غیردانشورانہ بلکہ تقریباً احمقانہ سی رائے دے دیتے ہیں جس کا حشرنشر بھی دانش اور فلسفے کے اس نقارخانے میں طوطی کی آواز ہوجاتی ہے بھلا یہ بھی کوئی’’دانش‘‘ ہے کہ ہم مجرموں کو صاف ’’بری‘‘کرکے اس سراسر استحصالی غیرہموار اور غیرمقام کا دوغلاپن قراردیتے ہیں لیکن صورت حال کوئی مانے یا نہ مانے وہی ہے جوایک بہت پرانے گھسے پٹے اور قبروں کے شعر میں بیان ہوئی ہے کہ

مگس کو باغ میں جانے نہ دینا

کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا

نہ تو پروانہ یونہی خود بخود جل اٹھتا ہے اور نہ ہی کوئی ’’مجرم‘‘اکیلے اکیلے محض شوقیہ ایسا بنتا ہے جس طرح پروانے کو جلانے والی ’’شمع‘‘موم سے بنتی ہے۔ موم ’’چھتے‘‘سے حاصل ہوتا ہے، چھتہ مگس یا مکھیاں بناتی ہیں اور ’’باغ‘‘میں جاکراس کا سامان لاتی ہے ٹھیک اسی طرح مجرم خودبخود اچانک زمین سے نہیں اگتا، نہ کوئی ماں کی کوکھ سے ’’مجرم‘‘نکلتا ہے۔سب کچھ باغ، مگس، موم اور شمع بنانے والے کرتے ہیں، اسی لیے تومیرصاحب نے کہا تھا کہ

ناحق ہم مجبوروں پر، یہ تہمت ہے مختاری کی

چاہتے ہیں سوآپ کرے ہیں، ہم کو عبث بدنام کیا

اور یہ شعر آج کل ہمہ اقسام کے مجرموں اور جرائم پرصادق آتاہے مجرم وہ نہیں ہوتا جوجرم کرتا ہے بلکہ وہ ہوتا ہے جو اس سے جرم کرواتا ہے۔ہم نے انھی کالموں میں کہیں وہ ہارون الرشید اور بہلول دانا کا مکالمہ درج کیاہے کہ۔اگرچور مستی میں چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹنا چاہیے اور اگر ’’نیستی‘‘کے مارے کرے تو حاکم کا سرکاٹنا چاہیے۔ وہ سر جس میں ایک منہ ہوتا ہے اور اس منہ سے روزانہ خوش خبریوں اور سبزباغوں کے سوا اور کچھ بھی نہیں نکلتا۔بلکہ اس منہ کے ساتھ اور بھی ہزار منہ ہوتے ہیں جو ’’فردوس گم گشتہ‘‘کی خوش خبریاں صبح دوپہر شام سناتے ہیں اور عملاً ہر روز نیانیا دوزخ اور نئے نئے جہنم کا در کھلتاہے۔

گزشتہ سترسالوں میں سے وہ کونسا سال تھا جو خوش خبریوں سے بھرپور نہیں تھا اور اب وہ اعزاز ٹونٹی ٹونٹی کو حاصل ہے۔ نہایت ثقہ قسم کے وزیراعظم اور ان کے بہت زیادہ’’ثقہ‘‘ ہمنوا مژدہ سنا رہے ہیں کہ ٹونٹی ٹونٹی کا میچ ہم جیت چکے ہیں صرف ٹرافی کا ہاتھ میں آنا باقی ہے۔ٹونٹی ٹونٹی بلکہ امریکی لہجے میں ’’ٹوائیں ٹوائیں‘‘کاسال(ٹائیں ٹائیں نہیں)اپنے دامن میں فردوس وماویٰ باغ عدن اور گلشن ارم لیے ہوئے ہے، زیادہ فاصلے پرنہیں صرف دوگز زمین کے اندر جایئے اور  پایئے۔پہلے جایئے پہلے پایئے اور کسی بھی پیٹرول پمپ سے رجوع کیجیے کسی بھی محکمے ادارے کے بکنگ آفس سے ٹکٹ کٹوائیے۔جنت حاضرہے۔اس دن اپنے ایک چھوٹے نے پوچھا کیایہ مہنگائی اپنے اس مقام سے نیچے اترآئے گی۔

ہم نے سمجھایا کہ تم نے آج تک کسی ’’عروج‘‘کو اپنی مرضی سے ’’زوال‘‘کی طرف آتے دیکھا ہے۔ ترقی تو اسے کہتے ہیں چڑھنا اوپر اور اوپر اور اوپر۔ پھر اس نے کہا یہ مہنگائی اتنی تیزی سے اتنی اوپر کیوں چڑھی جارہی ہے۔ سمجھایا تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے مہنگائی اپنی جگہ ساکت ہے، نرخ بھی وہی ہیں چیزیں بھی اتنی ہیں صرف تم نیچے گررہے ہو، جاکر وزیرریلوے سے پوچھنا کہ جب ریل چلتی ہے تو ریل چلتی نظرآتی ہے یا کنارے کے پیڑ کھیت اور مکان پیچھے دوڑتے نظر آتے ہیں۔تم بھی اس وقت ریاست مدینہ ایکسپریس میں بیٹھے ہو اور ریل میں بیٹھنے والوں کو ریل بالکل چلتی نظرنہیں آتی ہے۔

اب یہ بات بھی شیخ رشید ہی بتاسکتے ہیں یا فردوس عاشق اعوان کہ یہ ریل گاڑی کہاں تک جائے گی اور کیایہ گاڑی ریورس میں بھی آسکتی ہے کم ازکم اب تک تو نہ سنا ہے نہ دیکھاہے کہ کبھی جانے والے بھی واپس آئے ہوں تویہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی غیبی طاقت ریل گاڑی کو انجن سمیت پیچھے لے آئے۔

اہل دانش وبینش کچھ بھی کہیں جرائم پرکتنے ہی فلسفے بگھاریں، نفسیات معاشیات اور اخلاقیات کے کتنے ہی گورکھ دھندے کھڑے کریں۔اصل’’میناثور‘‘کوچھپانے کے لیے کتنی ہی پیچیدہ بھول بھلیاں تعمیرکریں ’’جرائم‘‘ صرف ’’فصل‘‘ ہیں اصل چیز کھیت ہے گھاس کاٹنے سے وہ ختم نہیں ہوتی جڑیں اکھاڑنے سے ختم ہوتی ہیں ہل چلانے سے۔اوپر کی مٹی’’نیچے‘‘اور نیچے کی مٹی اوپرکرنا پڑتی ہے۔ علامہ اقبال جن پراس کھیت کا خواب دیکھنے کی تہمت ہے جب کہ ان جیسا جینئس بہت بڑا دماغ اور فلسفے میں علامہ ہونے والا شخص ایسا خواب دیکھ ہی نہیں سکتے ہیں لیکن ان کی باتوں کو بھی محض اموختہ بناکر رٹاجاتا ہے۔ورنہ بتاچکے ہیں کہ

جس کھیت سے دہقان کو میسر نہیں روزی

اس کھیت کے ہرخوشہ گندم کوجلادو

کیا یہاں دہقان کو روزی میسرہے سب سے زیادہ بھوکا تو دہقان کم بخت ہی ہے۔ کسی کو قحط کی وجہ معلوم کرنی ہو تو وزیروں مشیروں امیروں اور کبیروں کی ضحامت لحامت اور شحامت دیکھے۔اور ہاں علامہ ایک اور بات بھی کہہ چکے ہیں جس کے بھی برعکس کیاجارہاہے

میں ناخوش وبیزار ہوں مرمرکی سلوں سے

میرے لیے مٹی کا گھر ایک اور بنادو

بہرحال مجرم اور جرائم فصل ہیں، گھاس ہیں، جھاڑیاں ہیں، درندے ہیں۔اور جب تک جنگل رہے گا درندے پیداہوتے رہیں گے۔’’درندے‘‘اگر درندے ہوتے ہیں تواس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہوتا کہ وہ تو جبلت پرچلتے ہیں وہی کام کرتے ہیں جو ان کے اندر ڈالا گیاہے وہ اگردرندے نہیں ہوں گے تویہ فطرت کی خلاف ورزی ہوگی، زہر اگرزہر کاکام نہ کرے تویہ اس کی بغاوت اور اپنی فطرت کی خلاف ورزی ہوگی۔اور جولوگ زہر سے تریاق کی توقع رکھتے ہیں وہ سراسر احمق ہوتے ہیں

درمیان قعردریا تختہ بندم کردہ ای

باز می گوئی کہ دامن ترمکن ہشیارباش

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔