فواد چوہدری سے ایک مکالمہ

مزمل سہروردی  جمعرات 27 فروری 2020
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری بھی ایک دلچسپ شخصیت کے مالک انسان ہیں۔ ان کی شخصیت کے جو پہلو حالیہ دور میں سامنے آئے ہیں کئی دہائیوں پر محیط تعلقات میںبھی میں ان سے ناآشنا ہی تھا۔ اب نواز شریف کی صحت کے معاملہ پر انھوں نے جس طرح اپنی ہی پنجاب حکومت پر چڑھائی کی اس کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ان کے ٹوئٹ نے ہرطرف ہلچل مچا دی۔ یہ سمجھنے کے لیے وہ کیا چاہتے ہیں، میں نے ان سے ملنے کا فیصلہ کیا۔

میں نے جاتے ہی پہلا سوال پوچھا کیا کر رہے ہیں۔ ہر متنازعہ بات کر رہے ہیں۔ کیا خبروں میں رہنے کا یہی ایک طریقہ رہ گیا ہے۔ وہ مسکرائے کہنے لگے نہیں یہ متنازعہ بات کہنے کا معاملہ نہیں ہے۔ ہم اس وقت اقتدار میں ہیں۔ خبروں میں رہنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی تو خیال رکھیںکہ اس دور کی بھی تاریخ لکھی جائے گی۔ جو بات اس دور میں بھی غلط ہو گی اس کو غلط ہی لکھا جائے گا۔ میں یہ کوشش کرتا ہوں کہ جب مورخ اس دور کی تاریخ لکھے تو یہ لکھے کہ میں درست سمت میں تھا ۔ اس میں متنازعہ بات کہنے والی کوئی بات نہیں۔ ایشو کی بات ہے۔ میں اپنا موقف بیان کرتا ہوں۔ اس لیے اس کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

میں نے کہا حکومت خطرے میں ہے۔ لوگ حکومت جانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ تبدیلی کی بازگشت ہے۔ فواد چوہدری مسکرائے اور پھر کہنے لگے حکومت جانے کے دو تین فیکٹر ہوتے ہیں۔ اگر حکومت کی اسٹبلشمنٹ سے لڑائی ہو جائے تو حکومت جاسکتی ہے۔اس وقت موجودہ حکومت کے اسٹبلشمنٹ سے بہترین تعلقات ہیں۔ اس محاذ سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔

دوسری صورت ہے کہ اپوزیشن حکومت کو گرا دے۔ موجودہ اپوزیشن اتنی طاقتور نہیں کہ اپنے طور پر حکومت کو گرا سکے۔ اپوزیشن تقسیم ہے، کرپشن کے مقدمات میں پھنسی ہوئی ہے۔ یہ اپنے مقدمات تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ وہ کوئی سیاست نہیں کر رہے۔ اپوزیشن اور عوام کے درمیان ایک فاصلہ نظر آرہا ہے۔ اس لیے ہماری حکومت کو نہ تو اپوزیشن سے کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی اسٹبلشمنٹ سے کوئی خطرہ ہے۔

میں نے کہا پھر سب ٹھیک چل رہا ہے۔ انھوں نے کہا میں یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ سب ٹھیک چل رہا ہے۔ ہماری حکومت کو سب سے بڑا چیلنج گورننس اور ڈیلیوری کا ہے۔ گورننس کے مسائل نے ہماری حکومت کو مشکل میں ڈالا ہوا ہے۔ ہم ان مسائل پر ابھی تک قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔

میں نے کہا آپ گورننس کے مسائل کو کس طرح بیان کریں گے۔ انھوں نے کہا ہماری حکومت پنجاب کو مائنس کر کے ڈیلیو ری دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ جو ممکن نہیں ہے۔ میں تو یہ مانتا ہوں کہ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہی نہیں ہے۔ ہم ابھی اپوزیشن میں ہیں۔ آپ دیکھیں ہم نے اپوزیشن کے دور میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ملزمان کو سزا دلوانے کے لیے کتنی جدو جہد کی ہے۔ ہم نے شہباز شریف دور کے تمام افسران ہی دوبارہ لگا دیے ہیں۔ جس کی وجہ سے ن لیگ پنجاب میں اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے بھی اقتدار میں ہے۔ جب چیف سیکریٹری ان کا ہے تو حکومت بھی ان کی ہے۔ میں نے کہا عثمان بزدار تبدیل ہو رہے ہیں۔ انھوں نے کہا نہیں عثمان بزدار تبدیل نہیں ہو رہے ہیں۔ وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہیں گے۔

میں نے کہا پنجاب میں چیف سیکریٹری اور پنجاب کابینہ کے درمیان تناؤ بھی چل رہا ہے۔ فواد چوہدری نے کہا پنجاب کو چلانے کے لیے جو ماڈل بنایا گیا  وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس سے مسائل حل نہیں ہونگے بلکہ مسائل میں اضافہ ہی ہوگا۔ آپ صوبائی کابینہ کی بات کرتے ہیں ارکان اسمبلی بھی ناراض ہیں۔ اس لیے معاملہ زیادہ خراب بھی ہو سکتا ہے۔میں نے کہا ارکان اسمبلی عمومی طور پر کیا صرف پنجاب حکومت سے ہی ناراض ہیں تو انھوں نے کہا نہیں مرکز میں بھی مسائل ہیں۔ لیکن پنجاب کی ایک بڑی حکومت ہے۔ میرا موقف ہے کہ اس حکومت کو مائنس کر کے ڈیلیوری دینے کی تمام کوششیں ناکام ہوںگی۔

میں نے کہا ن لیگ کی دوبارہ ہوا بن رہی ہے، لوگ شہباز کی باتیں کر رہے ہیں۔ فواد چوہدری نے کہا کہ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے، ن لیگ میں تو ابھی اندر بہت لڑائی ہونی ہے۔ وہاں مریم شہباز کی لڑائی ہے۔ شاہد خاقان شہباز کی لڑائی ہے۔ خواجہ آصف اور شہباز کی بھی لڑائی ہے۔ ابھی وہاں اس لڑائی کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ جب ن لیگ میں یہ طے ہوگا کہ آگے قیادت کس نے کرنی ہے پھر ہی کوئی بات ہو سکتی ہے۔ جب تک وہاں قیادت کا بحران ہے آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ شہباز آرہا ہے۔ شہباز آنے کی کوشش بھی کرے گا تو اس کی جماعت ہی اس کو کھا جائے گی۔

میں نے کہا یہ اتحادی کی ناراضگی کو کیسے دیکھتے ہیں۔ انھوں نے کس اتحادی حکومت میں اتحادی ناراض نہیں ہوتے۔ لیکن یہ ناراضگیاں تب تک خطرناک نہیں ہیں جب تک کوئی اسٹبلشمنٹ یا اپوزیشن حکومت گرانے کے چکر میں نہ ہوں۔ جو نہیں ہے۔ اس لیے اتحادیوں کی ناراضگی سے بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ میں نے کہا نواز شریف ملک سے باہر چلے گئے۔ شاہد خاقان، احسن اقبال کی ضمانت ہو گئی۔ آپ پھر بھی نہیں سمجھتے ماحول بدل رہا ہے۔ انھوں نے کہا نہیں۔ نواز شریف کے باہر جانے سے ہمیں بھی نقصان ہوا ہے لیکن نواز شریف کو بھی نقصان ہوا ہے۔ معاملہ ففٹی ففٹی رہا ہے۔ جہاں تک ضمانتوں کا تعلق ہے تو گرفتاریاں اور ضمانتیں چلتی رہیں گی۔ آپ سب کو اس کا عادی ہوجانا چاہیے۔

میں کہا سائنس و ٹیکنالوجی کیسی چل رہی ہے۔ انھوں نے کہ لندن کے سارے پاکستانی نژاد سائنسدان پاکستان آرہے ہیں۔ صدر پاکستان ان کو عشائیہ دے رہے ہیں۔ وہ وزیر اعظم سے بھی ملیں گے۔ ہم انھیں پاکستانی یونیورسٹیوں میں لے کر جا رہے ہیں تا کہ ان کے پاکستان سے رابطے مضبوط ہو سکیں۔ ہم ان سے فائدہ اٹھا سکیں۔

میں نے کہا کرونا وائرس کا کیا بن رہا ہے۔ ہمارے ہمسائے میں تمام ممالک میں آگیا ہے۔ لیکن ابھی پاکستان نہیں آیا۔ فواد چوہدری نے کہا ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں کرونا وائرس کا کوئی کیس نہیں ہے۔ بہر حال ہم پاکستان کے تمام سائنسدان اکٹھے کر رہے ہیں تا کہ کرونا وائرس پر پاکستان میں ایک جامع پالیسی بنائی جا سکے۔ ہمیں اس سے نبٹنے کے لیے بھر پور تیاری کرنی ہوگی۔ ہم بس اس کا انتظار نہیں کر سکتے۔ فواد چوہدری سے باتیں توبہت ہو سکتی تھیں۔ لیکن وقت کی قلت کی وجہ سے ملاقات ختم کرنی تھی۔ اس لیے یہ طے ہوا باقی گپ شپ دوبارہ لگائی جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔