پاکستانیو! زندہ قوم بننے کا نادر موقع ہے

شاہد کاظمی  ہفتہ 29 فروری 2020
کورونا وائرس سے نمٹنے کی حکمت عملی سے چینیوں نے ثابت کیا کہ وہ زندہ قوم کیسے بنے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کورونا وائرس سے نمٹنے کی حکمت عملی سے چینیوں نے ثابت کیا کہ وہ زندہ قوم کیسے بنے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عرض کر کرکے لکھاری، دانشور، فیصلہ ساز، اثر انداز ہونے والے بھی تھک گئے کہ قومیں سانحات سے جنم لیتی ہیں۔ اس جنم لینے کو ایسا نہ سمجھیے کہ سانحہ ہوا اور نئی قوم تیار ہوگئی۔ بلکہ قومیں اپنی پہچان سانحات، حادثات، آفات پڑنے پر ثابت کرتی ہیں۔

کسی بھی مشکل یا پریشانی پر قومیں ایسا رویہ اپناتی ہیں کہ دنیا اُن کی مثالیں دینا شروع کردیتی ہے۔ اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ صرف آسانیاں کسی کا نصیب نہیں ہوسکتیں۔ لہٰذا مشکلات آن پڑیں تو ان مشکلات سے نمٹنے کا فن کسی بھی قوم کو عظیم قوم میں تبدیل کردیتا ہے۔ اس کی مثالیں موجود ہیں کہ 65 کی جنگ میں پاکستانی قوم نے کس طرح یکجان ہو کر افواج کا ساتھ دیا اور دنیا نے دیکھا کہ عددی برتری یا وسائل فتح کے درمیان نہ تو رکاوٹ ہوسکتے ہیں نہ ہی وجہ۔

شمالی کوریا، ویتنام، ایران، عراق، جاپان کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ان میں سے واضح اور روشن مثال جاپانیوں کی ہے کہ مکمل تباہ حالی کے بعد آج دیکھیے جاپان کہاں کھڑا ہے؟ آپ سوئی تک خریدتے ہیں تو اس پر میڈ اِن جاپان نظر آتے ہی آپ اس کی کوالٹی کے حوالے سے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ یعنی قومیں جب مسائل سے سرخرو ہوکر نکلتی ہیں تو ان کی شان ہی نرالی ہوجاتی ہے۔

کورونا وائرس نے چین کے شہر ووہان میں پنجے گاڑ لیے۔ پوری دنیا کی نظریں چین پر جم گئیں۔ وائرس پوری دنیا میں رفتہ رفتہ پھیلنا شروع ہوگیا۔ لیکن چینیوں نے ثابت کرنا شروع کردیا کہ وہ زندہ قوم کیسے بنی۔ کچھ اطلاعات آئیں ذخیرہ اندوزی یا مہنگائی کی تو اس کا سختی سے قلع قمع کیا گیا۔ ہزار بستروں کا اسپتال صرف سات دن میں بن گیا۔ نرسنگ اسٹاف مہینوں گھر والوں سے دور ہے۔ ووہان سے دیگر ممالک کے شہریوں کا انخلا شروع ہوگیا لیکن چینی کوئی کیا ووہان سے نکلا یا آپ نے خبر سنی؟ معدودے چند افراد ہی شائد شہر چھوڑ کرگئے۔ مجموعی طور پر چین کی پوری انتظامیہ، مشینری، وسائل کا رخ ووہان کی جانب ہے اور حکومت وقت نے دو بڑے اسپتال دنوں میں بنادیے متاثرہ علاقے میں۔ مریضوں کو بہترین طبی سہولیات دی جارہی ہیں۔

کورونا وائرس نے دنیا کے چھیالیس سے زائد ممالک کا رخ کیا اور ہر ملک نے اس حوالے سے بہتر اقدامات کرنے کی کوشش کی۔ تمام ممالک کے عوام اس ناسور سے نمٹنے میں متحد نظر آئے۔ پاکستان میں یہ وائرس اس خطے کے حوالے سے دیکھیں تو سب سے آخر میں آیا۔ اور آخری اطلاعات کے مطابق کراچی اور اسلام آباد میں اس بیماری کا ایک ایک مریض موجود ہے۔

لیکن یہاں ایک لمحہ ذرا پاکستانی قوم کا مجموعی مزاج و رویہ ملاحظہ کیجیے۔ مثبت اقدامات کے بجائے قومی سطح پر اشیا کی قلت کا واویلا مچنا شروع ہونے لگا ہے۔ ایک مخصوص ماسک اس حوالے سے سامنے آیا تو مارکیٹ میں اس کی قیمت سو گنا سے بھی زیادہ بڑھ چکی ہے۔ حکومت کا راگ کہ پریشانی کی کوئی بات نہیں، اپنی جگہ درست ہے۔ لیکن اس حوالے سے حکومتی امور میں بھی انقلابی فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ پروٹوکول کچھ کم کرکے تمام وسائل کا رخ عوام کی طرف کیوں نہیں موڑا جاسکتا۔ وائرس ہاتھی کے سائز کا تو ہے نہیں کہ کہا جائے کہ ماسک سے بھی مکمل بچاؤ ممکن ہے لیکن کم از کم حکومت اگر آٹے کے تھیلے سرکاری نرخوں پر تصاویر کے ساتھ مہیا کرسکتی ہے تو اسے اس حوالے سے بھی فیصلہ کیوں نہیں اب تک کرلینا چاہیے تھا کہ فلاں فلاں جگہ سے یہ ماسک اس قیمت میں دستیاب ہوں گے۔ کمیٹی والے ریڑھی بانوں کو اٹھخ پٹخ کرکے ٹرک بھر لیتے ہیں تو ایسا کیوں ممکن نہیں کہ پورے ملک میں ہنگامی بنیادوں پر عملہ تعینات کیا جائے۔ ہیلپ لائن قائم کی جائے کہ جہاں اور جن سے قیمتوں میں اضافے کی شکایت کی جاسکے۔

قوموں کے پاس اپنا آپ ثابت کرنے کےلیے قدرت کی جانب سے بعض اوقات مواقع میسر آتے ہیں۔ لیکن ہمیں شائد یہ مواقع بھی منافع کمانے کے محسوس ہوتے ہیں۔ آپ اندازہ لگائیے کہ ابھی پورے ملک میں صرف دو مریض سامنے آئے ہیں اور پورا ملک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہوچکا ہے۔ نہ کوئی نظام ہے، نہ چیک اینڈ بیلنس کہ ایک ماسک کی قیمت آسمان کو چھونے لگی ہے۔ اللہ نہ کرے کسی آفت یا پریشانی کا دورانیہ بڑھنا شروع ہوگیا تو یہاں تو کھانے کی چیزیں بھی لاکھوں میں ملنا شروع ہوجائیں گی۔

اکثر دعوے سننے کو ملتے ہیں کہ مجھے موقع دیا جائے میں ملک کی تقدیر بدل دوں گا۔ ملک کو ایسے آگے لے جاؤں گا کہ دنیا حیران ہوجائے گی۔ کبھی کوئی سیاستدان دعوے کرتا ہے تو کبھی کوئی سیٹھ۔ لیکن ہنگامی حالات میں یہ کیا ستو پی کر سوجاتے ہیں؟ آج کوئی سیاستدان، کوئی کاروباری سیٹھ، کوئی فلاحی کام کرنے والا سرخیل کیوں ایسا دعویٰ کرتا نظر نہیں آتا کہ بھئی میں پوری قوم کو یہ ماسک فراہم کروں گا۔ حکومت طفل تسلیوں کے بجائے صرف ہنگامی حالات میں اپنی رٹ قائم کرنا ہی شروع کردے تو عوام اس سے مطمئن ہوجائیں گے۔ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں، لیکن کیا ایک ایٹمی قوت میں ہر مشکل یا پریشانی میں ایسی ہی ہیجانی کیفیت ہوتی رہے گی؟ اگر ایسا ہے تو کیا فائدہ ایسی طاقت کا؟

پاکستان کے باسیو! اے پیارے پاکستانیو! تمہارے پاس تو زندہ قوم بننے کا نادر موقع موجود ہے۔ 65 کی فتح کا راگ الاپنا اب بس کردیجیے۔ بلکہ اپنے آپ کو اس قابل کیجیے کہ ہر مشکل میں 65 والا جذبہ نظر آئے۔ پاکستانیو! آؤ اپنی روش بدل ڈالو۔ عہد کرلو کہ چاہے کورونا وائرس ہو یا کوئی اور مشکل، ہم ذخیرہ اندوزی نہ خود کریں گے نہ دوسروں کو کرنے دیں گے۔ ہم ناجائز منافع نہ خود کمائیں گے نہ دوسروں کو ناجائز منافع خوری کی اجازت دیں گے۔ کان پک گئے سن سن کر کہ ہم نے 65 کی جنگ میں زیور بیچے۔ ارے پیارے پاکستانیو! اب ایسا کیا ہوگیا کہ کسی مشکل میں زیور بکنے کے بجائے لوٹ مار کا بازار گرم ہوجاتا ہے؟ اب ایسا کیا ہے کہ ہم ہر مشکل کو کمائی کا ذریعہ بنالیتے ہیں۔ سیلاب آجائے تو چیزیں مہنگی، زلزلہ آجائے تو چیزیں مہنگی، کوئی آفت ٹوٹ پڑے تو اشیا کی قیمتیں آسمان پر۔ اب کورونا آیا تو ادویہ و ضروری سامان کی قیمتیں چڑھتی جارہی ہیں۔ ہم نہ جانے زندہ قوم کسے کہتے ہیں۔ ہمارے پاس تو ایسے ہزاروں مواقع آتے ہیں لیکن ہم لالچ، ہوس، کینہ، بغض، مفاد، جیسی لعنتوں میں گھرے ہوئے ایسے مواقع اپنے ہاتھوں سے گنوا دیتے ہیں۔ چین کا میڈیا دیکھیے کیسے وہ اپنے مثبت پہلوؤں کو دنیا کے سامنے لارہا ہے۔ اور ہم مزے سے ان کی ویڈیوز اور تصاویر شیئر کرتے ہوئے لائیکس ملنے پر خوشی کے شادیانے بجا رہے ہوتے ہیں، لیکن دوسری جانب منافقت کی انتہا کو چھو رہے ہیں۔

زندہ قومیں خوشی کے لمحات میں اپنا آپ ثابت نہیں کرتیں، بلکہ مشکلات قوموں کو دنیا میں وقار دیتی ہیں۔ نامساعد حالات میں جب قومیں اخلاقیات، حب الوطنی، خیال، محبت، احساس اپنا چلن بناتی ہیں تو تاریخ ایسی قوموں کو زندہ شمار کرتی ہے۔ پیارے پاکستانیو! یہ زندہ قوم بننے کا نادر موقع ہے۔ افراتفری پھیلانے کے بجائے ان حالات میں ایک دوسرے کا ساتھ دے کر خود کو زندہ قوموں کی فہرست میں لکھوا لو۔ پاکستانیو! اس مشکل کی گھڑی میں ضرورت مندوں کی مدد کرکے اپنے آپ کو زندہ قوم ثابت کردو۔ ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے ثابت کردو کہ آج بھی یہ قوم 65 والی ہی ہے۔ جعلی خبروں سے ملک میں ہنگامی حالات پیدا کرنے کے بجائے حقیقت جانتے ہوئے اس وائرس کی لعنت سے نمٹ کر دنیا کو دکھادو کہ تم چاہو تو سب کچھ کرسکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شاہد کاظمی

شاہد کاظمی

بلاگر کی وابستگی روزنامہ نئی بات، اوصاف سے رہی ہے۔ آج کل روزنامہ ایشیئن نیوز اور روزنامہ طاقت کے علاوہ، جناح و آزادی کے لیے بھی کالم لکھتے ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ بلاگر سے ان کے فیس بک پیج www.facebook.com/100lafz پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔