ماسک کی قیمت اور موقع پرستی

مناظر علی  جمعـء 28 فروری 2020
دکاندار حسب معمول یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں ماسک مہنگا مل رہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

دکاندار حسب معمول یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں ماسک مہنگا مل رہا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

شاید مورخ یہ لکھے گا کہ جب پوری دنیا میں کورونا وائرس سے شہریوں کو بچانے کےلیے اقدامات ہورہے تھے، انہیں ویکسین کی تیاری کی فکر تھی، تو دنیا کے نقشے پر ایک ملک ایسا بھی تھا جہاں حکمرانوں سے شہریوں تک سب اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاکرام کو ماننے والے تھے، مگر وہی لوگ اللہ کے بندوں کی کھال مہنگائی کی چھری سے اتار رہے تھے۔ دو سے تین روپے میں ملنے والا ماسک اسی قوم کے لوگوں نے اتنا مہنگا کردیا تھا کہ عام آدمی کی قوت خرید جواب دے گئی۔ جب اس زمانے میں مورخ کی یہ بات پڑھی جارہی ہوگی تو اس زمانے کے لوگ پاکستان میں ماسک کے کاروبار سے وابستہ لوگوں کے بارے میں کیا کہیں گے؟

شاید یہ اب ہمیں احساس نہیں ہورہا کہ یہ کتنا سنگین جرم ہے۔ اگر اس سے ملتا جلتا کوئی جرم پچھلی قوموں کا کسی کتاب میں پڑھ لیں تو اس کے بارے میں سوچیں۔ چاہے ایک لمحے کےلیے ہی سہی، غوروفکر ضرور کریں تو پھر سمجھ میں آجائے گا کہ ہم کتنے بڑے موقع پرست ہیں۔ ہم کتنے بڑے ظالم ہیں اور ہم کتنے سنگدل ہیں کہ جب قوم کو ہماری ضرورت ہے تو ہم اسی مشکل گھڑی میں اپنی جیبیں بھرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ یہ کیسی مسلمانی ہے؟ یہ کیسی انسانیت ہے؟ اور یہ کیسی امت ہے؟

ہمیں اس پریشان کن حالت میں بھی قرآنی احکامات پر دھیان دینے کی فرصت نہیں۔ ہم پانچ وقت کے نمازی ہیں۔ ہم صرف حاجی ہی نہیں بلکہ الحاج ہیں۔ ہم ہر سال سبھی گھر والوں کو عمرے کراتے ہیں۔ ہم حج بھی ادا کرتے ہیں۔ ہم غریبوں کو کھانا بھی کھلاتے ہیں۔ ہم مفت کے دسترخوان سارا سال لگاتے ہیں۔ ہم رمضان میں پرتکلف افطاریوں کا بندوبست کرتے ہیں۔ ہم مساجد میں تلاوت کےلیے قرآن پاک رکھواتے ہیں تاکہ تھوڑے سے پیسے لگاکر ہمارے نیکیوں کے اکاؤنٹ میں کسی انشورنس پالیسی کی طرح بے شمار نیکیاں خودبخود ہی جمع ہوتی رہیں۔ ہم درباروں پر چادریں چڑھاتے ہیں۔ ہم عرس مناتے ہیں۔ ہم محفلیں، مجالسں کراتے ہیں اور ہم بزرگان دین کے مزارات پر حاضری کےلیے دور دراز کے سفر پر لاکھوں روپے بھی خرچ کرتے ہیں۔ نیت کیا ہوتی ہے؟ صرف یہ کہ خدا راضی ہوجائے۔ پھر آخر اس وقت ہماری سوچ کو کیا ہوجاتا ہے جب ہمارے مسلمان بھائی پر ہی مشکل وقت آتا ہے تو ہم اسی وقت کی پرستش شروع کرتے ہیں۔ منافع خوری سے باز نہیں آتے۔

آپ غور کریں تو جگہ جگہ ذخیرہ اندوز متحرک ہوچکے ہیں اور اخبارات، ویب سائٹس اور ٹی وی چینلز ماسک مہنگے ہونے اور قلت کی خبریں دے رہے ہیں۔ لاہور ایئرپورٹ پر ایک مسافر سے تینتالیس کلو وزنی ماسک برآمد ہوئے۔ کسٹم حکام نے تصدیق کی ہے کہ فیصل آباد کا مسافر یہ ماسک بنکاک لے کر جارہا تھا۔ اب صورتحال یہ پیدا ہوچکی ہے کہ دکاندار حسب معمول یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں ماسک مہنگا مل رہا ہے، اس لیے وہ بھی مہنگا فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ جب کہ وزارت صحت نے واضح کردیا ہے کہ یہ مہنگائی دکانداروں کی اپنی کی ہوئی ہے۔

جب یہ ذخیرہ اندوز صبح کے وقت اپنے کاروبار کو سنبھالنے جاتے ہیں تو کیا کہتے ہوں گے؟ یہ کہ یا اللہ ہمیں رزق حلال عطا فرما، یا اللہ ہمارے رزق میں برکت عطا فرما، یا اللہ ہمیں حرام کے لقمے سے بچا۔ اگر وہ یہی کہتے ہیں تو پھر زبان سے ادا ہونے والے ان الفاظ کے بعد کیا انہیں ضمیر ملامت نہیں کرتا کہ جس ماسک کو انہوں نے انتہائی کم قیمت میں خریدا تھا، اب وہ کس حساب سے انتہائی زیادہ قیمت وصول کرسکتے ہیں؟

اگر میری یہ تحریر کوئی ماسک کے کاروبار سے وابستہ انسان پڑھ رہا ہے تو بھائی ایک بار سوچنا ضرور کہ یہ موقع پیسے کمانے کا ہے یا پھر حقیقت میں نیکیاں کمانے کا وقت ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مناظر علی

مناظر علی

بلاگر مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے نیوزروم سے وابستہ رہ چکے ہیں، آج کل لاہور کے ایک ٹی وی چینل پر کام کررہے ہیں۔ عوامی مسائل اجاگر کرنے کےلیے مختلف ویب سائٹس پر بلاگ لکھتے ہیں۔ ان سے فیس بک آئی ڈی munazer.ali پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔