مضبوط خاندان، مضبوط معاشرہ

روبینہ فرید  ہفتہ 29 فروری 2020
معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان ہے اور خاندان کی بنیادی اکائی مرد و عورت پر مشتمل ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان ہے اور خاندان کی بنیادی اکائی مرد و عورت پر مشتمل ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

معاشرے کی بنیادی اکائی خاندان ہے اور خاندان کی بنیادی اکائی مرد و عورت پر مشتمل ہے۔ خاندان کا ادارہ ان دو ستونوں کے بل پر کھڑا ہوتا ہے اور ان کی مضبوطی اور توازن میں ہی اس کی بقا پوشیدہ ہوتی ہے۔ انسانی جسم و روح دونوں کا مجموعہ ہے اور اسے جسمانی ضروریات کی تکمیل کے ساتھ روحانی خواہشات کی تسکین بھی درکار ہوتی ہے۔ معاشرے میں موجود انسانوں کے درمیان قائم رشتے اور ان رشتوں میں موجود پیار و محبت اس کی روحانی سیرابی کا باعث ہوتا ہے۔ ان رشتو ں کو نبھانے کےلیے اختیار کی جانے والی صفات ہی اقدار و روایات کو جنم دیتی ہیں، جو ہر معاشرے کی پہچان ہوتی ہیں۔

گزشتہ کئی سال سے عورت کو بااختیار بنانے کے جس عالمی ایجنڈے کے تحت پاکستان کی پالیسیز بنائی گئیں، ان میں سب سے زیادہ زور عورت کی معاشی خودانحصاری اور ہر شعبہ زندگی میں اس کی بڑی تعداد میں نمائندگی پر دیا گیا۔ آج بیس پچیس سال بعد ہم دیکھتے ہیں کہ بلدیاتی سطح ہو یا قومی و صوبائی اسمبلی کے ادارے، عدالت ہو یا میڈیا، سرکاری و نیم سرکاری ادارے ہوں یا پرائیویٹ کمپنیاں، تجارتی ایوان ہوں یا تعلیمی ادارے، ہر جگہ پاکستانی عورت پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں اپنے فرائض سرانجام دیتی نظر آرہی ہے۔ حکومتی سطح پر تھوڑی سی حوصلہ افزائی نے ہی اسے ایسی اڑان دی ہے کہ آج وہ تعلیم کے میدان میں لڑکوں کو پیچھے چھوڑتی نظر آتی ہے۔ نتیجتاً معاشی لحاظ سے بھی وہ آج بڑی حد تک خود انحصار اور مضبوط ہوچکی ہے۔

یہ مناسب وقت ہے کہ ہم اس بات کا تجزیہ کرسکیں کہ عورتوں کی بہتر تعلیم اور معاشی خودانحصاری نے کیا اس کو حقیقی مسرت عطا کی اور معاشرے کی مجموعی صورتحال میں اس سے کتنی بہتری آئی؟ اگرچہ اسلام گھر بیٹھی عورت کو بھی نان نفقہ کی ادائیگی، مہر اور وراثت کے ذریعے مالی طور پر مضبوطی عطا کرتا ہے، لیکن معاشرے نے عورت کو سبق پڑھایا کہ جب تک تم پڑھ لکھ کر کمانے کے قابل نہیں بنو گی، مضبوط نہیں کہلا سکتیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ آج کی پڑھی لکھی مالی خودمختار عورت بھی مسائل کے جنگل میں گرفتار ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ معاشرے کی مجموعی فضا اور سانچے کو بہتر بنائے بغیر محض ایک اکائی کی بہتری پر سوچا گیا، جب کہ معاشرے کی ہر کڑی دوسری کڑی سے مربوط ہوتی ہے۔ دوسری بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ فکری تربیت کا عنصر معاشرے سے گویا ختم ہی ہو چلا ہے۔ پہلے ماں کی گود سے جس روحانی تربیت کا آغاز ہوتا تھا اور پھیلتے پھیلتے گھر والوں، ہمسایوں، استاد، خاندان کے بزرگوں اور کتابوں کے اسباق تک وسعت پا جاتا تھا اب بالکل سکڑ کر رہ گیا ہے۔ مال اور کیریئر کی دھن نے اخلاقی اقدار کو دھندلا دیا ہے۔ آج بچے کے امتحان میں نمبر کم آجائیں تو والدین انتہائی پریشان ہوجاتے ہیں لیکن اخلاق خراب ہوجائیں تو انہیں اس کی اتنی فکر نہیں ہوتی۔ تعلیمی ادارے بھی محض رسمی تعلیم فراہم کرنے کے مرکز بن گئے ہیں۔ استاد جس کردار کو جِلا بخشنے کا مرکز ہوتا تھا، وہ منصب آج اس سے چھن چکا ہے۔ وہ محض رسمی اسباق پڑھا دینے کو اپنی ذمے داری سمجھنے لگا ہے۔

اگرچہ فکری تربیت کی کمی لڑکے اور لڑکیوں دونوں کے لحاظ سے نقصان دہ ہے، لیکن ایک عورت چونکہ گھر اور نسل دونوں چلانے کی ذمے دار ہے۔ اس لیے اس کی فکری تربیت مزید اہم ہوجاتی ہے۔ گھر عورت کے صبر اور برداشت کے بل بوتے پر بنائے اور چلائے جاتے ہیں۔ ماں کی محبت اور قربانی کے باعث ہی اس کے اجر کو تین گنا رکھا گیا، جب کہ باپ معاش کمانے اور کھلانے کا ذمے دار ہوتا ہے۔ اگر عورت کی تعلیم اسے یہ شعور نہیں دے پائے کہ اس کے حقیقی فرائض کیا ہیں، خاندان میں اس کا کردار کیا ہونا چاہیے، رشتوں کو نبھانے کےلیے کون سی صفات درکار ہیں، تو یہ تعلیم اسے مادی خوشحالی تو دے سکتی ہے لیکن اس کی روح حقیقی خوشی حاصل نہیں کرسکتی۔

شوہر، بچے اور گھر پر عورت کی فطری خواہش ہے اور اسی میں اس کا سکون اور خوشی پوشیدہ ہے، لیکن یہ امر تشویشناک ہے کہ آج جیسے جیسے عورت کی تعلیم کا گراف بڑھ رہا ہے، گھر ٹوٹنے کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ اس میں محض عورت کی سوچ کی کمی کو ذمے دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا، کیونکہ رشتوں کو نبھانا دو طرفہ عمل ہے۔ لیکن مردوں کو بھی یہ سوچ گھر سے ہی مل سکتی ہے۔ جو ماں رشتوں کو نبھانے والی ہوگی، وہی اپنے بچوں کو یہ درس دے سکے گی۔

لڑکیوں کے تعلیمی میدان میں آگے بڑھ جانے کے باعث شوہر کے انتخاب میں ان کا معیار بھی بلند ہوچکا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ مرد و عورت کی برابری کا سبق پڑھنے والی عورت آج بھی شادی کے وقت اپنے سے زیادہ تعلیم یافتہ اور زیادہ کمانے والے مرد کو شادی کےلیے منتخب کرنا چاہتی ہے۔ تعلیم اور معاشی حالت میں کمزور رہ جانے والے لڑکوں کی تعداد میں اضافے کے باعث بہتر تعلیم یافتہ لڑکیوں کی شادیاں مسئلہ بنتی جارہی ہیں۔ ایک طرف ایسے لڑکے اور ان کے گھر والے اچھا کمانے والی لڑکی گھر لاکر مالی حالات بہتر بنانے کے خواہشمند ہوتے ہیں تو دوسری طرف لڑکی اپنی تعلیم اور کمائی کے زعم میں صبر و برداشت، تحمل اور گھر اور رشتے بنانے کےلیے درکار وقت، موڈ، مزاج، عادات کی قربانی دینے کےلیے تیار نہیں ہوتی۔ نتیجتاً گھر بسانا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ اور اگر سمجھوتے کے تحت ساتھ رہیں بھی تو گھر میں وہ پرسکون ماحول نہیں بن پاتا جس میں اگلی نسل کی بہترین تربیت ہوسکے۔

لازم ہے کہ ہم اپنے تعلیمی نصاب میں جہاں مردوں کےلیے عورتوں کے بارے میں ان کے فرائض کو بیان کریں، عورتوں کی عزت کا سبق دیں، رشتوں سے حسن سلوک کی ترغیب دیں، اُسوۂ رسولؐ کا سبق پڑھائیں، وہاں بچیوں کو ان کے فرائض کی تعلیم دیں۔ باپ، بھائی، شوہر کے پرتحفظ حصار کی اہمیت واضح کریں۔ اُسوۂ صحابیات کو سامنے رکھیں۔ گھرداری اور بچوں کی تربیت، اہل خانہ کی دیکھ بھال، خاندان کی اہمیت سامنے رکھیں۔ اس ضمن میں والدین، معاشرہ اور میڈیا پر بھی بہت ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ ہمیں اپنے معاشرے کو بہتر بنانا ہے تو اپنے اپنے فرائض کی بہترین بجاآوری پر توجہ دینی ہوگی۔ جب ہر ایک اپنے فرائض احسن طریقے سے ادا کرے گا تو سب کو اس کا حق بھی مل جائے گا۔ محض عورت یا مرد کی برتری اور ترقی کی بات کرنے کے بجائے ہمیں خاندان و معاشرے کی بہتری و فلاح کی بات کرنی چاہیے۔ مرد و عورت کو رشتوں سے بغاوت کے بجائے رشتوں سے محبت کا سبق دینے کی ضرورت ہے۔

’’تنہا انسان نہ روتا بھلا، نہ ہنستا بھلا‘‘۔ دنیا کی ہر خوشی اور اطمینان پیار کرنے والے رشتوں کی موجودگی ہی سے ہے۔ رشتے عطا کرنے والی ذات رب کی ہے، لیکن ان رشتوں کی محبت انسان خود ہی برقرار رکھنے کا ذمے دار ہے۔ عورت کے کندھوں کو مضبوط بنانے کے ساتھ مردوں کو بھی اونچی اڑان کا حوصلہ دیں کہ وہ عورتوں کے ضمن میں اپنی ذمے داریوں کو سمجھیں اور نان نفقہ، مہر اور وراثت کی ادائیگی سے ان کے حقوق کا تحفظ کریں۔ اللہ نے انہیں قوام بنا کر احترام، تحفظ اور نگرانی کا فرض سپرد کیا ہے۔ ان کی جانب سے عورتوں کی ذرا سی حوصلہ افزائی و شفقت کا معاملہ خاندان بھر کو رشتوں کی شیرینی عطا کرے گا۔ جس کا پھل وہ اور ان کی اگلی نسل چکھے گی۔ طاقت سے محض سر جھکائے جاسکتے ہیں جب کہ محبت سے دل فتح ہوجاتے ہیں۔ رشتوں کی خوبصورتی ایک دوسرے کی بات کو برداشت کرنے میں ہے۔ بے عیب انسان کی تلاش انسان کو تنہا کردیتی ہے۔

لڑکیوں کو چاہیے کی کیریئر اور خاندان میں سے ترجیح خاندان کو دیں اور خاندان والوں کو چاہیے کہ کیریئر بنانے میں لڑکیوں سے تعاون کریں۔ باہمی ادب و احترام اور اعتماد و حوصلہ افزائی سے معاشرہ کو انتشار سے بچایا جاسکتا ہے۔ اپنے کردار سے ان اخلاقی اقدار و روایات کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے جو ہمارے معاشرے کا اثاثہ ہے۔ میڈیا کی ذمے داری ہے کہ وہ مرد و عورت کو متحارب فریق بنا کر پیش کرنے سے گریز کرے اور ان کے مابین رشتے کی مضبوطی کو اجاگر کرے۔ نیز حکمرانوں کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ عالمی ایجنڈے کو اپنے ملک میں نافذ کرتے وقت اپنے دین اور اپنی تہذیب کی تعلیمات کو نظر انداز نہ کریں۔ خاندان دوست قوانین اور پالیسیز کو نافذ کریں تاکہ معاشرہ بہتر روایات کے ساتھ پھل پھول سکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

روبینہ فرید

روبینہ فرید

بلاگر گزشتہ بیس سال سے خواتین کےلیے کام کرنے والی این جی او سے وابستہ ہیں اور اس حوالے سے ریسرچ ورک اور مضامین لکھنے کا شوق رکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔