حسنی مبارک (مرحوم) مصری عوام کا جوابدہ!

علی احمد ڈھلوں  جمعـء 28 فروری 2020
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

مصر کے سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک 91 برس کی عمر میں انتقال کر گئے، مخالفین انھیں فرعون کا خطاب دیتے تھے۔ حسنی مبارک شاہ مصر فاروق کے دور میں انیس سو پچاس میں مصر کی فضائیہ میں شامل ہوئے۔ چار سال بعد جمال عبدالناصر نے شاہ فاروق کا تختہ الٹ کر حکومت سنبھال لی۔ انیس سو چونسٹھ میں حسنی مبارک کو سوویت یونین میں ملٹری اتاشی مقرر کیا گیا۔ انیس سو تہتر کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد انھیں ایئر مارشل بنا دیا گیا۔

انیس سو پچھتر میں صدر انورالسادات نے حسنی مبارک کو نائب صدر مقرر کیا اور پھر اپنا جانشین نامزد کر دیا۔ انیس سو اکیاسی میں انورالسادات کے قتل کے بعد حسنی مبارک ملک کے صدر بن گئے۔ انورالسادات کو ایک فوجی پریڈ کے دوران اسرائیل سے امن معاہدے کی پاداش میں قتل کیا گیا اور حسنی مبارک اس وقت ان کے ساتھ بیٹھے تھے۔ اس حملے میں حسنی مبارک کا ہاتھ زخمی ہوا لیکن جان بچ گئی۔

انیس سو اسی کی دہائی میں مصر دیوالیہ ہونے کے قریب تھا اور اس نے عالمی اداروں سے لیے گئے قرض کی قسطیں ادا کرنا بند کر دی تھیں۔ صدر حسنی مبارک نے کویت عراق جنگ میں فوجی دستے بھجوانے کی ہامی بھر کر ملک کو قرضوں سے نکالا۔ دو ہزار چار میں سرکاری املاک بیچنے کا آغاز کیا اور دو ہزار نو تک ملک میں چالیس ارب ڈالر براہ راست بیرونی سرمایہ کاری آئی۔ کویت جنگ میں کود کر قرضے معاف کرانا اور اثاثے بیچ کر چالیس ارب ڈالر لانا بھی حسنی مبارک کو مقبول رہنما نہ بنا سکا۔ مصر میں دو ہزار آٹھ میں مہنگائی کی شرح بیس فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ حسنی مبارک کے حامی مہنگائی کا ذمے دار پچھلی حکومتوں کو قرار دیتے تھے۔

امریکا سے ہر سال ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر کی امداد کے باوجود عوام کے ریلیف کے لیے کچھ نہ کیا گیا ۔ اخوان المسلمین حسنی مبارک کے دور میں ان کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے مقبول جماعت بن کر ابھری۔ حسنی مبارک نے دو ہزار پانچ میں اپنے مقابلے میں کئی امیدواروں کو صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی مگر مقابلے میں کوئی حقیقی امیدوار نہ ابھر سکا۔پھر عرب بہار کا آغاز ہوا۔ سیکولر سیاست دانوں، ججوں،  ایڈیٹروں، بلاگرز اور مظاہرین پر کریک ڈاؤن کیا گیا۔اس کریک ڈاؤن کے ساتھ حسنی مبارک کی گرفت مزید ڈھیلی پڑ گئی۔ ٹویٹر اور فیس بک پر اس تحریک نے عوام کو متحرک کیا اور انھیں سڑکوں پر لے آئے۔ حسنی مبارک نے کسی کو اپنا جانشین نامزد نہیں کیا تھا؛ جنوری 2011 میں انٹیلی جنس چیف کو نائب صدر مقرر کیا۔

حسنی مبارک اقتدار کے ساتھ اس لیے بھی چمٹے رہے کیوں کہ سپر پاور طاقتیں انھیں اقتدار میں دیکھنا چاہتی تھیں، وہ چاہتی تھیں کہ مصر کا ہمسایہ اسرائیل اسی صورت میں خطے پر اثر ورسوخ قائم کر سکتا ہے جب مصر ساتھ دے۔ اس لیے سعودی عرب نے بھی حسنی مبارک کا بھرپور ساتھ دیا۔ اور امریکا بھی پیٹھ تھپتھپانے میں پیچھے نہیں رہا۔ مگر جب اقتدار کے بچنے کی امید ہی نہیں رہی تو وہائٹ ہاؤس والوں کا خون بھی سفید ہوگیا۔ حسنی مبارک کے مستعفیٰ ہونے سے تین چار دن قبل روزانہ وہائٹ ہاؤس میں اجلاس تو ہوتے رہے تاہم سابق صدر بارک اوباما یا ان کے ترجمان نے واضح طور پر کچھ کہنے سے گریز کیا۔ تیونس کے عوام نے جب صدر زین العابدین بن علی کو فرار پر مجبور کیا تب امریکا نے اپنے ہونٹوں پر لگی چپ کی مہر توڑی اور عوام کو سراہنا شروع کر دیا۔

جن لوگوں کو دبائے رکھنے کے لیے زین العابدین بن علی کو امریکا نے عشروں پالا ان کے حق میں امریکی انتظامیہ کو بولنا پڑا۔ مصر کے معاملے میں بھی کچھ کچھ ایسا ہی ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ کسی بھی وقت امریکی حکام ایسے بیانات داغنا شروع کر دیں گے جن میں یہ کہا جائے گا کہ مصر میں عوام نے جو کچھ کیا وہ درست تھا اور یہ کہ امریکی انتظامیہ مصری عوام کے عزم کو سلام کرتی ہے! بہرکیف اس خیال سے حسنی مبارک کے خلاف تحریک مزید زور پکڑ گئی‘ جو ان کے اقتدار کے خاتمے پر منتج ہوئی۔

حسنی مبارک کے انتقال پر ان کے خلاف صدارتی الیکشن لڑنے اور اس کی پاداش میں جیل کا سامنا کرنے والے ایمن عبدالعزیز نور نے کہا کہ لوگوں کی زندگی میں ان کے سامنے کھڑا ہونا ان کے مرنے کے بعد ان کے خلاف بات کرنے سے بہتر ہے، اس لیے وہ اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر انھیں معاف کرتے ہیں لیکن مصر اور مصری عوام کے ساتھ کی گئی زیادتیوں پر انھیں اللہ کے حضور جواب دینا ہو گا۔

لہٰذاہم جو دنیا میں انفرادی حیثیت میں کچھ اچھا یا برا کرتے ہیں تو وہ ہمارا اور اللہ کا معاملہ ہوتا ہے لیکن اگر آپ اجتماعی طور پر کسی کے بارے میں غلط سوچتے یا ان کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں یا ظلم کرتے ہیں تو یہ بات یقینا سخت ناپسندیدہ ہے جس کا کفارہ بھی ادا نہیں کیا جا سکتا! اس لیے حسنی مبارک کی طرح ہمارے حکمرانوں کو بھی جوابدہ ہونا ہے کہ وہ عوام کے حقوق سلب کر کے ان کے ساتھ زیادتی کا مرتکب ہوتے رہے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔