اردو کے شاہکار خاکے

رفیع الزمان زبیری  جمعـء 28 فروری 2020

خلیل احمد نے ’’ اردو کے شاہکار خاکے‘‘ کے عنوان سے جو کتاب مرتب کی ہے، اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں جن مشہور شخصیتوں کے خاکے ہیں وہ تمام تر مشہور شخصیتوں کے لکھے ہوئے ہیں۔ خلیل احمد نے جن کی تعریف بشریٰ رحمن نے یہ کہہ کر کی ہے کہ وہ ایک انتہائی محنتی اور مشفق نوجوان ہیں ان شخصی خاکوں کے انتخاب میں یہ کوشش کی ہے کہ ہر شعبہ زندگی کا خاکہ اس کتاب میں شامل ہو۔

احمد فراز کا خاکہ اسلم فرخی نے لکھا ہے۔ لکھتے ہیں کہ فراز بڑا ہر دل عزیز شاعر تھا، بڑا مقبول مشاعر تھا۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ مجھے ڈاکٹروں کی ایک محفل میں ہوا۔ معروف شاعر عرفان ستار نے یہ تقریب منعقد کی تھی۔ بہت بڑا مجمع تھا، بے شمار ڈاکٹر محفل میں موجود تھے، فراز نے پڑھنا شروع کیا تو سماں بندھ گیا۔ کسی کو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔

فراز پڑھتا رہا۔ غزل پر غزل، نظم پر نظم۔ محفل تھی کہ جھوم رہی تھی۔ دل نہیں چاہتا تھا کہ محفل ختم ہو۔ گوہر تاج انیتا غلام علی کے بارے میں لکھتی ہیں ’’میرے نزدیک ایک انسان دوست انیتا آپا کی شخصیت ایک ایسے خوبصورت پھول کی مانند ہے جس میں تمام تر تازگی اور مہکار کے ساتھ ساتھ آہستگی سے بتدریج مسلسل کھلتے رہنے کا عمل جاری ہے یعنی ہر اگلی ملاقات پر ان کی پہلو دار شخصیت کے کچھ اور رموز منکشف ہوتے ہیں۔

اس طرح ہر دفعہ ان کو اس طرح کھوجنا ان سے دوستی کا انعام سا لگتا ہے۔ انیتا غلام علی سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس فیروز نانا کی بیٹی تھیں ، وہ بتاتی تھیں کہ ان کے ابا کے پاس ایک چھوٹی سی ڈبیا میں قرآن مجید تھا جس کو انھوں نے پوری زندگی اپنے عدالتی کوٹ کی بائیں طرف جیب میں رکھا۔ ان کے ہر بچے کو اپنی سوچ اور رجحان کیمطابق چلنے کی آزادی تھی۔ البتہ یہ بتایا جاتا تھا کہ یہ صحیح ہے اور وہ غلط، بیچ کا کوئی راستہ نہیں اور نتائج کی ذمے داری تمہاری اپنی ہے۔

عطا الحق قاسمی نے احسان دانش کا خاکہ لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ احسان دانش کی شخصیت کے جس پہلو نے مجھے بے حد پریشان کیا ہے وہ ان کا بڑا شاعر اور بڑا انسان ہونے کے علاوہ ایک نہایت خوبصورت نثر نگار ہونا بھی ہے۔ میں نے ان کی آپ بیتی ’’جہانِ دانش‘‘ کا مطالعہ شروع کیا تو ایک ایک صفحے پر حیرتوں کے درکھلتے گئے۔ اس کی نثر آج کی نثر ہے جس میں کلاسیکی حسن پوری ہمہ گیری کے ساتھ رچا بسا ہے اورکردار نگاری اس کمال کی ہے کہ قاری اس کے طلسم میں گم ہو جاتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی کا خاکہ اے حمید نے لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ خلوص، دیانت اور محنت، یہ تین عناصر قاسمی صاحب کی شخصیت کے اجزائے اعظم ہیں۔

ان کی شرافت ان کی شاعری اور افسانوں سے زیادہ مشہور ہے۔ کوئی کافر ہی ان کی شرافت سے انکار کرسکتا ہے۔ ایک بنیادی بات اور بھی ہے۔ قاسمی صاحب انسان سے پیار کرتے ہیں۔ یہ انسان خواہ کسی مذہب، ملت سے تعلق رکھتا ہو۔ وہ کبھی ان کو دکھی نہیں دیکھ سکتے۔ انسانیت سے ان کے پیار نے ان کے فن کو نکھار بخشا ہے اور ان کی شخصیت کو ہر دل عزیز اور دلکشی عطا کی ہے۔برصغیر کے مشہور شہنائی نواز بسم اللہ خاں کا خاکہ رضا علی عابدی نے لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بسم اللہ خاں کے ماموں شہنائی کے استاد تھے۔ انھوں نے کم عمری میں ان کی تربیت شروع کی اور انھیں کمال فن پر پہنچایا۔

موسیقی اور شہنائی کی تاثیر کے بارے میں جو یہ کہا جاتا ہے کہ موسیقی سے دیا جل گیا یا پانی برسنے لگا، یہ صحیح ہے۔ خود بسم اللہ خاں کے تاثیر کا جو واقعہ پیش آیا اس کا انھوں نے ذکر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ان کی شہنائی میں تاثیر پیدا ہونے لگی تو ان کے ماموں نے ان سے کہا کہ اگر کوئی ملے تو کسی کو بتانا نہیں۔ پھر یہ ہوا کہ ایک روز بسم اللہ خاں بالائی منزل کی کوٹھریوں میں تنہا بیٹھے شہنائی بجا رہے تھے۔ اچانک کہیں سے عطر کی تیز خوشبو آئی۔ یہ آنکھیں موندے شہنائی بجاتے رہے۔ ایک بار جو آنکھ کھولی تو کیا دیکھتے ہیں ایک باریش بزرگ چھڑی ٹیکے سامنے کھڑے غور سے شہنائی سن رہے ہیں اور خوش ہو رہے ہیں۔

خاں صاحب کہتے ہیں ’’میرے حواس بحال نہ رہے، شہنائی منہ سے نکل گئی اور میں خوف و حیرت سے بزرگوار کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ مسکرا کر بولے، بجاؤ۔۔۔بجاؤ۔ اور جب میں بجا نہ سکا تو وہ پلٹے اور سیڑھیاں اترنے لگے۔ میں نے لپک کر نیچے دیکھا، وہاں کوئی نہ تھا۔ میرا عجیب حال ہوا اور شام کو جب میں نے ماموں کو یہ واقعہ سنانا چاہا تو انھوں نے ٹال دیا۔ جب میں نے بات شروع کی تو انھوں نے کہا، بس ہوگئی تمہاری ملاقات۔ بس اس کے بعد ہو تو کسی سے ذکر نہ کرنا۔ خلیل احمد کی کتاب میں ایک مختصر سا خاکہ پروین شاکر کا ہے جو پروین قادر آغا نے لکھا ہے۔ وہ لکھتی ہیں ’’وہ ایک پھول شہزادی تھی۔ ایک ترنم ، ایک خوشبو اور حقیقت میں بذات خود شاعری تھی۔

مجھے اس کی شاعری پڑھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کیونکہ وہ میرے لیے خود ایک نظم تھی۔ پروین ایک بے حد حساس روح تھی۔ وہ کوئی بات کہے یا پوچھے بغیر سب کچھ سمجھ جایا کرتی تھی۔ وہ اپنے شعری وجدان کی بدولت انسانوں کی اندرونی کیفیات کو محسوس کر لیا کرتی تھی۔‘‘ مظہر محمود شیرانی نے حکیم نیر واسطی کا خاکہ لکھا ہے اور طباعت کے شعبے میں ان کے حیران کن کارناموں کا ذکرکیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک بے نظیر نباض ، بے بدل طبیب اور بلند پایہ انسان کی حیثیت سے ان کا مقابلہ کوئی مشکل سے کر سکتا ہے۔

وہ حکیم صاحب کی حکمت ودانائی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک خاتون کی نبض دیکھ کر انھوں نے اس کے شوہر سے کہا کہ آپ کی بیوی کے پتے میں پتھریاں ہیں، آپریشن کروانا پڑے گا۔ اس شخص نے ایکسرے رپورٹ پیش کی جس سے حکیم صاحب کی بات کی تصدیق ہوتی تھی۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں کوئی نسخہ لکھنے کا سوال نہ تھا لیکن وہ شخص جم کر بیٹھ گیا۔ اس کا اصرار تھا کہ آپ خود علاج کریں۔ ہم آپریشن نہیں کروائیں گے۔ حکیم صاحب وقفے وقفے سے اسے آپریشن کرانے کی تلقین کرتے رہے۔ آخر وہ روہانسا ہوگیا اور کہنے لگا ’’حکیم صاحب! آپ اس دور کے حکیم بو علی سینا ہیں۔

اس پر میرا ایمان کی طرح یقین ہے۔ اگر آپ کے پاس اس کا علاج نہیں ہے تو کسی کے پاس نہیں۔‘‘ اس شخص نے یہ بات نہایت متاثر کن انداز میں کہی جسے سن کر حکیم صاحب نے سر جھکالیا جیسے مراقبے میں چلے گئے ہوں۔ ذرا دیر بعد سر اٹھا کر کہا ’’آپ نے بہت بڑی بات کہہ دی۔ آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔‘‘ آخر وہ شخص جیتا اور حکیم صاحب ہارے۔ چنانچہ نسخہ لکھ کر دے دیا گیا۔ ڈیڑھ ماہ بعد وہ شخص پھر حکیم صاحب کے پاس آیا۔ تازہ ایکسرے رپورٹ پیش کی۔ اب پتے میں پتھریوں کا نشان نہ تھا۔ خدیجہ مستور کا خاکہ احمد ندیم قاسمی نے لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’خدیجہ اور ہاجرہ بہنیں ہیں۔ خدیجہ بڑی اور ہاجرہ چھوٹی، مگر صرف ایک سال چھوٹی۔ دونوں کی پرورش و تربیت ایک ہی گھر کے ماحول میں ہوئی۔

دونوں نے اکٹھا افسانے لکھنے شروع کیے۔ یہ افسانے ایک سے رسالوں میں چھپے۔ دونوں ہجرت کرکے لکھنو سے لاہور آئیں۔ دونوں کی ایک ہی دن شادی ہوئی۔ دونوں کے شوہر معروف اخبار نویس تھے۔ دونوں کے دو دو بچے تھے اور دونوں کے افسانوں کے چار چار مجموعے تھے۔ دونوں کے ڈراموں کا ایک ایک مجموعہ ہے۔ دونوں کے ادبی نظریات ایک تھے۔

اس کے باوجود دونوں کے فن میں، دونوں کے مشاہدے میں، کرداروں کے انتخاب میں، پلاٹ کی تعمیر میں حتیٰ کہ زبان و بیان تک میں اتنا واضح فرق کیوں ہے؟ یہ دونوں شخصیتوں کا فرق ہے۔ ان دونوں کے اسلوب میں معمولی فرق نہیں، وہ فرق ہے جس کو آسمان و زمین کا فرق کہتے ہیں۔ خدیجہ کی زندگی میں سادگی، پیار اور اپنائیت تھی اور یہی ان کے فن میں بھی تھی لیکن ان کی شخصیت کی ایک خصوصیت ایسی تھی جسے اپنے فن میں منتقل ہونے سے شاید انھوں نے شعوری طور پر روک رکھا تھا اور وہ ان کی پھبتی تھی، طنز سے بھرا ہوا ان کا کٹیل فقرہ تھا اور ساتھ ہی ان کے غیر مختنم قہقہے تھے۔‘‘

خلیل احمد کی اس کتاب میں بہت سے شخصی خاکے ہیں سبھی پڑھنے کے قابل ہیں، فن کاروں کے لکھے، فنکاروں کے خاکے۔ خود خلیل احمد کے فن کی کئی جہتیں ہیں۔ وہ شاعر، ادیب اور محقق کے طور پر جانے جاتے ہیں اور ان کی یہ کتاب فکشن ہاؤس کی پیشکش ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔