جان بچانے کے لیے چمگادڑوں کی آواز جذب کرنے والے بہرے پروانے

ویب ڈیسک  جمعـء 28 فروری 2020
برسٹل یونیورسٹی کے ماہرین نے بہرے پروانوں میں آواز جذب کرنے کی زبردست قدرتی صلاحیت کا انکشاف کیا ہے۔ فوٹو: نیو اٹلس

برسٹل یونیورسٹی کے ماہرین نے بہرے پروانوں میں آواز جذب کرنے کی زبردست قدرتی صلاحیت کا انکشاف کیا ہے۔ فوٹو: نیو اٹلس

 لندن: بعض اقسام کی بھدی تتلیاں یا پروانے (موتھ) سننے سے قاصر ہوتے ہیں اور کسی بھی دشمن کی آواز نہیں سن سکتے لیکن قدرت نے انہیں ایک اور بہترین حفاظتی نظام سے نوازا ہے جس کے تحت وہ اپنی نمبر ایک دشمن چمگادڑ کی الٹرا ساؤنڈ لہروں کو جذب کرلیتے ہیں اور چمگادڑ تک دوبارہ اس کی خبر نہیں پہنچتی۔

اس حیرت انگیز طریقے سے ڈیف موتھ یا بہرے پروانے چمگادڑوں کو جُل دے کر بھاگ جاتے ہیں۔ اس صوتی پوشیدگی کو یونیورسٹی آف برسٹل کے ماہرین نے دریافت کیا ہے۔ چمگادڑوں کا یہ حال ہے کہ ان کی نظر کمزور ہوتی ہے اور وہ اپنے راہ ڈھونڈنے یا شکار کے لیے آواز کی ایسی امواج پھینکتی ہیں جو انسان تو نہیں سن سکتے ہیں لیکن جب یہ لہر ٹکراکر دوبارہ جانور تک پہنچتی ہیں تو وہ راستہ بدل لیتی ہے یا پھر شکار کی جانب لپکتی ہیں اور اسے ’حیاتیاتی سونار‘ بھی کہا جاتا ہے۔

برسٹل یونیورسٹی کے سائنس دانوں کے مطابق انہوں نے اسکیننگ الیکٹران مائیکرو اسکوپ کے ذریعے چار اقسام کے بہرے پروانوں کے دھڑ، پروں اور باریک بالوں کا جائزہ لیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر ان بالوں کی ساخت آواز جذب کرنے والے مٹیریل کی طرح دکھائی دی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس پر آنے والی آواز کی لہریں منسوخ ہوجاتی ہیں۔

اس کے بعد ماہرین نے ان پروانوں پر مختلف اقسام کی آوازیں ڈالیں تو معلوم ہوا کہ یہ معمولی کیڑا 85 فیصد تک آواز کو روک لیتا ہے۔ اس طرح چمگادڑ کے لیے اس کی شناخت کرنا اور نوالہ بنانا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔ برسٹل یونیورسٹی کے ماہرین نے اسے ایک زبردست قدرتی شاہکار قرار دیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پروانے سے سیکھ کر ساؤنڈ پروف مٹیریل اور اسٹوڈیو بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔