جہاں گشت

عبداللطیف ابو شامل  اتوار 1 مارچ 2020
وہ فقیر ہی کیا جو کسی کی دُھتکار سے ٹل جائے ویسے تو ہر شخص کے دل میں ایک کہانی ہوتی ہے

وہ فقیر ہی کیا جو کسی کی دُھتکار سے ٹل جائے ویسے تو ہر شخص کے دل میں ایک کہانی ہوتی ہے

 قسط نمبر 80

رنگا رنگ دنیا ہے یہ جی! دکھائی دیتا ہے تو دیکھیے اور اگر نہیں تو دعا کیجیے کہ بینا آنکھ عطا ہو جی! جس طرف دیکھیے ہمہ رنگ انسان اور یہ کہنے کی اجازت ملے کہ کیسے کیسے لعل ہماری بے حسی کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں جی! جیتے جی مرگئے ہیں جی !تو ہم ان کی قدر نہیں کرتے اور جب وہ مر جاتے ہیں تو ہم مکّاری کا رونا ہے جی! ہمیں دُور کے ڈھول بھلے لگتے اور ہمیشہ پُراسرار واقعات کھوجنے کی جستجو میں رہتے ہیں ہم۔ آس پاس کیا ہو رہا ہے، اسے تو نظرانداز کیے ہوئے ہیں ہم۔ فقیر کو کہنے کی اجازت ملے کہ ہم چیزوں کی قدر کرتے اور انسانوں کی! بس رہنے دیجیے کہ آئینہ وہی دکھائے گا جیسے وہ دیکھے گا۔

بابا جی فرماتے تھے کہ چیزیں انسان کے لیے بنی یا بنائی گئی ہیں، انسان تو چیزوں کے لیے تخلیق نہیں کیا گیا۔ ہم نے چیزوں کو اہم اور انسان کو مسترد کردیا ہے۔ فقیر کو اجازت ملے تو کہے کہ ہم نے انسانوں کے بہ جائے چیزوں کو اتنی اہمیت دے دی ہے کہ اب انسان چیزیں و آلات نہیں، چیزیں اور آلات انسان کو استعمال کر رہے ہیں۔ عجب ہے ناں! دھیان دیجیے فقیر کی بَک بَک پر اور آزردہ و رنجیدہ نہ ہوں جی! یہ تو فقیر خود سے ہم کلام ہے جی!

وہ بھی ایک ایسا ہی لعل ہے، گُدڑی کا لعل، لیکن ہماری بے حسی کا شکار۔ یاد ہے جب فقیر، شہباز سے بات کرنے اس کے کیبن پہنچا تو اُس کے انکار کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اُس کا کہا بجا تھا کہ آخر کیا ہوگا مجھ سے کلام کرکے۔ وہ مجھ فقیر سے اپنا دُکھ آخر کیوں بیان کرے، کیوں۔۔۔۔ ؟ وہ کسی شے کا طالب نہیں ہے۔ لیکن صاحبو! وہ فقیر ہی کیا جو کسی کی دُھتکار سے ٹل جائے، جی مشکل تو بہت ہوئی لیکن پھر وہ فقیر کے سامنے اپنا سینہ کھول کر دل دکھانے پر راضی ہو ہی گیا۔ کیا آپ جیسے بینا نے درد کو دیکھا ہے ۔۔۔۔۔۔ ؟

اس کا جواب فقیر کے دشمن جاں اجمل سراج نے ایک دن دیا تھا۔ کہنے لگا تُو درد کو دیکھنے کی ضد کر رہا ہے احمق آدمی! یہاں تو زخم کسی کو نظر نہیں آرہا۔

درد تو خیر کس نے دیکھا ہے

زخم بھی کیا نظر نہیں آتا

چلیے وہ تو ہے ہی پاگل اور کوئی ایسا ویسا نہیں جی! لیکن وہ مستی میں بھی ہوشیار ہے، اور وہ جو چھپا بیٹھا ہے ناں تو اسے بھی کسی دن عریاں کرے گا فقیر، خاطر جمع رکھیے۔ ہاں تو فقیر کہتا ہے کہ درد کو دیکھنے والی آنکھ طلب کیجیے اور پھر دیکھیے، لیکن جب تک وہ نہیں ہے تو درد کو مجسّم ہی دیکھ لیجیے اور درد کو دیکھنا ہے اور چلتا پھرتا دیکھنا ہے تو شہباز سے یا اس جیسوں سے ضرور ملیے۔ وہ درد کی تصویر تو ہے لیکن عزم و حوصلے کا شاہ کار بھی ہے۔ اس کی آنکھوں میں بیتے ہوئے ماہ و سال کے دُکھ ہی نہیں اچھے دنوں کے خواب بھی ہیں۔ ہمت بھی، عزم بھی اور حوصلہ بھی۔ کچھ کر گزرنے کا سودا اس کے دماغ میں نہیں دل میں سمایا ہوا ہے۔ چشم بینا ہو تو دیکھیے، ہاں اگر چشم بینا ہو تب۔ رواں لہجہ اور عزم ہمت سے لبالب۔ اُسے ہم سب سے ویسے تو کوئی گلہ نہیں ہے۔ لیکن فقیر کو ایسا لگا جیسے بہ زبان حال ہم سب سے مخاطب ہو:

بہت اداس ہو دیوار و دَر کے جلنے سے

مجھے بھی ٹھیک سے دیکھو، جَلا تو میں بھی ہوں

ہاں وہ واقعی شہباز اور بلند ہمت و بلند پرواز ہے۔ آئیے! فقیر آپ کو چلتا پھرتا درد دکھاتا ہے۔

میں 1988ء میں بہاول پور میں پیدا ہوا۔ مجھ سے چھوٹے دو بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ والد عمارتیں بنانے والے ٹھیکے دار کے پاس دیہاڑی دار مزدور تھے اور یہاں مزدور کا جو حال ہے وہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے۔ اس کا حال اس چادر کی طرح ہے جس سے سر چھپاؤ تو پاؤں ننگے رہ جاتے ہیں۔ بس ٹھیکے دار کے رحم و کرم پر ہوتی ہے مزدور کی زندگی۔ لیکن روکھی سوکھی مل ہی جاتی تھی۔ میری ماں بھی کھیتوں میں کام کرنے جاتی تھی۔ وہ بھی مزدور ہی تھی اور اب تک ہے۔ سو، دو سو روپے اسے بھی مل ہی جاتے تھے۔

جب مصیبت اور دکھ آتا ہے، تو بتا کر نہیں آتا اور جب آجائے تو جانے کا نام نہیں لیتا اور گھر میں بسیرا کر لیتا ہے۔ میں تین سال کا تھا کہ مجھے پولیو ہوگیا۔ پہلے میری ایک ٹانگ متاثر تھی۔ ایک دن بخار ہوا تو میرے والدین مجھے ایک ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ اس وقت تو میں چھوٹا تھا، یاد تو نہیں ہے لیکن ماں ہی بتاتی ہے یہ سب۔ اس ڈاکٹر نے مجھے نہلا کر پنکھے کے نیچے لٹا دیا۔ انجکشن بھی لگایا اور دوا بھی دی۔ ابّا اما ں تو ان پڑھ ہیں جو ڈاکٹر نے کہا مانتے چلے گئے۔ ماں بتاتی ہے کہ صبح ہوئی تو میری دوسری ٹانگ بھی بے جان ہوچکی تھی۔

انہوں نے ڈاکٹر سے پوچھا کہ یہ کیا ہوا تو اس نے کہا بس یہی تھی خدا کی مرضی۔ تمہارا بیٹا مستقل معذور ہوگیا ہے۔ صبر شکر کرکے رو دھو کے ماں باپ گھر لے آئے مجھے۔ یہ تو بہت عرصے بعد معلوم ہوا کہ وہ اتائی تھا۔ یہ جعلی ڈاکٹر معصوم لوگوں کی زندگی برباد کردیتے ہیں۔ انہیں ذرا سی بھی شرم نہیں آتی۔ اب کیا بتاؤں مزدور ماں باپ کا معذور بچہ، جینا عذاب ہوگیا، زندگی اندھیر ہوگئی۔ مت پوچھیں۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہوا کہ انہوں نے میرے علاج میں کوئی کسر چھوڑی ہو۔ کیا نہیں کیا میرے ماں باپ نے غربت کی حالت میں بھی، خود بھوکے رہے۔ جو کچھ اور تھا بھی کیا… سب بیچ کر انہوں نے جو ان کی بساط میں تھا، جو بن پڑا انہوں نے کیا۔ پھر میں بڑا ہوگیا تھا، لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ میری ماں مجھے اٹھا کر لے کر جاتی تھی ہر جگہ، یہ مائیں بھی عجیب ہوتی ہے ناں!

اس کے آنسو پہلے تو چمکنے لگے اور پھر موسلا دھار برسات۔ یہی ہے زندگی، تم تو بہت بہادر ہو۔ فقیر نے اسے دلاسا دینے کی کوشش کی، لیکن وہ تو سیلاب کی طرح بہہ نکلا تھا۔ تھوڑی تک وہ بادوباراں کی طرح برسا۔ پھر سنبھل گیا۔ کب تک رو سکتا ہے انسان۔ رونے کے بعد سنبھل ہی جاتا ہے۔ چاہے کچھ دیر کے لیے ہی سہی۔ پھر کیا ہوا شہباز…؟ فقیر نے پھر سے ایک کنکر اس کی ساکت جھیل میں پھینک دیا اور پھر دائرے بنتے چلے گئے۔

پھر وہی جو ایک معذور کے ساتھ ہوتا ہے یہاں۔ سب تھک ہار کر بیٹھ گئے تھے، لیکن میری ماں نہیں ہاری تھی۔ پندرہ سال تک وہ مجھے اٹھا کر لے جاتی تھی۔ خود کھیتوں میں مزدوری کرتی تھی، آج بھی کرتی ہے۔ اس نے مجھے اسکول میں بھی داخل کرایا۔ لیکن بچے تو شرارتی ہوتے ہیں۔ ہر کوئی میرا مذاق اڑاتا تھا۔

آخر میں نے فیصلہ کیا کہ پڑھنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ اگر پیسے ہوتے، کسی بڑے گھر کا ہوتا تو پڑھتا بھی۔ یہاں تو کھانے پینے کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ میرے والد نے بھی ایک دن کہا کہ تجھے زندگی گزارنے کے لیے کچھ تو کرنا پڑے گا۔ اور پھر میں نے درزی کا کام سیکھنے کا فیصلہ کیا۔ ایک ٹیلر ماسٹر سے بات کی اور کام سیکھنے کے لیے جانے لگا۔ گاؤں دیہات میں اتنا کام تو ہوتا نہیں ہے۔ انہوں نے بھی میرے صبر کا پورا امتحان لیا۔ لیکن چار سال میں کام سیکھ گیا تھا۔ دیہات میں کام ہی نہیں تھا۔ میرا چچا زاد کراچی میں ٹیلر تھا۔ میں نے اس سے بات کی اور اپنے چچا کے ساتھ کراچی آگیا۔ یہاں پہنچ کر دنیا ہی بدل گئی۔ اچھا ہی ہوا میں یہاں آگیا۔ میں اپنے چچا زاد کے ساتھ کام کرنے لگا۔ وہاں سارا کام میں کرتا تھا اور مزدوری بھی بہت کم ملتی تھی اور وہ بھی بھکاریوں کی طرح۔ انہیں تو مفت کا نوکر ہاتھ آگیا تھا، لیکن میں کام کرتا رہا، صبر و شکر کے ساتھ۔ پھر چچا زاد نے وہ دکان ہی بند کر دی اب میں فٹ پاتھ پر تھا۔

وہ پھر برسنے گا اور فقیر کے سامنے ایک شعر ناچنے لگا۔

ہے یہ اندیشہ کہ بہہ جائے نہ اب اشکوں میں

دوست! مجھ کو دل غم خوار سے ڈر لگتا ہے

فقیر اسے خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔ پھر اُس نے سگریٹ ہونٹوں میں دبایا۔ وہ اسے شعلہ دکھانے ہی والا تھا کہ فقیر پوچھ بیٹھا: تم سگریٹ بھی پیتے ہو؟ میں سگریٹ پیتا ہوں تو آپ خفا ہو رہے ہیں۔ لوگ تو خون پی رہے ہیں آپ انہیں کچھ نہیں کہتے۔ وہ جان دار اور بلند قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا۔ بھولے لوگ سمجھتے ہیں رشتے دار دکھ درد میں کام آتے ہیں۔ یہ سب باتیں ہیں جی۔ دکھ درد میں تو رشتے دار بھاگ جاتے ہیں کہ یہ کہیں کچھ مانگ نہ لے۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں بہت بیمار تھا۔ میری ماں اور باپ نے کچھ پیسے جمع کیے۔

بس سو روپے کم تھے۔ مرے ابا اپنے ایک بھائی سے سو روپے مانگنے گئے تو انہوں نے کہا میرے پاس نہیں ہیں سو روپے، اپنے معذور بیٹے کو کسی چوراہے پر بٹھا دو، بہت سے پیسے ملیں گے بھیک میں، یہ ہے رشتے داری ۔۔۔۔۔ چچا زاد کی دکان بند ہوگئی، تو مجھے ان کے گھر سے بھی نکلنا پڑا۔ پہلی رات فٹ پاتھ پر، بھوکا پیاسا اوپر آسمان اور نیچے میں معذور! کچھ لوگوں نے پیسے دینے کی کوشش کی تو میں نے انہیں کہا میں بھکاری نہیں ہوں۔ رات تو جیسے تیسے کٹ ہی گئی، صبح ہوئی تو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں، یہاں تو چنگے بھلے بندے کو کام نہیں ملتا۔ مجھے کون دیتا۔ میں بیٹھا ہوا سوچ رہا تھا کہ دو آدمی میرے پاس آئے اور کہنے لگے، چائے پیو گے؟ میں نے کہا نہیں۔ وہ پاس بیٹھ کر اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے اور پھر مجھ سے بولے کام کروگے؟ میں نے کہا کیسا کام؟ تو کہنے لگے ایسا کام کہ عیش کرو گے؟ پولیس بھی تمہیں نہیں پکڑے گی۔

میں نے کہا پولیس کیوں پکڑنے لگی مجھے۔ تو کہنے لگے تم معذور ہو۔ کسی کو شک بھی نہیں ہوگا۔ تم چرس، ہیروئن بیچو ہم لاکر دیں گے۔ بہت عیش کرو گے۔ میں نے صاف انکار کر دیا، میرا ضمیر زندہ ہے، میں نے ان سے کہا۔ انہوں نے کہا ضمیر زندہ مردہ چھوڑو ہمارے لیے کام کرو۔ میں نہیں مانا تو انہوں نے اتنا مارا کہ بتا نہیں سکتا۔ ایک آدمی نے انھیں روکا، تو اسے بھی مارنے لگے وہ خود نشے میں دُھت تھے۔ پھر وہ یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ رات تک سوچ لینا۔ رات کو وہ پھر آگئے اور پھر سے بہت مارا۔ میں خاموشی سے مار کھاتا رہا اور سوچتا رہا کہ آخر میں کیوں پیدا کیا گیا ہوں۔ وہ مجھے پھر سوچنے کا کہہ کر چلے گئے تھے۔ ان کے جانے کے بعد میں وہاں سے گھسٹتا ہوا چل پڑا تھا۔ صبح تک میں اسی طرح رینگتا ہوا بہت دُور نکل گیا۔ بہت تھک گیا تھا۔ فجر کی اذان ہوئی تو میرے آنسو بہہ نکلے اور میں نے دعا کی: ’’یا اﷲ! میرا کوئی آسرا بنا دے۔‘‘ بہت تھک گیا تھا تو مجھے نیند آگئی۔ سورج نکل آیا تھا تو میں جاگ گیا۔ میری دعا خدا نے سن لی تھی۔ وہ مسکرانے لگا۔

واقعی! تمہاری دعا خدا نے سن لی تھی فقیر نے پوچھا۔ ہاں بس پھر زندگی بدل گئی زندگی کے بھی نہ جانے کتنے رنگ ہوتے ہیں۔ کیسے بدل گئی زندگی تمہاری، فقیر سننا چاہتا ہے تو وہ پھر سے رواں ہوا۔ میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا ، سامنے کی دکان میں میری طرح کا ایک معذور آدمی بیٹھا ہوا ٹیوب کے پنکچر لگا رہا تھا۔ میں اس کے پاس پہنچا اور بہت دیر تک اسے دیکھتا رہا۔ پھر اسے کہا استاد مہربانی کرو گے مجھ پر۔ وہ بولا کیا مہربانی؟ میں نے کہا مجھے بھی یہ کام سکھا دو، تو وہ ہنس کر کہنے لگا تم بھی معذور ہو اور میں بھی معذور۔ لوگ میرا مذاق اڑاتے ہیں پھر تمہارا بھی اُڑائیں گے۔

اگر تم لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو اور دل لگا کر کام کرو تو میں تمہیں ایک مہینے میں یہ کام سکھا سکتا ہوں۔ میں نے کہا منظور ہے۔ اور بس زندگی بدل گئی میری ایک مہینے میں۔ میں کام سیکھ گیا۔ فٹ پاتھ پر سوتا تھا۔ وہیں ایک اور مزدور سے ملاقات ہوئی اور ہم دوست بن گئے۔ وہی میرا دوست ہے، بھائی ہے، باپ ہے بہت مدد کی اس نے میری۔ کچھ پیسے دیے اور میں نے سامان خریدا اور یہ کام کرنے لگا۔ بس اﷲ روزی دیتا ہے اور عزت کی دیتا ہے۔ بس یہ ہے میری کہانی۔ وہ خاموش ہوا تو فقیر نے کہا: شہباز کہانی تو ادھوری رہ گئی ہے، کہاں رہتے ہو، کھاتے پیتے کیسے ہو، آتے جاتے کیسے ہو ۔۔۔۔۔ ؟

وہ مسکرایا اور بتانے لگا: انسان کی کہانی تو اس کی موت تک جاری رہتی ہے جی! آنکھیں جب تک دیکھ رہی ہیں۔ کہانی بھی چل رہی ہے۔ آنکھیں بند ہوجائیں گی تو کہانی بھی مُک جائے گی۔ ہاں تو اس کے بعد میں نے یہ کیبن لیا اور کام شروع کیا۔ رہنے کا مسئلہ تھا تو ایک کوارٹر لیا۔ تین ہزار روپے کرایہ ہے اس کا۔ پہلے تو میں سڑک پر گھسٹ گھسٹ کر جایا کرتا تھا۔ اکثر لوگ مجھے بھکاری سمجھتے تھے اور پیسے دینے کی کوشش کرتے تھے۔ میں ان سے کہتا، بھائی میں بھکاری نہیں ہوں مزدور ہوں، پھر یہ سائیکل گاڑی بنائی۔ اب کچھ سہولت ہوگئی ہے، لیکن سڑکوں کی حالت تباہ ہے، بہت مشکل سے آتا جاتا ہوں۔ ہاتھ شل ہوجاتے ہیں۔ لیکن کچھ پانے کے لیے کھونا تو پڑتا ہے۔ خوش ہوں کہ اپنے بہن بھائیوں ماں باپ کا سہارا ہوں، جو کچھ ہوتا ہے کرتا ہوں۔

اب تو تمہیں بہت خوشی ہوتی ہوگی کہ جو تم نے چاہا کر دکھایا۔ فقیر نے اس کا حوصلہ بڑھایا تو وہ کہنے لگا: کیا کر دیا جی میں نے، اب تک تو کچھ بھی نہیں کرسکا، لیکن کوشش ہے اور تمنا بھی کہ کچھ کر سکوں اب ہیلپر بھی رکھ لیا ہے۔ اس سے بہت آسانی ہوگئی ہے۔ دو سو روپے اسے بھی دینے پڑتے ہیں۔ گزارہ ہو رہا ہے۔ گھر والوں کو بھی تھوڑے بہت پیسے بھیج دیتا ہوں۔ محنت کرتا ہوں اﷲ روزی دیتا ہے۔ سب کچھ خود کرتا ہوں۔ اتنے پیسے کہاں ہیں کہ دھوبی کو دوں۔ طبیعت خراب ہوتی ہے اور جب بہت مجبوری ہو تو ڈاکٹر کے پاس چلا جاتا ہوں۔

چھوٹی موٹی بیماریوں میں میڈیکل اسٹور سے دوا لے لیتا ہوں۔ بس میرے سر پر ایک ہی بات سوار ہے۔ مجھے اپنے گھر والوں کے لیے کچھ کرنا ہے۔ میری تمنا ہے کہ اپنی والدہ ، والد کو بہن بھائیوں کو سکھ چین کی زندگی دے سکوں۔ مجھے تو بہت سے کام کرنے ہیں اﷲ نے چاہا تو ضرور کروں گا۔ میں اپنے گھر والوں کو خوشیاں دینا چاہتا ہوں۔ انھیں راحت پہنچانا چاہتا ہوں۔

میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں معذور سہی، لیکن ان کے لیے سب کچھ کروں گا۔ بہنوں کی شادی کراؤں گا، بھائیوں کو کسی قابل بناؤں گا۔ جو نصیب میں ہوگا مل جائے گا، بس نیّت اچھی ہونی چاہیے، اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔ زندہ رہنا ہے تو کان منہ بند کرلینے چاہییں۔ بس کام سے کا م، دور بہت نازک ہے۔ غربت میں انسان اکثر غلط سوچتا ہے۔ حالات سے تنگ آکر غلط کام کرنے لگتا ہے اور پھر عمر بھر پچھتاتا ہے۔ میرے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں۔ میں خوش ہوں کہ اﷲ نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا ہے اور پکڑے رہے گا۔ انسان کا کام ہے محنت کرنا۔ اﷲ کسی کی محنت ضایع نہیں کرتا۔ میں معذور ضرور ہوں، لیکن بے ضمیر نہیں ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ ایک معذور نے ہی مجھے جینا سکھایا۔

چلیے فقیر کے لیے بھی چشم بینا کی دعا کیجیے اور اجازت دیجیے کہ فقیر رخصت ہوا۔

ویسے تو ہر شخص کے دل میں ایک کہانی ہوتی ہے

ہجر کا لاوا، غم کا سلیقہ، درد کا لہجہ ہو تو کہو

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔