اسٹین فری بیٹ کی ضرورت

ایاز خان  پير 25 نومبر 2013
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

پروفیسر کی حالت دیکھ کر مجھے دلیپ دوشی شدت سے یاد آ رہا ہے۔ راجکوٹ گجرات میں پیدا ہونے والے دلیپ دوشی بھارت کی طرف سے صرف 33 ٹیسٹ میچ کھیل کر 114 وکٹیں لے گئے۔ سلو لفٹ آرم لیگ اسپنر دوشی ابھی اور کھیل سکتے تھے مگر سنیل گواسکر کے ساتھ ان کے اختلافات جو دورہ پاکستان کے دوران شدت اختیار کر گئے کی وجہ سے انھیں وقت سے پہلے انٹرنیشنل کرکٹ چھوڑنا پڑی۔ بظاہر محمد حفیظ اور دلیپ دوشی میں کوئی مماثلت نہیں۔ ہمارے پروفیسر صاحب بیٹنگ آل رائونڈر ہیں۔ دوشی صرف اچھے بولر تھے۔

حفیظ دائیں ہاتھ سے بولنگ اور بیٹنگ کرتے ہیں‘ دوشی یہ دونوں کام بائیں ہاتھ سے کرتے تھے۔ دوشی چشمہ لگاتے تھے اور فیلڈ میں سست سے نظر آتے تھے جب کہ حفیظ ان کی نسبت انتہائی پھرتیلے ہیںاور ان کی نظر بھی بالکل ٹھیک ہے۔ آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ جب دونوں کھلاڑیوں میں کوئی مماثلت ہی نہیں ہے تو پھر ایسا کیا ہے جو اسی کی دہائی میں کرکٹ کھیلنے والے ایک کرکٹر کی یاد مجھے آ گئی۔ قصہ یوں ہے کہ اتوار کو دورہ جنوبی افریقہ میں پہلے ون ڈے میچ میں جب ڈیل اسٹین نے محمد حفیظ کو ہاشم آملہ کے ہاتھوں کیچ آئوٹ کرایا تو ایسا 14ویں بار ہوا کہ ہمارے پروفیسر افریقی فاسٹ بولر کا شکار بنے۔

پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان تینوں طرز کی کرکٹ میں اب تک حفیظ پروٹیز بولرز سے 22 بار آئوٹ ہوئے ہیں اور ان میں سے 14 ایسی باریاں ہیں جو اسٹین نے ختم کی ہیں۔ ایک بیٹسمین کی اتنی بے بسی پر تو بولر کو بھی ترس آ جانا چاہیے لیکن نہیں‘ اسٹین ہر بار انھیں آئوٹ کر کے یوںخوش ہوتے ہیں جیسے پہلی بار آئوٹ کیا ہو۔ اب آتے ہیں دلیپ دوشی کی طرف موصوف پاکستان کے خلاف کل اتنی ہی بار آئوٹ ہوئے جتنی بار اسٹین نے محمد حفیظ کو پیویلین کی راہ دکھائی یعنی 14بار۔ دوشی پاکستان کے خلاف صرف ایک ون ڈے میچ کھیلے تھے جس میں ان کی باری نہیں آئی تھی۔ وہ چند ون ڈے اور کھیل جاتے تو یہ فہرست تھوڑی سی اور طویل ہو جاتی۔

خیر وہ صرف 15 ون ڈے ہی کھیل سکے تھے کیونکہ تب ون ڈے کرکٹ اتنی زیادہ نہیں کھیلی جاتی تھی اور ٹی ٹوئنٹی کا تب تصور ہی نہیں تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دوشی کو14 میں سے 8 بار عمران خان نے آئوٹ کیا۔ 1982-83ء میں پاکستان اور بھارت میں کھیلی جانے والی دو سیریز میں تو عمران نے خاص طور پر دوشی کے ساتھ وہی سلوک کیا جو ان دنوں اسٹین ہمارے پروفیسر کے ساتھ کر رہے ہیں۔ ان سیریز میں وہ کل 7 بار آئوٹ ہوئے اور ان میں سے 5 مرتبہ عمران نے انھیں ٹھکانے لگایا۔ مجھے یاد ہے عمران خان جب اپنے رن اپ سے وکٹوں کے پاس پہنچ کر گیند ہاتھ سے چھوڑتے تھے تو دلیپ دوشی یا وکٹوں کے سامنے آ کر گیند پیڈ پر کھاتے اور ایل بی ڈبلیو ہوتے یا وکٹیں چھوڑکر گیند کو راستہ دیتے اور بولڈ ہو کر سکھ کا سانس لیتے۔ وہ چونکہ محض بولر تھے اس لیے عمران خان کے سامنے ان کی ٹانگیں کانپنے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔

ویسے بھی بطور بولر وہ عمران خان کے عروج کا دور تھا۔ محمد حفیظ تو باقاعدہ بیٹسمین ہیں خواہ ان کی ٹیسٹ اور ون ڈے میں بیٹنگ ایوریج زیادہ نہیں ہے پھر بھی ایک فاسٹ بولر سے ان کے خوف زدہ ہونے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ مجھے لگتا ہے پروفیسر نے اپنے اعصاب پر ڈیل اسٹین کو سوار کر لیا ہے۔ بالکل اس طرح جیسے عمران خان کے گیند سنبھالتے ہی دلیپ دوشی کو یقین ہو جاتا تھا کہ اب انھیں آئوٹ ہونا ہے‘ اسی طرح محمد حفیظ بھی اسٹین کے ہاتھوں میں گیند دیکھ کر ویسی ہی کیفیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہمارے پروفیسر صاحب یقیناً اس صورت حال پر خاصے پریشان ہوں گے۔ ان کی بدقسمتی ملاحظہ کریں کہ اسٹین ان فٹ بھی نہیں ہو رہے۔ جنوبی افریقہ کے کپتان کو بھی حفیظ پر ترس نہیں آتا کہ وہ اپنے فاسٹ بولر کو ریسٹ ہی کرا دیں۔

انگریزی میں اسٹین کا ایک مطلب داغ بھی ہوتا ہے اور اس وقت جنوبی افریقی فاسٹ بولر پروفیسر کی بیٹنگ کو باقاعدہ داغدار کر رہے ہیں۔ پاکستان یا دنیا میں کوئی ایسی کمپنی بھی نہیں ہے جو محمد حفیظ کے لیے اسٹین فری بیٹ بنا دے۔ یہ کمپنیاں شاید اس لیے ایسا نہیں کرتیں کہ انھوں نے سن رکھا ہے ’’داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘‘۔ اب لے دے کے پروفیسر کے پاس ایک ہی حل بچتا ہے کہ وہ کالے بکروں کا صدقہ دے۔ اسٹین جیسی بلا سے جان چھڑانے کا کوئی اور حل میری سمجھ میں نہیں آتا۔ آپ کے پاس اس کا کوئی اور حل ہو تو ضرور بتائیں۔ ایک بیٹسمین کی عزت کا سوال ہے۔

محمد حفیظ اور دلیپ دوشی کی کہانی کو یہیں چھوڑتے ہیں اور کیپ ٹائون میں پہلے ون ڈے اور اس سے پہلے دو ٹی ٹوئنٹی میچوں میں قومی ٹیم کی کارکردگی پر بھی بات کر لیتے ہیں۔ پہلا ٹی ٹوئنٹی پاکستان بدقسمتی کی وجہ سے 4 رنز سے ہار گیا۔ بارش نہ پڑتی تو شاید نتیجہ مختلف ہوتا‘ ناصر جمشید آئوٹ نہ ہوتے تب بھی پاکستان کی جیت کے امکانات تھے۔ دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں کپتان محمد حفیظ اور عمر اکمل کی شاندار بیٹنگ نے پاکستان کو فتح دلا دی۔ 177 کا ٹارگٹ آسان نہیں تھا اور پھر شاہد آفریدی کی بولنگ بھی کمال کی تھی جنہوں نے تین کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ حفیظ اس جیت کی بدولت نا صرف سیریز ایک ایک سے برابر کرنے میں کامیاب رہے بلکہ مین آف سیریز بھی قرار پائے۔

انھوں نے پہلے میچ میں دو کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا اور بارش آنے تک کریز پر موجود رہے۔ پہلے ون ڈے میں 48رنز کی اوپننگ پارٹنر شپ کے بعد پاکستان کی وکٹیں جب خزاں کے پتوں کی طرح گرنے لگیں تو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ شکستوں کا تسلسل نہیں ٹوٹے گا۔ اس کے بعد جو ہوا پاکستانی شائقین نے ایک مدت سے نہیں دیکھا تھا۔ دو نوجوان کھلاڑی جو ون ڈے میں اپنا ڈیبیو کر رہے تھے وکٹ پرآئے اور میچ کی سب سے بڑی پارٹنرشپ (74رنز) قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ انور علی جنھیں مین آف میچ بھی قرار دیا گیا 43 رنز کے ساتھ ناٹ آئوٹ رہے‘ بلاول بھٹی نے 39 رنز کی دھواں دھار اننگز کھیلی۔

بلاول نے تین اور انور علی نے دو وکٹیں بھی لیں۔ پاکستان کو ایک جینوئن آل رائونڈر کی ضرورت تھی جو بولنگ کے ساتھ ساتھ بیٹنگ میں بھی کمال دکھا سکے۔ بلاول بھٹی میں یہ خوبی موجود ہے۔ میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ بلاول کو سال ڈیڑھ سال پہلے ٹیم میں آنا چاہیے تھا۔ خیر دیر آید درست آید۔ بلاول کی بولنگ میں میلکم مارشل کی تھوڑی سے جھلک نظر آتی ہے۔ ذرا سی محنت سے اس نوجوان کی اسپیڈ اور بھی بڑھ سکتی ہے۔ کیا ہمارے سلیکٹر اب بھی عبدالرزاق اور شعیب ملک کو واپس لانا چاہیں گے؟ پاکستان کی یہ جیت ان دونوں نوجوان کرکٹرز کی مرہون منت ہے۔ 131 رنز پر سات کھلاڑی آئوٹ ہو چکے تھے‘ ان کی وجہ سے اسکور 218 تک پہنچ گیا۔ ٹیم ورک اسی کو کہتے ہیں۔

پہلا ون ڈے ہم جیت گئے‘ اس دورے میں صرف دو میچوں کا امتحان باقی ہے جو تیس نومبر کو ختم ہو جائے گا۔ پروفیسر کا امتحان کب تک جاری رہتا ہے۔ کون جانے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔