درد اتنے ہیں خلاصے میں نہیں آئیں گے

شاہد سردار  ہفتہ 29 فروری 2020

ہر حکومت کی طرح ہماری موجودہ حکومت نے بھی پولیس اور تھانہ کلچر تبدیل کرنے کا وعدہ اور دعویٰ کیا تھا۔ دو تین ماڈل تھانوں کے افتتاح بھی وزیر اعظم نے کیے لیکن پولیس ڈپارٹمنٹ میں اصلاحات کا نزول ہنوز دلی دور است والی بات ہی نظر آتی ہے۔ پولیس کے نظام میں انقلابی تبدیلی توکیا ہوتی نمائشی تبدیلیوں پر ہی اکتفا کر لیا گیا ہے۔

نتیجے میں لاقانونیت ، جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ نومبر 2019ء کے آخر میں سب سے بڑے صوبے پنجاب کا آئی جی پانچویں مرتبہ تبدیل کیا گیا اور سندھ کراچی کے نئے آئی جی کی تقرری کے لیے جو کچھ کیا جاتا رہا وہ بھی سبھی جانتے ہیں۔ ماورائے عدالت قتل اور جعلی پولیس مقابلے ملک بھر میں اسی طرح ہوتے چلے آئے ہیں۔ ملک کے اکثر تھانوں میں پولیس تشدد سے ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اسٹریٹ کرائم، بچوں اور لڑکیوں کے ساتھ جنسی جرائم اور تشدد کے واقعات بھی بڑھتے جا رہے ہیں اور بے بس و بے کس عوام دہائیاں دیتے چلے آ رہے ہیں لیکن نہ انھیں انصاف مل پا رہا ہے اور نہ ہی ان کا تحفظ ممکن ہو پا رہا ہے۔

ہماری دانست میں اگر پولیس آرڈر 2002ء اپنی اصلی شکل میں نافذ ہو جاتا تو شاید صورتحال یہ نہ ہوتی جیسے نظر آ رہی ہے۔ پولیس کو جب تک سیاسی چھت یا چھتری تلے رکھا جائے گا ملک میں امن و امان اور جرائم کی شرح میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا اور امن وامان کی صورت گری ایسی ہی رہے گی جیسی کہ تھی۔ پولیس افسران جب تک سیاست دانوں کے ریموٹ کنٹرول پر آپریٹ ہوتے رہیں گے جب تک انصاف عام آدمی تک نہ تو پہنچ پائے گا اور نہ ہی لوگ چین سکون سے رہ سکیں گے۔ پولیس کو نہ سیاسی ہونا چاہیے اور نہ ہی سیاست دان کو غیر سیاسی۔ کیونکہ سیاست خدمت کا نام ہے، اپنی اور اپنے خاندان کی نہیں بلکہ عوام اور ان کی جان و مال کی یہی اصل جمہوریت ہے۔

ملک کا سب سے بڑا تجارتی اور بین الاقوامی شہر کراچی ’’ میگا پرابلم سٹی‘‘ بن گیا ہے جہاں شہری، صوبائی حد تو یہ کہ وفاقی حکومت تک کام نہیں کر رہی۔ وزیر اعظم عمران خان جو خود کراچی سے منتخب ہوئے تھے۔ اپنی پارٹی کی کراچی سے اتنی بڑی کامیابی کے باوجود جب بھی اس شہر میں آتے ہیں (ویسے وہ کبھی کبھار ہی آتے ہیں) تو کراچی کے ’’ریڈ زون‘‘ سے باہر ہی نہیں آتے۔ جس شہر نے پہلی بار ایک ایسی جماعت کو ووٹ دیا جس نے مرکز میں حکومت بنائی مگر اس نے بھی کراچی کو لاوارث چھوڑ دیا۔

کراچی اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا شیلٹر ہوم بن گیا ہے جہاں سبھی پناہ لے سکتے ہیں مگر خود کماؤ اور خود کھاؤ کی صورت میں۔ اگر ایسا شہر جو معاشی ہب کہلائے، منی پاکستان ہو، بین الاقوامی شہروں میں شمار قطار ہو، ہر نسل و رنگ اور زبان بولنے والوں کو خوش آمدید کہے لیکن اس کی آدھی سے زیادہ آبادی انسانی ضروریات اور سہولیات سے محروم رکھی جا رہی ہو تو یہ زیادتی نہیں تو پھرکیا کہلائے گی۔

نہ ہی وفاقی حکومت، نہ ہی صوبائی حکومت اور نہ ہی شہری (بلدیاتی حکومت) اس کے مسائل حل نہ کرنے صرف اس سے حاصل ہونے والی آمدنی (ریونیو) کو ہی ہڑپتی جائے تو وہی حال اس کا ہوگا جو ہو چکا ہے۔ پانی، بجلی، گیس، ٹرانسپورٹ کی دشواری، گندے ابلتے گٹر اور نالے، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، کسی کو روزگار سے بے دخل کرنے، نئے نئے ٹیکسز کمپنی فیکٹریوں میں لگانے اور لوگوں کو ملازمتوں سے نکالنے کے ستم اس شہر اور اسی شہر کے باسیوں پر توڑے جا رہے ہیں۔

جس شہر کی بین الاقوامی اہمیت یا شناخت مسلم رہی ہو اس شہر میں ہر جگہ کسی مافیا کا راج ہو وہاں کیا جمہوریت ، انصاف اور سیاست باقی رہے گی۔ بس ہر زبردست کے آگے زیردستی اس شہر کا المیہ ہے، سانحہ ہے، کہرام ہے، نوحہ ہے اور ماتم ہے۔ اب تو یہ شہر نہ ہی حکومت کا لگتا ہے اور نہ ہی اپوزیشن کا بس ’’شہر نا پرساں‘‘ اسے کہا جا سکتا ہے جہاں طاقت کا سرچشمہ یہاں کے عوام نہیں بلکہ کوئی اور ہی ہیں۔ دراصل اس ملک میں جس کے پاس طاقت ہے چاہے وہ کسی بھی قسم کی ہو وہ کسی مافیا سے کم نہیں۔

اس حقیقت سے کسی طور انکار ممکن نہیں کہ کراچی میں طاقتور اشرافیہ سے لے کر فقیروں تک کی مافیا موجود ہے۔ کراچی میں ٹرانسپورٹ مافیا اتنی طاقتور ہے کہ اچھی سے اچھی ٹرانسپورٹ بھی یہاں کبھی نہیں چل سکتی۔ سرکلر ٹرین، اورنج لائن، لیمو لائن کوئی سی بھی لائن کی گاڑی یہ مافیا کراچی کے کسی روڈ پر چلنے نہیں دیتی اور اس المیے کی تاریخ بھی اب بہت پرانی ہو چکی ہے۔ ٹرانسپورٹ مافیا کے آگے کوئی بھی سرکاری مشینری اپنے فاضل پرزہ جات کو بریک لگا دیتی ہے اسے آپ ٹرانسپورٹ مافیا کا احترام کہہ لیں یا اس کا خوف جو چاہے نام دے لیں۔ ٹرانسپورٹ مافیا کے بعد لینڈ مافیا بھی اس شہر کی دوسری طاقتور مافیا ہے الغرض یہ کہ اس شہر میں مافیاز کا جال بچھا ہوا ہے، یہاں تک کہ پارکنگ کی مافیا بھی ہے۔

یہ بھی اس ملک یا بڑے شہر کی لاچاری یا بے بسی کہہ لیں کہ کراچی میں آج تک کوئی میگا پروجیکٹ کامیاب نہیں ہوا کیونکہ یہ مافیاز اسے کامیاب نہیں ہونے دیتی ہیں۔ خود پاکستان کے طاقتور وزیر اعظم عمران خان ایسی طاقتور مافیا کی طرف اشارہ کر رہے ہیں جس سے وزیر اعظم کو خدشہ ہے کہ وہ انھیں گرا دے گی، سپریم ادارے کے سربراہ تک کہہ چکے ہیں کہ اگر ایکشن لیا تو مجھ سمیت سبھی فارغ ہو جائیں گے۔

یہ باتیں یا ہولناک سچائیاں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ اس ملک کی باگ ڈور کھینچنے والے ہاتھ کسی کے بھی ہوں حکمرانوں کے نہیں ہو سکتے جنھیں ووٹوں کی عزت یا اہمیت کے ڈھونگ پر سامنے لایا گیا تھا۔ اس ملک یا پھر اس شہر کا نظام و انتظام ان طاقتوروں کے ہاتھ میں ہے جن کے کارندے یا اہلکار ہر جگہ موجود ہیں، جو سسٹم کو آگے نہیں بڑھنے دے رہے اور اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ ہماری موجودہ حکومت انتظامی حماقتوں کا ایک شاندار گل دستہ ہے۔

یہ اتنے بابرکت لوگ ہیں کہ جس ایشو کو ہاتھ لگاتے ہیں وہ بحران بن جاتا ہے اور یہ ہاہا کار، یہ ہنگام، یہ افراتفری اور یہ قیامت یا یہ بگاڑ کوئی دو چار سالوں کی بات نہیں۔ اس ’’کارِ بد‘‘ میں خیر سے کئی نسلوں، کئی آمروں، کئی سیاستدانوں، کئی بھائیوں اور کئی بااثر لوگوں کی بھرپور ’’حصہ داری‘‘ رہی ہے۔ یوں بڑی جدوجہد اور بڑی کاوشوں کے بعد ملک عزیز کو اس حال تک پہنچایا گیا ہے وگرنہ یہ مملکت خداداد اتنی آسانی سے تو اس بدحالی تک پہنچنے والی ہرگز نہ تھی۔

اسے وطن کے رکھوالوں کی بے حسی یا بے بسی کہہ لیں یا ہمارا ملکی منظر نامہ یا معاشرہ ذہنی طور پر پسماندگی کا شکار ہو گیا ہے جس کی فکر اور سوچ ایک جگہ ٹھہر کر رہ گئی ہے۔ تبدیلی، ریاست مدینہ یا پھر نئے پاکستان کے نام پر کھیل تماشا ہی لگا ہوا ہے۔ عوامی مفاد میں کوئی نئی قانون سازی تو دور کی بات پرانے قوانین پر عملدرآمد کے ضمن میں بھی کوئی مثبت پیشرفت نہیں دیکھی جا رہی۔ سانحہ بلدیہ ٹاؤن ہو یا سانحہ ساہیوال یا سانحہ ماڈل ٹاؤن یا پھر پنجاب کے ایک اسپتال میں کالے اور سفید کوٹوں والوں کے تصادم کا سانحہ لے لیں۔ سارے کے سارے سانحات قانون کی کمزوری، لچک اور انصاف اور قانون کی عدم پاسداری کے منہ بولتے ثبوت ہیں اور ملکی تاریخ کے منہ پر کالک ہی کہے جا سکتے ہیں۔ الغرض ایسے میں فقط اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ:

درد اتنے ہیں خلاصے میں نہیں آئیں گے

غم زیادہ ہیں لفافے میں نہیں آئیں گے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔