پاکستان سپر لیگ کا میلہ

میاں اصغر سلیمی  اتوار 1 مارچ 2020
جاندار مقابلوں نے شائقین کے دل جیت لئے۔ فوٹو: فائل

جاندار مقابلوں نے شائقین کے دل جیت لئے۔ فوٹو: فائل

موبائل کی گھنٹی بجی، دوسری طرف میرے دور کا رشتہ دار تھا، سلام دعا کے بعد اگلا سوال یہی تھا کہ پاکستان سپر لیگ کا میچ فیملی کے ساتھ دیکھنے کا پروگرام بنایا ہے۔

پانچ سے چھ کمپلیمنٹری ٹکٹوں کا فوری طور پر بندوبست کر دیں،اب دیکھ لو، انکار نہ کرنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے گھر والوں کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے، سنو، میں کون سا تمہیں روز روز کوئی کام کہتا ہوں، بتاؤ، ٹکٹیں لینے کب تمہارے پاس آؤں، کچھ اس طرح کی صورت حال کا سامنا مجھے ہی نہیں بلکہ سپورٹس سے وابستہ دوسرے صحافیوں کو بھی کرنا پڑ رہا ہے، مجھے یقین ہے کہ پی ایس ایل کے میلے کا بخار جوں جوں شدت اختیار کرتا جائے گا، کرکٹ کے دیوانوں اور مستانوں میں لیگ کے میچز سٹیڈیمز میں دیکھنے کا جنون بھی بڑھتا جائے گا۔ پی ایس ایل کے سیمی فائنل اور فائنل مقابلوں کے لئے تو شائقین دیوانوں کی طرح ٹکٹیں تلاش کرتے پھریں گے۔

اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ کرکٹ پاکستان کا واحد کھیل ہے جو پورے ملک کو آپس میں جوڑے ہوئے ہے، پاکستانی ٹیم جب بھی ورلڈ کپ، چیمپئنز ٹرافی سمیت کسی بھی انٹرنیشنل ٹورنامنٹ کے لئے میدان میں اترتی ہے تو شائقین کا جوش وخروش عروج پر ہوتا ہے، پرستار راتوں کو جاگ جاگ کر گرین شرٹس کی کامیابیوں کے لئے دعائیں مانگتے ہیں اور جب قومی ٹیم جیت کر وطن لوٹتی ہے تو کرکٹرز کا قومی ہیروز کی طرح استقبال کیا جاتا ہے، ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس میں پرتپاک تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے جہاں پر پلیئرز کو انعام وکرام سے نوازا جاتا ہے، اس ملک میں عوام کی نظر میں ایک کرکٹر کی کتنی عزت ہے۔

اس کا انداہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ورلڈ کپ 1992ء کی فاتح قومی ٹیم کے کپتان عمران خان اب پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔ پی سی بی کی بھر پور کوششوں کی وجہ سے پہلی بار پی ایس ایل کا پورا میلہ پاکستان کے چار شہروں کراچی، لاہور، ملتان اور راولپنڈی میں جاری ہے جس میں پاکستان کے ساتھ ویسٹ انڈیز، جنوبی افریقہ، نیوزی لینڈ، انگلینڈ سمیت دنیا کے دوسرے ملکوں کے کھلاڑی ایکشن میں ہیں، جوں جوں لیگ کا وقت گزرتا جا رہا ہے۔

شائقین کرکٹ کا جوش وجذبہ بھی بڑھتا جا رہا ہے،اسلام آباد یونائیٹڈ اور لاہور قلندرز کے درمیان قذافی سٹیڈیم میں شیڈول میچ جہاں ہر حوالے سے یادگار رہا وہیں ملتان اور راولپنڈی میں بھی میچز کے دوران شائقین نے بڑی تعداد میں سٹیڈیمز کا رخ کر کے مقابلوں کی مزید رونقیں بڑھا دیں۔ پی ایس ایل کے ان کامیاب مقابلوں کا سہرا پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ ہماری سکیورٹی ایجنسیز کو بھی جاتا ہے جن کی دن رات کی محنت اور انتھک کوششوں کی وجہ سے شائقین بلا خوف وخطر سٹیڈیمز کا رخ کر رہے ہیں۔

اگر پاکستان سپر لیگ کے میچوں کی بات کی جائے تو جمعہ تک شیڈول میچز کے بعد ملتان سلطانز کا راج برقرار رہا،ملتان نے 4میچوں میں 3 میں کامیابیاں سمیٹ کر مجموعی طور پر 6 پوائنٹس حاصل کئے، کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے بھی 4 میچوں میں6 ہی پوائنٹس ہیں تاہم ملتان سے کم اوسط کی بنیاد پر یہ دوسرے نمبر پر ہے، تیسرا نمبر اسلام آباد یونائیٹڈ کا ہے جس نے 4 میچوں میں 4 پوائنٹس حاصل کر رکھے ہیں، پشاور زلمی 4میچوں میں 4 پوائنٹس کے ساتھ چوتھے جبکہ کراچی کنگز کی ٹیم 3 میچوں میں صرف 2 پوائنٹس کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔

لاہور قلندر کی ٹیم سارا سال ایکشن میں رہتی ہے لیکن جب لیگ کے مقابلے شروع ہوتے ہیں تو سارا سال ہیرو رہنے والی ٹیم لیگ کے دوران زیرو ہو جاتی ہے، لاہور قلندرز کے ساتھ اس بار بھی یہی ہوا ہے اور 3 میچوں میں قلندرز اب تک کوئی بھی میچ نہیں جیت سکے۔گولاہور قلندرز کے کپتان سہیل اختر نے اپنی ٹیم کو لیگ کی فیورٹ ٹیم قرار دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ لاہور قلندرز کی ٹیم ایک باروننگ ٹریک پر آ گئی تو پھر اسے ہرانا کسی کے بس کی بات نہیں ہوگی۔

لاہور قلندرز کے چاہنے والے بھی یہی چاہتے ہیں لیکن اب تک کے زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ ان تلوں میں تیل نہیں،اگر لاہور قلندرزواقعی فتوحات کا سلسلہ شروع کرنا چاہتے ہیں توانہیں اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر نئے عزم اور ولولے کے ساتھ میدان میں اترنا ہوگا۔پشاور زلمی کے کامران اکمل 173 رنز کے ساتھ ٹاپ پر ہے،کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے جیسن رائے 140 رنز کے ساتھ، اسی ٹیم کے سرفراز احمد 132 رنز کے ساتھ تیسرے جبکہ اسلام آباد یونائیٹڈ کے ڈیوڈ میلان 131 رنز کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہیں۔

اب تک لیگ میں سب سے زیادہ 101 رنز بنانے کا اعزاز کامران اکمل کے پاس ہے، کامران اکمل کو لیگ میں مجموعی طور پر3 سنچریاں بنانے کا اعزاز بھی حاصل ہے ملتان سلطانز کے روسو100 رنز کے ساتھ دوسرے، لاہور قلندر کے محمد حفیظ 98 رنز کے ساتھ تیسرے اور کراچی کنگز کے بابر اعظم 78 رنز کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہیں۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے محمد نسیم 8 وکٹوں کے ساتھ ٹاپ پر ہیں،ملتان سلطانز کے سہیل تنویر اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے فہیم اشرف 7، 7 وکٹوں کے ساتھ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبروں پر ہیں۔

لاہور قلندرز کے شاہین شاہ آفریدی کا 6 وکٹوں کے ساتھ چوتھا نمبر ہے۔ایک میچ میں بیسٹ بولنگ کا اعزاز ملتان سلطانز کے سہیل تنویر کے پاس ہے، انہوں نے میچ کے دوران صرف 13 رنز دے کر4 کھلاڑیوں کو پویلین کا راستہ دکھایا۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے محمد نواز اور پشاورزلمی کے ٹام بینٹن اب تک سب سے زیادہ 5، 5کیچز پکڑ چکے ہیں جبکہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے سرفراز احمد نے وکٹ کے پیچھے سب سے زیادہ 4 شکار کئے ہیں۔

پاکستان سپر لیگ کا آغاز 2016ء میں ہوا،مارچ2009ء میں لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد غیر ملکی ٹیموں کے آنے سے انکار کے بعد لیگ کا اولین ایڈیشن متحدہ عرب امارات میں ہوا، بعد میں یہ روایت ہی پڑ گئی اور لیگ کے زیادہ تر میچوں کی میزبانی کا شرف دبئی ، شارجہ اور ابوظیبی کو ہی ملا۔ متحدہ عرب امارات میں منعقدہ پی ایس ایل کے آخری 2 سال دیکھیں تو وہاں لوگوں میں اتنا جوش وخروش نہیں تھا، گراؤنڈز میں شائقین کی بہت کم تعداد موجود ہوتی تھی۔

مبصرین اس بات پر متفق ہے کہ ٹوئنٹی20 کرکٹ کا اصل مزا اسی وقت آتا ہے جب میدان میں گرما گرم ماحول ہو، نعرے لگ رہے ہیں، ڈھول بج رہے ہوں اور شائقین ماحول کو خوب انجوائے بھی کر رہے ہوں، شائقین کے ساتھ ساتھ پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے بھی بہت ضروری تھا کہ انھیں ہوم گراؤنڈ پر اپنے پرستاروں کے سامنے کھیلنے کا موقع ملے اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی موجودہ انتظامیہ نے پلیئرز کو یہ موقع فراہم کر کے ہی دم لیا۔

مکمل پی ایس ایل اب پاکستان میں آ چکی ہے اور شائقین کے جوش و خروش کو دیکھ کر اس سوال کا جواب بھی مل چکا ہے کہ پی ایس ایل کا یہاں آنا کتنا ضروری تھا۔پاکستان سپر لیگ کے جاری دلچسپ اور سنسنی خیز مقابلوں کی وجہ سے پوری دنیا کو یہ واضح پیغام جا رہا ہے کہ پاکستان نہ صرف کھیلوں کے حوالے سے پر امن ملک ہے بلکہ یہاں کے لوگ بھی مہمان نواز ہیں اور مہمانوں کی قدر کرنا جانتے ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔