سیاسی فضا میں بڑی تبدیلی کی بازگشت

عارف عزیز  منگل 26 نومبر 2013
حکومت سندھ نے صوبے بھر میں نئی حلقہ بندیوں کا نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا۔ فوٹو : فائل

حکومت سندھ نے صوبے بھر میں نئی حلقہ بندیوں کا نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا۔ فوٹو : فائل

کراچی: بلدیاتی الیکشن کی تاریخ میں توسیع کے بعد سیاسی جماعتوں کو مقابلے کی تیاری کرنے کا مزید وقت مل گیا ہے اور اس سلسلے میں مختلف سیاسی راہ نماؤں کے درمیان رابطے جاری ہیں۔

پچھلے دنوں حکومت سندھ نے صوبے بھر میں نئی حلقہ بندیوں کا نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا۔ دوسری طرف یہ بھی اطلاعات ہیں کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے لیے نئے فارمولے پر غور وخوص کیا جارہا ہے۔ اس کے تحت یونین کونسلوں کے چیئرمین، وائس چیئرمین کے انتخابات براہ راست نہیں ہوں گے بلکہ کونسلروں کا الیکٹرول کالج ان کا انتخاب کرے گا۔ دوسرے مرحلے میں یوسی کے وائس چیئرمین، ڈسٹرکٹ میونسل کارپوریشنوں کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کا انتخاب کریں گے۔ تیسرے مرحلے میں یو سی کے چیئرمین، میٹرو پولیٹن کارپویشن کے میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب کریں گے۔

گذشتہ روز وزیراعظم میاں نوازشریف کراچی پہنچے۔ انہوں نے کراچی میں امن و امان کی صورتِ حال اور شہر میں جاری آپریشن پر متعلقہ اداروں کی رپورٹ کے بعد اعلیٰ حکام سے تفصیلی بات چیت میں قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے اپنے دورے میں سیاسی شخصیات اور تاجروں سے بھی ملاقات کی۔ وزیر اعظم نے تاجروں سے ملاقات میں انہیں امن و امان کے قیام کی ہر ممکن کوشش کا یقین دلاتے ہوئے کہاکہ حکومت بھتا خوروں سے سختی سے نمٹے گی اور تاجروں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں متعلقہ اداروں کو سختی سے ہدایات دے دی گئی ہیں اور یہاں سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول فراہم کر کے تجارت کو فروغ دیا جائے گا۔

گذشتہ ہفتے سیاسی اور عوامی حلقوں میں متحدہ قومی موومنٹ کی صوبائی حکومت میں شمولیت کی اطلاعات پر بحث اور تبصروں کا سلسلہ جاری رہا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے سامنے آنے والی خبروں کے مطابق پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی ہدایت پر پارٹی قیادت نے ایم کیو ایم سے رابطوں کو تیز کر دیا ہے اور پیپلز پارٹی نے باضابطہ طور پر ایم کیو ایم کو بیک ڈور چینل کے ذریعے حکومت میں شمولیت کی دعوت دی ہے۔

یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایم کیو ایم کو صنعت و تجارت، صحت اور دیگر وزارتیں دینے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے چھے رکنی کمیٹی کے قیام پر دونوں پارٹیوں نے اتفاق بھی کرلیا ہے۔ باخبر ذرایع کے مطابق پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ، نئی حلقہ بندیوں، کراچی آپریشن کے بعض فیصلوں سمیت دیگر امور پر اختلافات تھے۔ تاہم دبئی میں آصف علی زرداری سے ایم کیو ایم کے وفد کی ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی سربراہی میں ملاقات میں ان کے تحفظات کو مرحلہ وار دور کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی تھی۔ اس یقین دہانی کے بعد ایم کیو ایم کی اعلیٰ قیادت سے تفصیلی مشاورت کے بعد حالیہ پیش رفت ہوئی ہے۔

باخبر ذرایع کا کہنا ہے کہ دونوں جماعتوں کے درمیان رابطوں سے مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت آگاہ ہے اور اس کی خاموش تائید سے مذاکراتی عمل آگے بڑھ رہا ہے۔ تاہم ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے ایک اہم راہ نما کا کہنا ہے کہ متحدہ کی حکومت میں شمولیت سے متعلق کوئی پروگرام زیرغور نہیں ہے۔ صوبے میں ان دو بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان رابطوں کا کیا نتیجہ برآمد ہو گا، یہ تو ابھی واضح نہیں ہے، مگر یہ ضرور ہے آصف علی زرداری ہر سطح پر سیاسی مفاہمت سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، جو ایک خوش آیند بات ہے۔

پیر کی شب بھی پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان مذاکرات کا ایک دور ہوا، جس میں پیپلزپارٹی کی طرف سے سید قائم علی شاہ، رحمان ملک، شرجیل میمن اور نثارکھوڑو شریک ہوئے جب کہ ایم کیوایم کی نمایندگی ڈاکٹر عشرت العباد خان نے کی۔ باخبر ذرایع کا کہنا ہے کہ یہ مذاکرات کا ابتدائی مرحلہ ہے، جس میں ایم کیوایم کی صوبائی حکومت میں شمولیت، نئے بلدیاتی نظام اور انتخابات سمیت دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

اندرون سندھ مختلف علاقوں میں بلدیاتی انتخابات سے قبل سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور اس میں تیزی آتی جارہی ہے۔ پچھلے دنوں فنکشنل لیگ کے سانگھڑ سے تعلق رکھنے والے راہ نما رانا عبدالستار نے کراچی میں چیف منسٹر ہاؤس میں سید قائم علی شاہ کے ساتھ پریس کانفرنس میں پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ انہوں نے اس موقع پر اپنی برادری کی طرف سے پارٹی کے ہر فیصلے کی تائید اور مکمل حمایت کا یقین بھی دلایا۔

اسی طرح نواب شاہ کی ممتاز سیاسی شخصیت محمد ہاشم بگھیو نے بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اس موقع پر شرجیل انعام میمن، روشن جونیجو، عاجز دھامرا، ڈاکٹر عبدالستار راجپر، ڈاکٹر سہراب سرکی، ضیاء الحسن لنجار، نذیر بگھیو، اصغر علی جونیجو، امیر بخش عمرانی اور دیگر بھی موجود تھے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے رانا عبدالستار کے لیے خیرمقدمی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کی کارکردگی اور عوامی خدمات سے متاثر ہو کر لوگ اس میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے جمہوریت، آئین اور اداروں کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔

دوسری طرف مسلم لیگ فنکشنل نے چیف الیکشن کمشنر کو خط ارسال کیا ہے، جس میں عدلیہ اور فوج کی نگرانی میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ فنکشنل لیگ کے جنرل سیکریٹری امتیاز احمد شیخ کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ کہ ڈپٹی کمشنر کی نگرانی میں حد بندیوں کو تسلیم نہیں کرتے۔ من مانی حلقہ بندیاں بلدیاتی الیکشن سے قبل دھاندلی کا آغاز ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ ن (سندھ) کے جنرل سیکریٹری سلیم ضیا، اراکین صوبائی اسمبلی عرفان اللہ مروت، حاجی محمد شفیع جاموٹ، ہمایوں محمد خان، سورٹھ تھیبو، سیکریٹری اطلاعات علی اکبر گجر اور صوبائی راہ نماؤں نے پچھلے دنوں شہر میں پانی کے بحران پر مشترکہ بیان میں موجودہ صوبائی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ سلیم ضیا نے کہاکہ پانی کا بحران صوبے کی بلدیاتی حکومت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کراچی واٹر بورڈ، صوبائی وزراء اور وی آئی پیز کی خدمت میں مصروف ہے اور کراچی کے شہری پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔

علی اکبر گجر نے شہر میں پانی کے ناغے کے پروگرام پر تنقیدکرتے ہوئے کہا کہ حکومت سندھ عوام کو سہولتیں فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے اور نئے مسائل سامنے لارہی ہے۔ عوام کو ٹینکر مافیا اور ناجائز منافع خوروں کے رحم و کرم پر چھوڑنے والی صوبائی حکومت کراچی کو مفلوج کرنا چاہتی ہے تاکہ بیرونِ ملک کے سرمایہ کاروں کو کراچی سمیت ملک بھر میں سرمایہ کاری کے لیے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی پیش کش کو ناکام بنایا جا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔