ڈاکٹر عبدالسلام: وطن کا فراموش کردہ بیٹا

زاہدہ حنا  منگل 26 نومبر 2013
zahedahina@gmail.com

[email protected]

صبح آنکھ کھلی تو گہری کہر تھی، چندگز کے فاصلے پرعمارتیں اورگلی میں دور تک کھڑی گاڑیاں نظر نہیں آرہی تھیں۔ٹیلی ویژن سے کہا جارہا تھا کہ ’’حد نظر صفر‘‘ ہے۔ دھوپ نکلی تو یہ کہر آہستہ آہستہ گھلتی چلی گئی لیکن ذہن میں اسی کا خیال رہا۔ رات گہری ہونے لگی تو اردو افسانے کی طلسماتی دنیا کے کوچہ و بازار کی سیر کرتے ہوئے اچانک میری نظر 14 برس کے اس لڑکے پر پڑی جو تیزی سے سائیکل کے پیڈل پر پیر مار رہا تھا۔ چہرہ دھوپ سے تمتمایا ہوا اور آنکھوں میںستاروں کی روشنی۔  اس نے ایک ہاتھ سے اپنے کوٹ کی جیب سے ایک اخبار نکالا اور میرے سامنے لہرایا۔

’’ میں لاہور سے آرہا ہوں، میرا نتیجہ آگیا ہے‘‘۔ اس کی آواز خوشی سے لرز رہی تھی۔ ’میں گھر جارہا ہوں‘۔ اس نے ایک بار پھر اخبار لہرایا اور پیڈل پر دیوانوں کی طرح پیر مارتا ہوا آگے بڑھتا چلا گیا۔ وہ آگے  جارہا تھا یا لوگ اس کی طرف بڑھتے آرہے تھے۔ اس کے شہر کے لوگ، مسلمان، ہندو، سکھ، خوشی سے جھومتے ہوئے۔ بھنگڑے ڈالتے ہوئے، عورتیں آنکھیں آنچل سے خشک کرتی ہوئی۔ لڑکے اور لڑکیاں اس نکّے کالے کو دیکھتے ہوئے جس نے میٹرک کے امتحان میں سارے پنجاب کو، لاہور سے لدھیانے اور انبالہ سے امبرسر تک سارے بچوں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ اس کی کامیابی، اس کی بستی کے ہر گھر کی کامیابی تھی۔ سائیکل چلاتے ہوئے اس بچے نے پلٹ کر میری طرف دیکھا۔ وہاں ایک بوڑھا تھا، چہرے پر زمانے کی تھکن، داڑھی کے سفید و سیاہ بال آنسوئوں سے بھیگے ہوئے۔ ’’تم لوگوں نے مجھے میرے گھر نہ آنے دیا۔‘‘

میرے سامنے وہ شخص تھا جس نے پاکستان کے ایٹمی اور خلائی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ جس کی کاوشوں کے بغیر ہم مسلم امہ کی پہلی ایٹمی طاقت نہیں بن سکتے تھے۔ جس نے حکومت پاکستان کو نیوکلیئر پلانٹ کی اہمیت باور کرائی۔ جس نے اعلیٰ سائنسی تحقیقات کے ادارے قائم کرنے کے لیے جان توڑ محنت کی۔ جس کے اثرو رسوخ سے یہ ممکن ہوسکا کہ 500 سے زیادہ پاکستانی نوجوان طبعیات کے مختلف شعبوں میں امریکا، کینیڈا، اٹلی اور انگلینڈ جاکر پی ایچ ڈی کرسکیں۔

وہ بیسویں صدی میں سائنس کی دنیا کے اہم ترین دماغوںمیں سے ایک تھا لیکن ذاتی صدمات نے آخر آخر اسے بولنے اور چلنے سے محروم کیا۔ اس کے باوجود وہ موت سے چند ہفتوں پہلے تک کام کرتارہا۔ وہ لوگ جو اس کے فولادی اعصاب کے قائل تھے ‘ انھوں نے کئی بار یہ منظر بھی دیکھا کہ کسی بین الاقوامی سیمینارمیں کوئی پاکستانی نوجوان سائنس دان‘ وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے اس شخص کے گھٹنوں کو ہاتھ لگارہا ہے اور اپنی مٹی سے جدائی کا غم اور اپنے دیس کی خوشبو کو محسوس کرتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسوئوں کا تار بندھا ہوا ہے۔سائنس دانوں کی بین الاقوامی برادری کا یہ کامیاب اور مشہور انسان دیار غیر میں دنیا سے رخصت ہوا‘دل شکستہ اور دل گرفتہ۔ جن فضائوں میں رہنا اس جلاوطن کی آرزو تھی‘ وہاں اس کا تابوت آیا۔

21 نومبر کو ڈاکٹر عبدالسلام کو ہم سے جدا ہوئے 17برس گزر گئے۔ عقیدے اور مسلک کی بنیاد پر ہماری نفرتیں ایک ایسی دلدل ہیںجو ہماری ذہانتوں کو نگل رہی ہیں اور ہم غریب سے غریب تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ میں نے جلسوں میں ڈاکٹر صاحب کو خراج تحسین ادا کیا اور وہ چلے گئے تو اپنی تحریروں میں کئی بار خراج عقیدت پیش کیا۔  مجھے کئی برس پرانی اپنی تحریر یاد آرہی ہے جب میں لکھا تھا کہ: سیاہ اچکن اور سفید شلوار‘ سرپر سفید پگڑی اور پیروںمیں کُھسّے پہنے ہوئے وہ شخص سویڈن کے بادشاہ سے نوبیل انعام لے رہا ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس کی قومیت پاکستانی اور شہریت انگلستانی تھی۔ 1926میں جھنگ میںپیدا ہوا تو برطانوی ہندوستانی تھا۔ 21نومبر 1996 کو آکسفرڈ میں اس جہان سے گزرا تو برطانوی پاکستانی تھا۔ نظری طبیعات کی دنیا کا ایک بہت بڑا نام۔ دنیا اس کے قدموں میں نگاہیں بچھاتی تھی اوروہ اپنے دیس کی فضائوںاورہوائوں کو ترستا تھا۔ بین الاقوامی سطح پر اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا گیا لیکن اس کے دیس نے اسے ٹھکرادیا۔

ڈاکٹر عبدالسلام کی زندگی کا بیشتر حصہ پاکستان سے باہر گزرا، وہ بار بار یہاں آیا لیکن ہر مرتبہ اسے واپس جانا پڑا، دنیا اس کی راہوں میں آنکھیں بچھاتی تھی لیکن ہم اس سے نگاہیں چراتے تھے۔ دنیا نے اسے 274 سے زیادہ ایوارڈ، اعزازات اور انعامات دیے، ان کے ساتھ ملنے والی رقوم کا تخمینہ کروڑوں ڈالر تک پہنچتا ہے۔ اس شخص نے یہ رقم اپنی ذات کے بجائے پاکستان اور تیسری دنیا کے ذہین اور ضرورت مند طلبہ کی اعلیٰ تعلیم اور تحقیق پر خرچ کی۔ یہ ا س شخص کا قصہ ہے جو شہنشاہ ایران کو دی جانے والی ضیافت میں ادھڑے ہوئے جوتے پہن کر چلا گیا تھا اس لیے کہ اس کے خیال میں نئے جوتے خریدنا فضول خرچی تھی۔

جھنگ کی مٹی کے مقدر میں عشق بلاخیز اور ابدی جدائی دونوں لکھ دیے گئے ہیں، تب ہی جھنگ کی ہیر ہو یا اس کے صدیوں بعد پیدا ہونے والا عبدالسلام دونوں ہی بیمارِ عشق رہے، اپنے وطن سے ہیر جیسا عشق ہمارے یہاں کس نے کیا ہے اور اس سے ایسی جدائی بھلا کس کا مقدر ہوئی ہے۔ لوگوں نے لکھا ہے کہ عالمی شہرت یافتہ لوگوں کے ہجوم میں وہ اپنی دھرتی کو یاد کرتے ہوئے ہچکیوں سے روتے تھے لیکن ان کی آہ بے اثر تھی، ان کا نالہ نارسا تھا!  انھوں نے آخری سانس ایک ایسی سرزمین پر لی جو ان کی اپنی نہ تھی اور ایک ایسے آسمان کے نیچے آنکھیں موندیں جو غیروں کا تھا۔

1979 میں طبیعات کا انعام لینے والے پاکستان اور عالم اسلام کے واحد شہری ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ ہم نے وہی کچھ کیا جو سیکڑوں برس سے اپنے عالموں، دانشوروں اور فلسفیوں کے ساتھ کرتے آئے ہیں۔ ہمارا حافظہ اتنا کمزور ہے کہ کل اپنے جن خرد افروز اور علم دوست مفکروں، دانشوروں اور فلسفیوں پر ہم نے کفر و الحاد کے فتوے لگائے تھے، جن پر زیست حرام کردی تھی، آج ہم ان ہی کے ناموں کے آگے رحمتہ اللہ علیہ اور ان میں سے بعض کے نام سے پہلے ’’امام‘‘ لکھتے ہیں۔ ہم بھول چکے ہیں کہ ابن حزم کا مدرسہ اور کتب خانہ ہم نے جلایا، اشبیلیہ میں اس کی تحریریں سربازار نذرآتش کی گئیں، کبھی اسے جلاوطن کیا کبھی قیدوبند کی صعوبتوں سے گزارا، آج وہ ہمارے لیے ایک محترم نام ہے۔ہم کسی کو یہ نہیں بتاتے کہ ہم نے ابن تیمیہ کی کتابیں نذر آتش کیں، اسے قید کیا اور جب اس پر بھی بس نہ چلا تو قید کے دوران اس سے تصنیف اور تالیف کی آزادی سلب کرلی، اس کی کتابیں اور مسودے ضبط کرلیے۔

آج ہم اسے ’’امام‘‘ لکھتے نہیں تھکتے اور تاریخ کا یہ سچ چھپاتے ہیں کہ کاغذ اور قلم سے محروم ہونے والے ابن تیمیہ نے اپنے قید خانے کی د یواروں پر ناخنوں سے کھرچ کر لکھا تھا کہ میری اصل سزا یہ ہے کہ ’مجھے کاغذ اور قلم سے محروم کردیا گیا‘۔ ہم نے ابن تیمیہ کے شاگرد ابن القیّم کو بھی معاف نہیں کیا، اسے بندی خانے میں رکھا، اونٹ پر بٹھا کر شہر بھر میں یوں پھرایا جیسے وہ کوئی مجرم ہو، اس کی کتابیں جلائیں۔مسلم دنیا کا آخری نادرِ روزگار اور عظیم ہیئت داں، عالم اور فلسفی ابن رشد، جو اپنے خیالات و افکار کے سبب ذلیل و رسوا ہوا، جسے مسجد قرطبہ کی سیڑھیوں پر نمازیوں کے جوتے صاف کرنے کی سزا دی گئی، جسے جلاوطن کیا گیا، جس کی کتابیں قرطبہ کے چوک پر الائو میں جھونکی گئیں۔ آج اسی ابن رشد کے حوالے سے ہم یورپ میں نشاۃ ثانیہ کا سہرا اپنے سرباندھتے ہیں اور فخر سے یہ کہتے ہیں کہ راجر بیکن نے 1230 میں ابن رشد کی کتابوں کے لاطینی ترجمے کو یورپ کی علمی تاریخ کا ایک  عظیم واقعہ قرار دیا تھا۔

عالم اسلام میں علم پروری اور عقل دوستی کا زوال ابن الہیشم اور البیرونی سے پہلے ہی شروع ہوچکا تھا اور یہ عمل بارہویں صدی کے آخری برسوں میں ابن رشد کی ذلت آمیز جلاوطنی کے ساتھ مکمل ہوا۔ابن رشد کو ہسپانیہ کے یہودیوں نے سینے سے لگایا اور اس کے خیالات و افکار یورپ کی علمی اور سائنسی ترقی کا نقطۂ آغاز بنے اور ہم آج آٹھ سو برس بعد بھی اتنے ہی بدبخت ہیں کہ ہم نے اپنے ایک نابغۂ روزگار کے لیے اس کے اپنے ملک میںعرصہ حیات اس پر تنگ کردیا۔ اپنے اس نابغۂ روزگار کو ہم نے پاکستان میں دفن ہونے کی ’’اجازت‘‘ دی اس کے لیے ہمیں اس وقت کی حکومت کا  ممنون ہونا چاہیے اور اس بات کاشکوہ نہیں کرنا چاہیے کہ ان کی تدفین سرکاری اعزاز کے بغیر ہوئی۔ 1998 میں ’’پاکستانی سائنسدان‘‘ سیریز میں ان کا نام بھی شامل ہوا اور محکمۂ ڈاک نے ان کا یادگاری ٹکٹ بھی جاری کیا‘ اس کے لیے ہمیں نواز شریف حکومت کی ’’ہمت‘‘ کا شکر گزارہونا چاہیے۔

ڈاکٹر عبدالسلام بیسویں صدی کی عظیم ذہانتوں میں سے ایک تھے۔ جس دھرتی سے ان کا خمیر اٹھا اسے ان پر ناز کرنا چاہیے تھا لیکن یہ ان کی نہیں ہماری سیہ بختی ہے کہ ہم نے انھیں جلاوطنی اور بے توقیری کے عذاب میں ڈالا۔ علم دشمنی، جہل دوستی، انتہا پسندی اور تنگ نظری کی دبیز کہر  ہمارے شہروں،قریوں، گھروں اور بازاروں میں اتر آئی ہے۔ ہمارے بارے میں ’حد نظر صفر‘ کا اعلان ہورہا ہے۔ ایسے میں ہم کہاں جائیں، ہمارے لیے علم پروری اور رواداری کی دھوپ کب نکلے گی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔