یہ وقت بڑھک بازی کا نہیں

نصرت جاوید  منگل 26 نومبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

عمران خان صاحب بڑے خوش نصیب ہیں، ان کی جماعت میں ایک نہیں تین ایسے افراد موجود ہیں جو پاکستانی سیاست کے بڑے اہم ادوار میں پاکستان کے وزیر خارجہ رہے ہیں۔ ہمارے خطے میں سرد جنگ کے اختتام کے بعد جو تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں سردار آصف احمد علی نے انھیں بڑے قریب سے دیکھا تھا۔ احمد رشید اور ضیاء الدین صاحب جیسے باعلم اور تجربہ کار صحافیوں کے ساتھ سردار صاحب نے وسط ایشیائی ریاستوں کا ایک طویل دورہ کیا اور یہ دورہ 1990 کی دہائی کے ان ابتدائی سالوں میں ہوا جب سوویت یونین ٹوٹ کر بکھر رہا تھا اور اس کی محکوم ریاستیں اپنی آزاد اور خودمختار حکومتیں قائم کرنا شروع ہو گئی تھیں۔ سردار صاحب ان دنوں نواز شریف کی پہلی حکومت کے وزیر برائے اقتصادی امور ہوا کرتے تھے۔

انھوں نے اپنے اس طویل دورے کے دوران بڑی دیانت داری سے یہ محسوس کیا کہ اگر پاکستان نے مذہبی انتہاء پسندی کے حوالے سے اپنی شناخت کا ٹھنڈے دل سے جائزہ نہ لیا تو وہ ایک دن عالمی برادری میں تنہاء کھڑا نظر آئے گا۔ نواز شریف کے دنوں میں ’’قومی سلامتی‘‘ کے مختار بنے افراد ان کے خیالات اخباروں میں پڑھ کر چراغ پا ہو گئے۔ ایک وفاقی وزیر ہوتے ہوئے بھی سردار صاحب کو ’’خطرناک انقلابیوں‘‘ کی طرح کچھ دن ’’زیر زمین‘‘ رہنا پڑا۔ بالآخر انھوں نے اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل میں نمودار ہو کر نواز شریف کی حکومت سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا۔ اس کے چند دن بعد اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف صاحب کی حکومت کو برطرف کر دیا۔ طویل سیاسی بحران کے بعد نئے انتخابات ہوئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو ایک بار پھر وزیر اعظم بن گئیں۔ سردار صاحب کو حامد ناصر چٹھہ کی مسلم لیگ کے کوٹے سے وزیر خارجہ بنا دیا گیا۔

خورشید قصوری صاحب ایک وضع دار اور پڑھے لکھے انسان ہیں۔ ایک زمانے میں اصغر خان کی تحریکِ استقلال میں ہوا کرتے تھے۔ جنرل ضیاء نے جب بھٹو کی حکومت کو برطرف کیا تو اصغر خان اور ان کی جماعت کو تاثر کچھ ایسا دیا کہ نئے انتخابات کے بعد وہ تحریکِ استقلال کا وزیر اعظم دیکھنا چاہیں گے۔ اس جماعت کے لوگوں کو ’’مستقبل کی حکومت‘‘ کے طور پر تیار کرنے کے لیے جنرل ضیاء نے ان کی شہنشاہ ایران سے ملاقات کا انتظام کروایا۔ یاد رہے کہ ان دنوں شاہ ایران ہمارے علاقے میں امریکا کی جانب سے لگایا تھانے دار سمجھا جاتا تھا۔ خورشید قصوری اس وفد میں شامل تھے جو ایران بھیجا گیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ خورشید صاحب کو بین الاقوامی معاملات کے حوالے سے اپنے جوہر دکھانے کا اصل موقع جنرل مشرف کے دنوں میں ملا۔ 2002سے 2007 تک وہ اس ملک کے وزیر خارجہ رہے اور بڑی جرأت سے ہر وہ بات کہتے رہے جو ان کی نظر میں پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ضروری محسوس ہو رہی تھی۔ جنرل مشرف کے ’’قومی سلامتی والے‘‘ ان کی باتوں کو زیادہ پسند نہیں کرتے تھے مگر مشرف نے انھیں اپنی بات کہنے سے کبھی نہ روکا۔

خورشید صاحب کے بعد آتے ہیں مخدوم شاہ محمود قریشی کی طرف۔ 2008 کے انتخابات کے بعد وہ خود کو وزیر اعظم کے عہدے کا مستحق سمجھتے تھے۔ آصف زرداری نے مگر پسند یوسف رضا گیلانی کو کیا۔ شاہ محمود کو وزارتِ خارجہ ملی اور یہ وزارت انھوں نے اپنی مرضی سے چلائی اور صدر، وزیر اعظم کو اس کے معاملات میں کوئی مداخلت نہ کرنے دی۔ پھر ریمنڈ ڈیوس والا واقعہ ہو گیا اور مخدوم صاحب استعفیٰ دے کر تحریکِ انصاف میں چلے آئے۔

عمران خان بار ہا بڑی شدت کے ساتھ یہ دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ اس ملک کی ’’روایتی‘‘ سیاسی جماعتوں کے برعکس تحریکِ انصاف میں حتمی فیصلہ سازی صرف ’’لیڈر‘‘ نہیں کرتا، ایک بھرپور جمہوری عمل کے ذریعے کسی بھی اہم معاملے پر زبردست بحث مباحثہ ہوتا ہے اور پھر تحریک انصاف کوئی فیصلہ اپنا کر اس پر ڈٹ جاتی ہے۔ مجھے نہیں خبر کہ آج کل عمران خان کے سردار آصف احمد علی کے ساتھ کس نوعیت کے تعلقات ہیں، خورشید صاحب اور شاہ محمود قریشی تو اب بھی ان کے دائیں بائیں نظر آتے ہیں، میں یہ بات مان ہی نہیں سکتا کہ ان دونوں حضرات کو یہ اندازہ نہیں کہ موجودہ حالات میں نیٹو سپلائی کو روکنے کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔ اب یہ بات تو عمران خان اور یہ دو حضرات ہی جانتے ہیں کہ ان نتائج پر ان کے مابین ٹھنڈے دل سے غور ہوا یا نہیں، قفس کے ایک گوشے میں بیٹھا ہوا میں البتہ یہ محسوس کر رہا ہوں کہ ایسا ہرگز نہیں ہوا۔

تحریک انصاف کے انٹرنیٹ انقلابیوں کا مسئلہ ہے کہ ان کی جماعت کی پالیسیوں پر تنقید کی جائے تو وہ آپ کو امریکی ایجنٹ ثابت کرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ لیپ ٹاپ پر غلط سلط زبان میں ہذیانی کلمات لکھتے ’’چی گویرا‘‘ اور ’’مائوزے تنگ‘‘ اس حقیقت سے بالکل بے خبر ہیں کہ 1950کی دہائی کے بعد سے وہ کون لوگ تھے جنہوں نے امریکا کے ساتھ پاکستان کے فوجی اتحاد کے خلاف آواز بلند کرنے کے جرم میں اپنی زندگیاں صرف کر دیں۔ کسی بھی ملک کی سلامتی اور بقاء کے فیصلے بڑھک بازوں کے حوالے کر دینا تو ویسے بھی ایک جرم عظیم ہے، لمحوں کی خطائیں صدیوں تک بھگتنا پڑتی ہیں۔

افغانستان میں مقیم نیٹو افواج کو جو رسد جاتی ہے وہ ریاستِ پاکستان نے چند ہی برس پہلے پورے سات ماہ تک بند رکھی۔ امریکا نے اسے کھلوانے کے لیے کوئی خاص تردد نہیں کیا تھا۔ اپنی اقتصادی مشکلات کی وجہ سے بالآخر پاکستان ہی ’’اسی تنخواہ‘‘ پر گزارہ کرنے پر مجبور ہوا۔ اب تو صورتِ حال میں ایک بنیادی تبدیلی آ گئی ہے۔ امریکا کا ایران کے ساتھ ایک معاہدہ ہو گیا ہے۔ صدر اوباما اپنے اقتدار کے آخری سالوں میں ایران کے ساتھ وہی کچھ کرنا چاہ رہے ہیں جو نکسن نے چین کے حوالے سے طے کر کے دُنیا کو چونکا دیا تھا۔ امریکا اور ایران کے درمیان جس عمل کا آغاز ہوا ہے اس نے پاکستان کی محض ’’جغرافیائی‘‘ حقیقتوں کی وجہ سے اہمیت کو کمزور کر دیا ہے۔ بس ذرا نقشہ اُٹھا کر چاہ بہار نام کی بندرگاہ ڈھونڈ لیجیے۔

یہ گوادر کے مقابلے میں کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور Functional ہے۔ بھارت نے اس بندرگاہ کو افغانستان تک رسائی کے لیے آسان اور سستا بنانے کے لیے اربوں روپے سے سڑکوں کا ایک جال بنایا ہے جو افغانستان کے صوبہ نیمروز سے وہاں تک ان علاقوں سے بچتا ہوا پہنچ جاتا ہے جہاں طالبان بہت سرگرم ہیں۔ اپنے مخصوص قومی مفادات کے تحت ایران بھی افغانستان میں طالبان کی حکومت کو دوبارہ قائم ہوتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہے گا۔ جذبات و خیالات اس ضمن میں بھارت کے بھی ایران جیسے ہیں۔ ہم نیٹو افواج کی سپلائی ہی نہیں افغانستان جانے والی اشیاء کی راہ میں رکاوٹ ڈال کر بھارت اور ایران کو اس بات کا بھرپور موقعہ دیں گے کہ وہ متحد ہو کر افغانستان کی رسد کے حوالے سے مشکلات ہمیشہ کے لیے دور کر دیں۔ ایرانی بندرگاہ اور سڑکیں پاکستانی بندرگاہوں اور سڑکوں کا متبادل بن گئیں تو ہماری دوسرے ملکوں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے نہیں بلکہ ٹھوس معاشی بنیادوں پر اپنی قومی مشکلات میں شدید اضافہ ہو جائے گا۔ یہ وقت بڑھک بازی کا نہیں حکمت و فراست کا تقاضہ کرتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔